• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاقی میزانیہ(بجٹ) 22-2021 کا اعلان ہوا اور پھر اس پہ قومی اسمبلی میں بحث شروع ہوئی۔ بحث شروع ہونے سے پہلے سب کو بجٹ دستاویزات کا بنڈل پیک کرکے دیا جاتا ہے۔ جس میں بجٹ اردو، انگریزی زبانوں میں، وزیر خزانہ کی تقریر دونوں زبانوں میں اور اعدادوشمار کی تفصیلات شامل ہوتی ہیں۔ یوں ایک بنڈل بنتا ہے جو تمام ممبران پارلیمنٹ میں تقسیم کیا جاتا ہے جن کی تعداد 442 ہے۔ اس کے علاوہ اس بجٹ دستاویزات کا بنڈل مختلف وفاقی و صوبائی اداروں کے لئے بھی تیار کیا جاتا ہے۔ یوں اس کی تعداد ہزار سے اوپر ہوجاتی ہے۔ اب ذرہ اندازہ لگائیں کہ ان کے پرنٹ ہونے اور پھر binding ہونے میں کتنا خرچہ آتا ہوگا۔ یہ لاگت لاکھوں میں آتی۔ کیوں کہ ہر "سرکاری کام تین گنا سے چار گنا مہنگا" کیا جاتا ہے۔ بہترین امپورٹڈ کاغذ استعمال کیا ہے تاکہ ممبران کے ہاتھ "کھردرے" نہ ہوجائیں ۔ ان تمام اخراجات کی ادائیگی خزانے سے کی جاتی ہے اور خزانے میں پیسہ "خلا" سے آتا ہے اس لئے اس کے بےدریغ استعمال پر کسی کا دل نہیں دکھتا) اور اس کا کیا استعمال ہوتا ہے ؟ جس کا عملی نمونہ آپ سب نے اپنی television screen پہ با خوبی دیکھا ہوگا ۔ اگر نہ بھی دیکھا ہو سوشل میڈیا ایسی videos سے بھرا پڑا ہے۔ کیا ایک وفاقی بجٹ کے دستاویز کی ارکان پارلیمنٹ کے سامنے یہی اہمیت اور اوقات ہے کہ اسے "دشمنوں کے خلاف ہتھیار" کے طور پر استعمال کیا جائے؟ ابھی ان لوگوں نے بجٹ دستاویزات کے بنڈل کوکھولا بھی نہ تھا۔ ان کو ابھی اندازہ نہیں ہے کہ بجٹ میں ہے کیا کیوں کہ بجٹ تقریر تو صرف خلاصہ ہوتا ہے ساری تفصیل تو بجٹ پڑھنے کے پتا چلتی ہے۔ لیکن بجٹ کی تفصیلات جاننی کس کو ہے۔ اپوزیشن کو ایک ہی جملہ بولنا ہے کہ " عوام دشمن بجٹ ہے غریبوں کو فائدہ نہیں ہوگا" حکومتی ارکان کی طرف سے دعوی ہوگا ک " عوام دوست بجٹ ہے ملکی تاریخ میں ایسا بجٹ نہیں بنا ہوگا" ۔ بس کہانی ختم بجٹ کوئی نہیں پڑھے گا اور نہ ہی کوئی پڑھتا ہے ۔ سارا زور زبانی جمع خرچ اور لفاظی پر ہوتا۔ پچھلی نشستوں پہ بیٹھنے والے back bencheres صرف ممبر پارلیمنٹ کا اسٹیٹس انجوائے کرنے آتے ہیں۔ انھیں امور پارلیمنٹ سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ لیکن یہ خاص موقعوں پہ بہت ایکٹو ہوتے ہیں جب پارلیمنٹ میں ہنگامہ آرائی کروانا ہو تو یہ بیک بینچرز، غیر فعال ممبران بڑے متحرک ہوجاتے ہیں۔ نعرے بازی کرنے، گالم گلوچ کرنے ، طعنہ تشنہ کرنے اور چیزیں اٹھا کے پھینکنے اور اسپیکر قومی اسمبلی یا چیرمین سینیٹ کا گھیراو کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ ان میں سے اکثریت کو کبھی پارلیمنٹ میں آتے دیکھا ہی نہیں گیا ہوگا لیکن یہ تنخواہ اور مراعات ساری وصول کرتے ہیں ۔ اگر غلطی سے پارلیمنٹ آ بھی جائیں تو سوتے رہتے ہیں یا پھر زبردستی لائے جاتے ہیں تاکہ ووٹوں کی مطلوبہ تعداد حاصل ہوسکے۔ کیا اسی کا نام " representative democracy " ہے ؟ یہ افراد کس کی نمائندگی کرتے ہیں ؟ یا اپنے حلقے کے لوگوں کے لیے شرمندگی کا باعث بنتے ہیں؟لیکن کیا فعال اراکین پارلیمنٹ اس "غلیظ" عمل کا حصہ نہیں تھے؟ جی جناب ایسی کسی خوش فہمی میں مت رہیئے گا ۔ انسانی حقوق کی وزیر صاحبہ اصرار کرکے دوسرے وزیر صاحب سے بجٹ کی کتاب کو میز پر پٹخواہ رہی تھی اور ہر بار بار کہتی رہیں اور زور سے اور زور سے اور خوب قہقہے لگا رہی تھیں۔ واہ واہ "کسقدر پر وقار انداز تھا ان کا"۔ مراد سعید صاحب وفاقی وزیر کے عہدے پر فائز ہیں لیکن لگتا ہے "مکتب" کی شکل نہیں دیکھی۔ انتہائی جارحانہ انداز میں رہتے ہیں شاہ سے بڑھ کر شاہ کے وفادار ہیں۔ اپنے جذبات اور زبان پر بالکل کنٹرول نہیں ہے "بینچوں پہ جوتوں سمیت چڑھ" کر بجٹ دستاویز اچھال اچھال کر پھینک رہے تھے۔ اس دھمال چوکڑی میں ملکی دفاع کے ذمہ دار خٹک صاحب بھی پیش پیش رہے۔ اور بالنگ کرنے کے انداز میں اپوزیشن پہ تاک تاک کہ بجٹ کی کتاب کے باؤنسر پھینکے۔ سب سے زیادہ معتبر اور سلجھے ہوئے مزاج کے وفاقی وزیر جناب اسد عمر صاحب کیمرے کی آنکھ سے بچنے کے لیے پیچھے چلے گئے اور لوگوں کو حملے کرنے کے طریقے طریقے سکھا رہے تھے اور جب ان ہدایت کے عین مطابق حملہ ہوتا تو خوشی سے پھولے نہیں سماتے، افسوس یہ سب کیمرے کی آنکھ نے محفوظ کرلیا۔

minhajur.rab@janggroup.com.pk

تازہ ترین