• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پنجاب کی تنظیم سازی کی ذمہ داری دی گئی سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کو ہم سمجھے وہ ری آرگنائزیشن میں دیر کررہے ہیں۔ لیکن بات کچھ اور تھی اس اثناء میں ناراض اراکین اور نئے خواہشمند سوچ رہے تھے کہ اپنی سیاسی امنگ کو کس کروٹ بٹھانا ہے۔ سمجھ میں یہ آیا کہ یہ ایک سیاسی بریک تھی جو اس لئے لگائی گی کہ جس نے گاڑی پر چڑھنا ہے بسم اللہ۔ لیکن اس دوران تین چار نام سنٹرل پنجاب کے سامنے آتے رہے مگر جنوبی پنجاب میں کوئی واضح ہلچل نظر نہیں آئی تاہم سنٹرل پنجاب کی صدارت کیلئے پہلے فیصل صالح حیات کا نام آیا اب قاسم ضیا کا نام ہے۔ منظور وٹو پھر پیپلز پارٹی میں آگئے ہیں کچھ لوگ ان کا نام بھی لے رہے ہیں۔ بہتر ہے گوندل برادران اور ندیم افضل چن وغیرہ وغیرہ کی راہ دیکھ لیں۔

آصف علی زرداری کی لاہور آمد میں جو چیز نمایاں نظر آئی وہ یہ کہ پیپلز پارٹی کے ناراض الیکٹ ایبل کو واپس لایا جائے اور تساہل کی چادر اوڑھ کے سونے والے الیکٹ ایبلز کو جگایا جائے۔ اس میں ایک باریک سا نکتہ اور موٹی سی بات یہ بھی کہ دانہ اور دانائی الیکٹ ایبلزکیلئے استعمال ہورہی ہے ووٹرز اور کارکنان کی واپسی کی منصوبہ بندی اگلے مرحلے میں۔

اگلا مرحلہ درحقیقت الیکٹ ایبلز اور ان کی برادریوں اور اثرورسوخ کا مرحلہ ہے کہ وہ ووٹرز کے لئے کس قدر جاذب نظر بنتے ہیں۔ بہرحال دوسرے مرحلہ کے معاملہ اور نزاکت کو اپنی جگہ ایک بڑی دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا۔ وہ یہ کہ الیکشن 2013 سے انتخابی کیمسٹری میں ایک بڑا تغیر آچکا ہے۔ پنجاب اور کے پی میں نوجوانوں کا جھکاؤ تحریک انصاف کی جانب ہے اور اس میں انہوں نے کنبوں کے سربراہان سے بغاوت کی یا انہیں ساتھ ملاکر دم لیا۔ پیپلز پارٹی کے متعدد لوگ نواز شریف کو ہرانے کی خواہش میں تحریک انصاف میں گئے اور جماعت اسلامی کے حامیوں سے اراکین تک نے تحریک انصاف کیلئے سیاسی رخت سفر باندھے رکھا۔ ان کا واپس آنا مجھے آسان نہیں لگتا۔ ہاں ان میں سے جو فلوٹنگ ووٹرز ہیں ان کا اب تحریک انصاف کے سنگ رہنا ممکن نہیں لگتا کیونکہ اسد عمر کی وعدہ خلافیاں اور بالآخر پی پی پی ہی کے سابقین شوکت ترین و حفیظ شیخ ہی سے استفادےکی مجبوری، طارق ملک ہی ملا پھر نادرا کیلئے ، قسم کھاکر بغیر کفارہ ادا کئے آئی ایم ایف سے رجوع اور کل جس پر تنقید کے تیر داغتے تھے کہ کیوں اثاثے گروی رکھتے ہیں آج انہی ائیر پورٹس اور بچی کھچی موٹر ویز کو گروی رکھنے والوں سے چشم بینا رکھنے والوں کو شکایت تو ہوگی۔

ان سب باتوں کے باوجود تاریخ کی بازگشت یہ ہے کہ مرکز میں حکومت اسی نے بنائی جس نے پنجاب جیتا۔ زیادہ سے زیادہ تبدیلی اس میں یہ ممکن ہے کہ کوئی انیس بیس کے فرق سے ہارکر بھی مرکزی حکومت کا حامل ہوجائے۔ بی بی کے دور تک 1997 الیکشن کے اسپیشل حالات کے علاوہ پیپلز پارٹی وفاق کی زنجیر رہی۔ دوسرا مطلب یہ بھی نکلتا ہے کہ زرداری دور 2008 کے مطابق معمولی اکثریت کے بل بوتے پر مفاہمت کی راہ پر چل کے بلامقابلہ وزیر اعظم بھی پارلیمنٹ سے منظور کرایا جاسکتا ہے۔ ان دو چیزوں کے موازنہ سے سے جو قلعی کھلتی ہے وہ یہ کہ اگر آصف علی زرداری ماضی کی طرح کے مفاہمت ساز ثابت ہوئے توپھر سیاسی و انتخابی نقشہ بدل سکتا ہے صرف الیکٹ ایبلز سے نہیں۔ مطلب یہ کہ پنجاب کی ڈیرہ داری میں چار اہداف کو فوکس کیا گیا تو نتائج بہتر ہوسکتے ہیں دو دنوں کے میلے سے نہیں :

1۔ الیکٹ ایبلز کو لایا اور روٹھوں کو منایا جائے۔

2۔ تنظیم سازی کی پاداش میں وہ چہرے سامنے آئیں جو لوگوں کی غمی خوشی میں شامل ہوں، وہ خود ہی اینکر , خود ہی تجزیہ کار ، خود ہی کالم نگار اور خود ہی رپورٹر نہ بنے رہیں بلکہ ان سب سے ربط کو رواج بخشیں ورنہ لالہ موسیٰ کی سیٹ بھی نہیں رہتی اور لاھور میں بھی صرف چار ہزار ووٹ ملتے ہیں۔

3۔ جب تک بلاول ہاؤسلاہور محض خواص کیلئے کھلے گا اور اس کی ڈیرہ داری صرف سیاسی پنڈتوں کیلئے حلال اور کارکنان کیلئے حرام ہوگی تو بیل منڈھے چڑھنا ممکن نہیں۔ چار دن آئیں ہلچل مچائیں اور پھر خاموشی۔ یہ شاید پنجابی ڈیرہ داری کا مزاج نہیں ہے۔ بےنظیر بھٹو کا تاثر وفاقی تھا سندھی نہیں مگر عصر حاضر میں حالات و واقعات و مشاہدات بےنظیر حقیقت کے بالکل برعکس ہیں!

4۔ واضح رہے کہ 1988اور 1993میں بھی پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ اور ہم نواؤں کی اکثریت تھی جبکہ ممبرانِ قومی اسمبلی پیپلز پارٹی کے زائد تھے سو پنجاب میں پیپلز پارٹی کسی کو نوکریاں دے سکی نہ ریلیف پس عددی اکثریت آج بھی نون لیگ کی ہے مگر ان دنوں بیانیے صرف دو ہیں ایک پیپلز پارٹی اور دوسرا تحریک انصاف۔ اس صورت حال میں ایک زرداری سب پر بھاری والا نعرہ اور فارمولہ کارگر ثابت نہیں ہوسکتا۔ ٹیم ورک چاہئے مگر پنجاب میں ٹیم بھی تو نہیں ہے‘ عوامی چہرے ہیں نہ سیاسی مہرے!!

پیپلز پارٹی میں جب حکومت چھوڑ کر شامل ہوتے ہوئے لیڈران دیکھیں تو پھر کسی امید کو تقویت بخشئے گیا فی الحال تو پیپلز پارٹی پنجاب میں محض بقا کی جنگ لڑی رہی ہے حصول اقتدار کی نہیں۔

پنجاب میں ڈیرہ داری کے کچھ پروٹوکول ہیں: کتنے خواص اور کتنے عوام سے ملے؟ کتنے آفیسرز اور ٹیکنوکریٹس کا چوری چھپے سلام آیا؟ عقیدت مند اور ضرورت مند خود چل کر کتنے آئے؟ آپ کی ایک جھلک کو کتنے لوگ ترسے؟ آپ نے کتنے سعید غنی و ناصر شاہ اور کتنے نوید قمر اور خورشید شاہ دریافت کئے؟ لاہور میں کوئی راستہ اور ملتان میں گیلانی صاحب کے بیٹوں کے علاوہ کتنے امیدوار نظر آئے؟ پرویز الٰہی و شہباز شریف کلچر سے ہم آہنگی کے ثمرات کی کھٹاس اور مٹھاس کے حوالے سے سیاسی کسوٹی کیا کہتی ہے؟ 'مستشرقین، منافقین اور مخلصین کی آمد کی شرح کیا ہے؟ خوش فہمی و غلط فہمی سے نجات کتنی ملی؟ پنجابی ڈیرہ داری کا بوجھ اٹھانے کی کندھے اجازت بھی دے رہے ہیں کہ نہیں؟

تازہ ترین