پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کو ختم کرکے اس کی جگہ پاکستان میڈیکل کمیشن (پی ایم سی)کی تشکیل تو یقیناً اچھے مقصد کے لئے کی گئی ہوگی لیکن ملک بھر میں اس کے خلاف احتجاج اس امر کی غمازی کررہاہے کہ شاید اس کی تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی۔ پاکستان ایسوسی ایشن آف پرائیویٹ میڈیکل اینڈ ڈینٹل انسٹی ٹیوشنز (پامی) کی جنرل کونسل نے پی ایم سی کی پالیسیوں کو میڈیکل پروفیشن کے مفاد کے منافی قرار دیتے ہوئے اس کے بائیکاٹ کا اعلان کیا اور مطالبہ کیا ہے کہ ایڈمیشن ریگولیشن 2021کو معطل اور اس کی باڈی میں شامل ناتجربہ کار افراد کو فارغ کیا جائے۔ پامی کا کہنا ہے کہ پی ایم سی کی غلط پالیسیاں میڈیکل ایجوکیشن کو تباہ کر رہی ہیں۔ یہ صورتحال پیشہ ورانہ تجزیے کی متقاضی ہے۔ پی ایم سی کے خلاف بڑی شکایت یہ ہے کہ اس کے تنظیمی ڈھانچے کے باعث جو پالیسیاں بنائی جارہی ہیں ان کے نتیجے میں میڈیکل تعلیم بے محابا مہنگی ہوگئی ہے اس کے خلاف بھی ڈاکٹر سراپا احتجاج ہیں۔ مسلمہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر میں زندگی کے تمام شعبوں میں پیشہ ورانہ مہارت کے حامل افراد کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ اس کے برعکس ہمارے قومی اداروں میں نان ٹیکنیکل لوگ نان پروفیشنلز کو اہم عہدوں پر بٹھا دیا جاتاہے۔ وکلاء کےحقوق کا تحفظ کرنے والی بار کونسل میں وکلاء صاحبان ہی عہدیدار ہوتے ہیں، اسلامی نظریاتی کونسل میں علمائے کرام جبکہ انجینئرنگ کونسل میں انجینئرز رکھے جاتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں میڈیکل کالجز اور دیگر طبی شعبوں کو کنٹرول کرنے کے لیے ’’پاکستان میڈیکل کمیشن‘‘ (پی ایم سی) کے نام سے جو ادارہ قائم کیا گیا ہے اس میں زیادہ تر غیر پیشہ ور لوگوں کو تعینات کیا گیا ہے۔ میڈیکل کالجوں کے قواعد وضوابط مرتب کرنا اور ان پر عمل درآمد کی براہ راست ذمہ داری پی ایم سی کو سونپی گئی ہے لیکن بدقسمتی سے اس ادارے میں اہم ترین عہدوں پر فائز بیشتر لوگ میڈیکل امور سے ناآشنا ہیں۔ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل محدود وسائل کے باوجود ایک منافع بخش ادارہ تھا۔ عہدیدار الیکشن کے ذریعے منتخب کئے جاتے تھے جبکہ پی ایم سی میں نامزدگیاں کی جاتی ہیں، پی ایم سی کے نیچے میڈیکل اکیڈیمک بورڈ بنایا گیا ہے جس میں وائس چانسلر سمیت مختلف ارکان کو ادارے کی پالیسیاں بنانے کا اختیار دیا گیا ہے لیکن کسی بھی پالیسی کو منظور کرنے کا حتمی اختیار میڈیکل کمیشن کے پاس ہے۔ پی ایم ڈی سی کو جب توڑا گیا تو بہت سے ملازمین کو فالتو قرار دے کر نکال دیا گیا لیکن 88 نئے ملازمین بھی رکھ لئے گئے۔ نیا ادارہ بنانے کا مقصد اسے منافع بخش بنانا تھا۔ جبکہ ادارے کا سالانہ بجٹ 35 کروڑ سے بڑھا کر اندازاً 2 ارب روپے تک کر دیا گیا۔ نئے قواعد کے مطابق طلبہ کے داخلے کے لئے 20 فیصد اضافی نمبر دینے کی سہولت دی گئی ہے۔ اس سہولت کی وجہ سے بدعنوانی کے واقعات سامنے آئے ہیں ۔ سرکاری میڈیکل کالجوں میں کامیابی کےلئے 95فیصد نمبر درکار ہوتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں نجی کالجوں میں 60فیصد نمبر لینے والوں کو داخلے دیئے جارہے ہیں۔ پانچ سال کی طویل مدت میں ایم بی بی ایس اور بی ڈی ایس کرنے والے طالب علم پر،کونسل میں رجسٹریشن، کروانے سے پہلے ایک امتحان دینے کی پابندی عائد کی گئی ہے جس میں 5سالہ میڈیکل کورس ڈالا گیا ہے اس امتحان میں پاس ہونے کیلئے 70فیصد نمبر لینا لازم قرار دیا گیا ہے۔ اس کیلئے اندازاً 20 ہزار روپے فیس رکھی گئی ہے۔ اس کورس کے لئے تقریباً 16 ہزار ڈاکٹر ہر سال امتحان دیں گے تو اس مد میں 30سے 40کروڑ روپے کی خطیر رقم غریب امیدواروں کی جیبوں سے نکالی جائے گی۔ ایم بی بی ایس کرنے والے کو دوبارہ امتحان سے گزارنا حیرت انگیز ہے۔ یہ امتحان پاس کئے بغیر کوئی ایم بی بی ایس /بی ڈی ایس نوجوان ملازمت کرسکے گا اور نہ ہی پریکٹس ۔ ڈاکٹرز کیلئے رجسٹریشن فیس 500روپے سے بڑھا کر 2000روپے کردی گئی ہے۔ یہاں اوسطاً 3لاکھ ڈاکٹرز سالانہ تجدید کرائیں گے، گویا اس مد میں سالانہ تقریباً 60 کروڑ روپے کی کثیر رقم وصول کی جائے گی۔ میڈیکل کالجوں کو میڈیکل کونسل سے ہٹا کر ایچ ای سی کے سپرد کردیا گیاہے۔ کالجوں کی ایکریڈیشن جو پہلے پی ایم ڈی سی کے سپرد تھی اب ایچ ای سی کے کنٹرول میں دے دی گئی ہے۔ کالجوں کو اپنی مرضی و منشاء کے مطابق کسی بھی میڈیکل یونیورسٹی سے الحاق کی آزادی دی گئی ہے اور انہیں نصاب کا تعین ودیگر پالیسیاں بنانے کا اختیار بھی دے دیا گیا ہے۔ پی ایم ڈی سی ماضی میں کالج کی فیکلٹی اور تعداد کو چیک کرنے کی مجاز تھی لیکن اب یہ سلسلہ ختم کردیا گیا ہے۔ پہلے غیر ملکی طلبہ کو داخلہ نہیں دیا جاتا تھا لیکن اب چین اور روس وغیرہ سے آنے والے طلبا کو مائیگریشن کی سہولت دے دی گئی ہے۔ گزشتہ دنوں کمیشن نے میڈیکل کالجوں میں داخلے کیلئے ایک امتحان لیا تھا جس میں مبینہ طور پر بے ضابطگیاں بھی سامنے آئیں۔ اس حوالے سے کئی کیس عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ اور اب اس امتحان کی فیس بھی 500سے بڑھا کر \6000روپے کردی گئی ہے۔ یہاں بھی اگر ڈیڑھ لاکھ طلبہ MD CAT کا امتحان دیں تو سالانہ 90کروڑ روپیہ غریبوں کی جیب سے ہی نکالا جائے گا ، نصاب میں کمپیوٹر ، ریاضی اور انگلش کے اضافی مضامین بھی شامل کئے گئے ہیں۔ اس طرح مختلف مدوں میں سالانہ تقریباً ڈیڑھ سے 2ارب روپے کی رقم ڈاکٹروں کی جیب سے وصول کی جائے گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ادارے کی کارکردگی کو بہتر بنانے کیلئے پروفیشنلز کو آگے لایا جائے۔ ماضی میں پی ایم ڈی سی کی وضع کردہ پالیسیوں کا ازسرنوجائزہ لے کر اس کے اچھے نکات اپنائے جائیں۔ پی ایم سی کی ساکھ کو متاثر کرنے والے قواعد وضوابط میں تبدیلی لائی جائے۔ میڈیکل کونسل کی پالیسیاں نوجوان نسل میں مایوسی پیدا کرنے کا سبب بن رہی ہیں اس لئے اس کی خامیاں دور کرکے اسے فعال اور متحرک بنانا چاہئے۔