• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

آنیوالے انتخابات میں اقتدار کا فیصلہ جنوبی پنجاب کرے گا؟

کیا پیپلزپارٹی آئندہ انتخابات میں جنوبی پنجاب سے اتنی اکثریت حاصل کرسکے گی کہ مرکزاور صوبے میں حکومت بناسکے ،یہ سوال آج کل اس لئے زیرگردش ہے کہ سابق صدر آصف علی زداری نے ایک ہفتہ لاہور میں بیٹھ کر سارا فوکس ہی جنوبی پنجاب پر رکھا ہے ،جنوبی پنجاب سے ایک وفد سابق گورنر اور پیپلزپارٹی جنوبی پنجاب کے صدر مخدوم احمد محمود کی قیادت میں آصف علی زرداری سے ملنے لاہور گیا، تو اس ملاقات میں آصف علی زرداری نے انہیں خوشخبری سنائی کہ آئندہ مرکز اور پنجاب میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہوگی ،اس کے لئے جنوبی پنجاب کی بڑی سیاسی شخصیات ان کے ساتھ رابطے میں ہیں اور وقت آنے پر وہ پیپلزپارٹی میں شامل ہوجائیں گی۔

آصف علی زرداری نے وفد کے ارکان سے کہا کہ وہ تنظیم سازی کا عمل تیز کردیں ،عوام کے ساتھ رابطے بڑھائیں ،کیونکہ آنے والا دور پیپلزپارٹی کا ہے ،سوال یہ ہے کہ آصف علی زرداری ایسی باتیں صرف اپنے کارکنوں اور رہنماؤں کا سیاسی مورال بلند کرنے کے لئے کررہے ہیں ،یا واقعی ان کے ہاتھ میں ایسا کوئی الٰہ دین کا چراغ لگ گیا ہے کہ جسے رگڑنے سے پیپلزپارٹی کے تن مردہ میں جان پڑجائےگی اور وہ’’ زیرو سے سو ‘‘ تک کا سفر طے کرلے گی ،سب نے دیکھا ہے کہ سرگودھا کے ضمنی انتخاب میں پیپلزپارٹی کو صرف 235 ووٹ پڑے ،گویا حالات اتنے سازگار نہیں ہیں کہ کوئی بڑا معجزہ ہوسکے ،مگر اس کے باوجود آصف علی زرداری چونکہ سیاسی جادوگر کہلاتے ہیں اور وہ صفر کو سو بنانے میں مہارت رکھتے ہیں ،اس لئے کچھ بھی ہوسکتا ہے۔

البتہ سیاسی منظرنامے پر غور کیا جائے ،تو یہ بات اتنی سادہ نظر نہیں آتی ،کیونکہ زمینی حقائق فی الوقت پیپلزپارٹی کے بالکل حق میں نظر نہیں آتے اور صورتحال یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کے پاس ایسے امیدوار ہی نہیں ہیں کہ جو الیکشن میں سرپرائز دے سکیں ،جہاں تک آصف علی زرداری کی اس بات کا تعلق ہے کہ دوسری جماعتوں کے الیکٹبلز پیپلزپارٹی میں شامل ہونے کے لئے تیار ہیں ،تو اس پر پھر سوال بنتا ہے کہ اگروہ الیکٹبلز ہیں ،تو وہ پیپلزپارٹی میں کیوں شامل ہوں گے ،وہ تحریک انصاف یامسلم لیگ ن میں بھی شامل ہوسکتے ہیں ،یا پھر آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن میں حصہ لے کر جیتنے والی پارٹی کا ساتھ دے سکتے ہیں۔ 

اس وقت تو حالت یہ ہے کہ اگر کو ئی الیکٹبلز پیپلزپارٹی میں شامل ہوجائے ،تو شاید عوام اسے بھی ووٹ نہ دیں، کیونکہ پنجاب کی حد تک پیپلزپارٹی کے حق میں رائے عامہ ہموار نہیں ہے اور سندھ کی حکومت کے حوالے سے بھی بری گورننس ،معاشی حالات کی دگرگوں صورتحال کے قصے ،پیپلزپارٹی کے حوالے سے عوام کے ذہنوں میں خدشات ابھارتے ہیں ،بہرحال اتنا ضرور ہے کہ آصف علی زرداری کے پنجاب میں بیٹھنے اور مختلف شخصیات سے ملاقات کرنے کے بعد سیاسی سطح پر ایک ہلچل ضرور مچی ہے ، ان کی اسپیکرپنجاب اسمبلی چودھری پرویزالہی سے ملاقات اور بعدازاں شہبازشریف اور چودھری برادران کو آم بھیجنے کی ڈپلومیسی خاصی چہ مگوئیوں کا باعث بنی ہے ،پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ منظور وٹو کی آصف علی زرداری سے ملاقات بھی کئی افواہوں کو جنم دے گئی ،کیونکہ یہ وہی وٹو ہیں جنہوں نے ایک زمانہ میں پنجاب سے نوازشریف کا اس وقت تختہ الٹ دیا تھا ،جب وہ پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے۔

اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ آصف علی زرداری سیاسی سطح پر ہلچل پیدا کرنے کی قدرت رکھتے ہیں اور آنے والے دنوں میں جب سیاسی محاذگرم ہوگا ،تو یقیناًپنجاب عموماً اور جنوبی پنجاب خصوصاًسیاسی قوتوں کے لئے میدان جنگ بن جائے گا ۔ ادھر تحریک انصاف بھی مکمل طور پر جنوبی پنجاب کو فوکس کئے ہوئے ہے ،کیونکہ پیپلزپارٹی کی طرح تحریک انصاف کو بھی یقین ہے کہ آنے والے انتخابات میں اقتدار کا فیصلہ جنوبی پنجاب کرے گا ،پنجاب حکومت نے جنوبی پنجاب کے لئے ترقیاتی بجٹ کا 35 فی صدمختص کیا ہے۔

اس بارے میں وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی خاصے متحرک نظرآتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ اس سال یہ 35 فی صد نہ تو کسی دوسری جگہ لگنے دیں گے اور نہ ہی اسے لیپس ہونے دیں گے اور اسے مکمل طور پر یہیں خرچ کرایا جائے گا ،ادھر وزیر اعلی ٰ پنجاب عثمان بزدار نے بھی پنجاب کے ترقیاتی بجٹ کو اس بار مکمل طور پر خرچ کرنے کے لئے ایک مانیٹرنگ کمیٹی بنادی ہے ،جو اس بات کو یقینی بنائے گی کہ جن ترقیاتی منصوبوں کے لئے بجٹ میں فنڈز مختص کئے گئے ہیں۔

ان کی ہرصورت تکمیل ہو ،شاہ محمو دقریشی نے بھی جنوبی پنجاب کے لئے ترقیات بجٹ کو شفاف طریقہ سے خرچ کرنے اور متعلقہ منصوبوں کی جلداز جلد تکمیل کی نگرانی کے لئے مانیٹرنگ کمیٹی بنادی ہے ،یہ کمیٹی جنوبی پنجاب کے لئے رولزآف بزنس بھی بنانے میں مشاورت کرے گی اور ترقیاتی منصوبوں کا بھی جائزہ لے گی ،رولز آف بزنس میں اس بات کو یقینی بنایا جائےگا کہ اختیارات جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کو منتقل ہوں اور یہاں تعینات ہونے والے افسران بااختیار اور عوامی مسائل کو حل کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہوں ،گویا تحریک انصاف کا فوکس بھی یہی ہے کہ جنوبی پنجاب میں ترقیاتی کام کرائے جائیں اور ان کی بنیاد پر اگلے انتخابات میں جنوبی پنجاب سے دوبارہ اکثریت حاصل کی جائے۔

تیسری جماعت مسلم لیگ ن ہے ،جس کی جنوبی پنجاب میں خاصی مقبولیت رہی ہے اور اب بھی ملتان اور جنوبی پنجاب کے دیگر شہروں میں مسلم لیگ ن کا ووٹر موجود ہے ،ظاہرہے کہ اگر آصف علی زرداری جنوبی پنجاب پر فوکس کرسکتے ہیں ،تو مسلم لیگ ن بھی کسی کےلئے یہ میدان کھلا نہیں چھوڑے گی ،یوں یہ خطہ آنے والے انتخابات میں اہم رول ادا کرنے کے قابل ہوجائے گا۔ 

وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے ملتان میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگست تک جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کی تعمیر شروع ہوجائےگی،یاد رہے کہ ملتان اور بہاول پور میں سیکرٹریٹ کے لئے اراضی مختص کی جاچکی ہے ،لگتا یہی ہے کہ تحریک انصاف آئندہ انتخابات میں اس سیکرٹریٹ کی بنیاد پر عوام سے ووٹ مانگے گی ،مگریہ اتنابڑا کام نہیں ہے ، جو عوام کو سب کچھ بھلا کر تحریک انصاف کو ووٹ دینے پر مجبور کردے ۔

تازہ ترین
تازہ ترین