• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

لاہور میں ایک تو اکبر بادشاہ نے انار کلی کو زندہ چنوا یا تھا تو دوسرا ایک انگریز فوجی افسر نے اپنی بیٹی کی آیا کو بھی زمین میں زندہ دفن کردیا تھا۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ میاں میر چھاؤنی کے سینٹ میری مگد لینی چرچ کے پاس ایک انگریز فوجی افسر کی چھوٹی سی بیٹی کو اس کی آیا بچہ گاڑی میں سیر کرا رہی تھی کہ کسی موٹر کار سے ایکسیڈنٹ ہو گیا اور بچی بےچاری مر گئی۔ اس انگریز فوجی افسر نے غصے میں آ کر بچی کی آیا کو اس چوک کےقریب زندہ دفن کردیا ، اس پر اس چوک کا نام آیا چوک پڑ گیا۔ جسے اب گرجا چوک کہتے ہیں۔ اس چوک کے بالکل قریب حضرت میاں میرؒ کے آخری مرید حضرت میاں محمد مراد المشہور داتری پیر سرکار کا مزار درختوں کے جھنڈ میں ہے۔ یقین کریں کہ بڑی پُرسکون جگہ ہے۔ اس آیا کی یاد میں ایک پتھر کیتھیڈرل اسکول کے باہر بھی نصب تھا۔ اسے ہم نے کئی مرتبہ دیکھا تھا۔ اس آیا چوک میں کبھی ایک اور بھی یاد گار پتھر تھا۔ کیتھیڈرل اسکول کے دروازے کے باہر اس آیا کے حوالے سے کچھ تحریر بھی تھی۔

میاں میر چھاؤنی کی اصلی خوبصورتی اور حسن 1965کی جنگ تک بہت حد تک برقرار تھا۔ پھر آہستہ آہستہ یہ علاقہ بھی کمرشل ازم کی بھینٹ چڑھ گیا۔ دوسری طرف کئی تاریخی بارکوں اور عمارات کو مسمار کردیا گیا۔ حالانکہ اگر میاں میر چھاؤنی کو اس کے اصل حسن، ماحول اور فنِ تعمیر کے ساتھ زندہ رکھا جاتا تو یقیناً یہ قابلِ دید علاقہ ہوتا۔ مثلاً گلوب سینما کو مسمار کرکے مال آف لاہور بنا دیا گیا۔ طفیل روڈ پر بھی ایک کمرشل پلازہ بنا دیا گیا۔ والٹن ایئر پورٹ کے قریب ہی والٹن ریلوے اسٹیشن ہے اور والٹن ریلوے اسٹیشن سے پہلے میاں میر ریلوے اسٹیشن ہے۔ دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ آج یہ دونوں اسٹیشن اپنی اصل حالت میں نہیں۔ کبھی لوگ سیر کے لئے جلو موڑ ریل کار پر جایا کرتے تھے۔ یہ ریل کار کا ایک ایسا ڈبہ ہوتا تھا جس کے دونوں طرف انجن ڈرائیور گاڑی چلا سکتا تھا۔ مطلب یہ ہے کہ یہ ریل کار لاہور اسٹیشن سے چلا کرتی تھی اور جب جلو موڑ ریلوے اسٹیشن آتا تو لوگ اتر جاتے تو انجن ڈرائیور اتر کر دوسری طرف آ جاتا اور ریل کار دوبارہ لاہور کی طرف چل پڑتی۔ اس ریل کار پر اتنا رش ہوتا تھا کہ دیہاتی ریل کار کی چھت پر بیٹھے ہوتے تھے۔ ہم نے بچپن میں اس ریل کار کا سفر اپنے والد کے ہمراہ کئی مرتبہ کیا، صرف سیر کرنے کے لئے۔ کیا خوبصورت زمانہ تھا اور ریل کار میں کوئی اے سی نہیں ہوتا تھا، صرف پنکھے ہوتے تھے۔ پھر ہم کبھی کبھی سیر کی غرض سے لاہور اسٹیشن سے ریل گاڑی میں بیٹھ کر کبھی یہاں میاں میر اسٹیشن تو کبھی والٹن اسٹیشن اتر جایا کرتے تھے۔ پلیٹ فارم پر سیر کرنے کے لئے بھی دس پیسے کا پھر 25پیسے کا اور 50پیسے کا موٹے گتے کا پلیٹ فارم ٹکٹ لینا پڑتا تھا۔ آج پلیٹ فارم ٹکٹ دس روپے کا ہے۔

عزیز قارئین! اس زمانے میں لاہور اسٹیشن سے جلو موڑ، میاں میر اسٹیشن، والٹن ریلوے اسٹیشن، ہربنس پورہ، کاہنہ اور رائے ونڈ ریلوے اسٹیشن بہت دور لگتے تھے اور آج پورا لاہور ہی ایک ہو گیا، بلکہ آبادی اور ہاؤسنگ اسکیموں خصوصاً ڈی ایچ اے نے اس شہر کا دیہاتی حسن ہی ختم کردیا۔ اس شہر لاہور کی سب سے بڑی خوبصورتی یہ تھی کہ صرف دس میل کے اندر اندر آپ کسی بھی خوبصورت گاؤں میں پہنچ جاتے تھے۔ پھر کیا کیا پھل یہاں پیدا ہوتے تھے، ایک لمبی فہرست ہے۔ ہم نے اس شہر کو اینٹ، پتھر اور سریے کا شہر بنا دیا، پھر اس شہر کو مزید برباد اورنج ٹرین اور میٹرو بس نے کردیا، جس قدر پیسہ میاں شہباز شریف نے اورنج ٹرین بنانے میں برباد کیا اس سے آدھی رقم میں اس شہر کا تاریخی اور تہذیبی حسن بحال ہو سکتا تھا۔ ارے بابا کیا شہر تھا۔ اتوار کو دریائے راوی پر اتنا رش ہوتا تھا کہ لوگ گھنٹوں انتظار کیا کرتے تھے کہ کب کشتی ملے اور وہ دریائے راوی کی سیر کریں اور کامران کی بارہ دری پر جائیں۔ سب کچھ ہی برباد کردیا گیا۔ لاہور کے کالجوں کی طالبات کے مابین کوئین آف راوی کا مقابلہ ہوتا تھا۔ اکیلی لڑکیاں کشتیاں چلایا کرتی تھیں۔ راوی کے پرانے پل سے نئے پل تک اور ٹرین کے پل کے درمیان یہ کشتی رانی کے مقابلے ہوتے تھے اور دونوں پلوں پر لوگوں کا ہجوم ہوتا تھا۔ پھر ہر کالج کی کشتیاں موجود ہوتی تھیں جو اس کالج کے بریزر کے رنگ کی ہوتی تھیں۔ گورنمنٹ کالج، اسلامیہ کالج ریلوے روڈ، اورینٹل کالج، پنجاب یونیورسٹی، کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج، دیال سنگھ کالج اور اسلامیہ کالج سول لائنز کی کشتیاں ہوا کرتی تھیں۔

عزیز قارئین! لاہور میں گوروں نے ایسی ایسی جگہوں پر ٹرین کی پٹریاں بچھائی تھیں، اگر ہم آپ کو بتائیں تو آپ حیرت میں پڑ جائیں۔ خوشی قسمتی سے ہم نے ایسی بےشمار ٹرینوں کی ریلوے لائنیں دیکھی ہیں اور ان پر ٹرینیں چلتے ہوئے بھی دیکھی ہیں جو اب سڑکوں کے نیچے آ چکی ہیں۔ مثلاً یہاں میاں میر چھاؤنی میں ریل کی پٹریاں پورے کینٹ میں تھیں، جہاں پر آج بےشمار شادی گھر ہیں۔ گالف کنٹری کلب کے نزدیک آج بھی ریل کی دو لائنیں بچھی ہوئی ہیں، پھر دھرم پورہ سے جب آپ میاں میر چھاؤنی میں داخل ہوتے ہیں وہاں پر بھی ریل کی ایک لائن ہے جہاں آج بھی کبھی کبھار مال گاڑی کچھ فوجی سازو سامان لے کر آتی ہے اور ہم اس ریلوے پھاٹک پر کافی دیر کھڑے ہو کر نہ صرف اس ٹرین کو انجوائے کرتے ہیں بلکہ سوچتے رہتے ہیں کہ کبھی اس چھائونی میں یہ ٹرینیں آتی جاتی کتنی اچھی لگتی ہوں گی۔

لاہور وہ شہر ہے کہ جس کے اردگرد دیہات میں جانے کے لئے کبھی ٹرین کا سفر کرنا پڑتا تھا۔ مثلاً شاہدرہ ریلوے اسٹیشن، بادامی باغ ریلوے اسٹیشن، جلو موڑ ریلوے اسٹیشن، ہربنس پورہ ریلوے اسٹیشن، مغل پورہ ریلوے اسٹیشن، والٹن ریلوے اسٹیشن، واہگہ ریلوے اسٹیشن، کوٹ لکھپت ریلوے اسٹیشن، جیا بگا ریلوے اسٹیشن،کاہنہ ریلوے اسٹیشن اور رائے ونڈ ریلوے اسٹیشن۔ اب ان میں سے ہربنس پورہ، کاہنہ ، مغل پورہ، جلو موڑ ریلوے اسٹیشن ختم ہو چکے ہیں۔ آئندہ کالم میں آپ کو میاں میر ریلوے اسٹیشن (کینٹ اسٹیشن) کے بارے میں کچھ بتائیں گے۔

(جاری ہے)

تازہ ترین