• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومت نے حال ہی میں آئندہ مالی سال میں بجٹ خسارہ پورا کرنے کیلئے وفاقی کابینہ سے بڑے ایئرپورٹس اور قومی شاہراہوں کو گروی رکھنے کی اجازت لی ہے۔ وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے تصدیق کی ہے کہ وفاقی کابینہ نے 2.5 ارب ڈالر کے سکوک یورو بانڈز کے اجرا کیلئے اسلام آباد، لاہور اور ملتان کے ایئرپورٹس اور 3 موٹر ویز کو گروی رکھنے کی منظوری دی ہے جن میں M-1 موٹر وے(اسلام آباد پشاور)، M-3 موٹر وے (پنڈی بھٹیاں، فیصل آباد) اور اسلام آباد ایکسپریس وے شامل ہیں جبکہ فہرست سے اسلام آباد کلب اور فاطمہ جناح پارک کو نکال دیا گیا ہے۔ وزارتِ خزانہ نے نیشنل ہائی ویز اتھارٹی (NHA) اور سول ایوی ایشن اتھارٹی (CAA) سے ان کے اثاثوں کو گروی رکھنے کیلئے این او سی مانگے ہیں جس پر NHA نے موٹر ویز گروی رکھنے پر معاوضہ طلب کیا ہے جبکہ حکومت نے بغیر کسی معاوضےکے اثاثوں کو گروی رکھنے کی اجازت مانگی ہے۔ وزارتِ خزانہ نے لاہور ایئرپورٹ کی ویلیو 980 ارب روپے، اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی ویلیو230 ارب روپے، ملتان ایئرپورٹ کی ویلیو 320 ارب روپے اور اسلام آباد ایکسپریس وے کی ویلیو 470 ارب روپے بتائی ہے جبکہ حکومت جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کراچی کو پہلے ہی گروی رکھ کر 700 ارب روپے قرض لے چکی ہے۔ میں نے اپنے گزشتہ کالمز میں تشویش ظاہر کی تھی کہ پاکستان کے قرضے ناقابل برداشت حد تک پہنچ چکے ہیں۔ اس سال ایف بی آر کی مجموعی ریونیو وصولی 4721 ارب روپے میں سے قرضوں پر سود کی ادائیگی 3000 ارب روپے سے زائد ہے۔ پاکستان کے قرضوں کی حد FRDLA کے مطابق حکومت ملکی جی ڈی پی کا 60 فیصد سے زیادہ قرضہ نہیں لے سکتی جبکہ ہمارے قرضے جی ڈی پی کے 87 فیصد تک پہنچ چکے ہیں جن میں بیرونی قرضے 116 ارب ڈالر ہیں۔ اگر یہ قرضے ڈیمز اور دیگر انفراسٹرکچر پروجیکٹس کیلئے لئے جاتے تو ملک کیلئے فائدہ مند تھے اور انہی منصوبوں کے منافع سے قرضوں کی ادائیگی کی جاسکتی تھی لیکن افسوس کہ نئے قرضے پرانے قرضوں کی ادائیگی کیلئے لئے جارہے ہیں جن کیلئے ہمیں اپنے قومی اثاثوں کو گروی رکھنا پڑرہا ہے۔

قومی اثاثے ملک کی عزت اور وقار ہوتے ہیں لیکن پاکستان میںکبھی ان اثاثوں کی بیرون ملک ضبطی اور کبھی انہیں گروی رکھ دیا جاتاہے جو کسی خوددار ملک کے شایان شان نہیں۔ میں نے جنوری 2021ء کو اپنے کالم میں ملائیشیا میں لیز ادائیگی کے تنازع پر پی آئی اے کے طیارے کو ضبط کرنے اور ریکوڈک کیس میں ورلڈ بینک کی مصالحتی عدالت ICSIDکی 6 ارب ڈالر کے جرمانے کی وصولی کیلئے پاکستان کے نیویارک میں روز ویلٹ اور پیرس میں اسکرائب اوپرا ہوٹلز کی ضبطی کا ذکر کیا تھا جس کا سن کر ہر پاکستانی کو دکھ ہوا۔ آج مجھے اپنے 15 اگست 2013ء اور 11 اگست 2014ء کو لکھے گئے کالمز جن میں، میں نے معروف معاشی قاتل جان پرکنز کی تہلکہ خیزکتاب ’’معاشی قاتل کے اعترافات‘‘ (Confessions of Economic Hitman) کا ذکر کیا تھا۔ کتاب کے سرورق پر ایک گدھ دکھایا گیا ہے جس نے دنیا کو اپنے پنجوں میں جکڑ رکھا ہے جبکہ پس منظر میں امریکی جھنڈا ہے۔ پرکنز کے مطابق وہ طویل عرصے تک اکنامک ہٹ مین کے طور پر کام کرتا رہا، اس نے لاکھوں ڈالر کمائے مگر پھر اس کا ضمیر ملامت کرنے لگا تو اس نے ملٹی نیشنل کمپنی سے استعفیٰ دے دیا اور نائن الیون کے بعد ٹریڈ سینٹر کی ہولناک تباہی کو دیکھتے ہوئے اس نے کتاب لکھنے کا فیصلہ کیا۔ جان پرکنز کے بقول اِن معاشی قاتلوں کا کام تیسری دنیا کے ممالک کو امداد کے نام پر قرضوں میں جکڑناہے جن کیلئے مقروض ممالک اپنے تمام قومی اثاثے، عالمی مالیاتی اداروں اور کارپوریشنوں کے ہاتھوں گروی رکھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

پرکنز کے بقول عالمی مالیاتی اداروں سے لئے گئے اِن قرضوں کا ایک بڑا حصہ اِن ڈائریکٹ رشوت کے طور پر تیسری دنیا کے حکمرانوں، بین الاقوامی کارپوریشنوں اور مشاورتی کمپنیوں کے پاس چلا جاتا ہے۔ اِس مقصد کیلئے یہ کمپنیاں غلط اقتصادی جائزے، غیر حقیقی مالیاتی رپورٹیں، ملکی انتخابات میں دھاندلیوں، کال گرلز کے ذریعے لابنگ، رشوت اور معاشی دبائو جیسے ہتھیار استعمال کرتی ہیں۔ جان پرکنز کے مطابق یہ کرائے کے معاشی قاتل عالمی مالیاتی اداروں کے آلہ کار ہوتے ہیں جن کا ہدف قدرتی وسائل اور اہم جغرافیائی محل وقوع رکھنے والے معاشی مشکلات کا شکار پاکستان جیسے ممالک ہوتے ہیں جن کیلئے معاشی قاتل عالمی مالیاتی اداروں سے قرضے حاصل کرتے ہیں اور جب یہ ممالک خراب معاشی حالت کے باعث قرضے واپس کرنے کے قابل نہیں ہوتے تو وہاں ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کے نمائندوں’’عقابوں‘‘ (Hawks) کو بھیجا جاتا ہے جن کی نظریں مقروض ملک کے تیل، لوہے، تانبے، سونے اور دیگر قدرتی وسائل پر ہوتی ہیں۔ پرکنز کے مطابق ان ’’عقابوں‘‘ کے ذریعے مقروض ممالک میں ان مالیاتی اداروں کو گھسنے کا موقع ملتا ہے جو قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ کو ملک کے قیمتی اثاثوں کو گروی رکھنے، FATF اور GSP پلس کی پابندیوں یا امریکی فوجی اڈے قائم کرنے سے مشروط کردیتے ہیں اور مقروض ممالک ان مالیاتی اداروں کا سیاسی دبائو ماننے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ آج پاکستان میں بھی یہی سب کچھ ہورہا ہے۔ پاکستان نے بھی ماضی میں نیٹو، امریکہ اور اتحادیوں کو افغان جنگ کیلئے اپنی سرزمین اور فوجی اڈے دے رکھے تھے جبکہ آج ملک کی معاشی پالیسیاں عالمی مالیاتی اداروں کی شرائط کے مطابق تیار کی جارہی ہیں۔ اِسی طرح امریکی دبائو کے باعث پاک ایران گیس پائپ لائن جیسا ملکی مفاد کا منصوبہ تاخیر کا شکار ہے جسے دیکھتے ہوئے میرا قارئین سے سوال ہے کہ کیا پاکستان بھی اِن بین الاقوامی ’’معاشی قاتلوں‘‘ کاشکار بن کے ان کا آلہ کار بن چکا ہے؟

تازہ ترین