• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

روزانہ 6 چکر لگا کر علاقے کی 100 طالبات کو اسکول، کالج چھوڑنے جاتا ہوں

بات چیت: نسرین جبیں، پشاور

عکّاسی :تنزیل الرحمان

بے شک پاکستان ایک ترقّی پذیر مُلک ہے، جہاں روزگار، تعلیم و صحت اور بنیادی ضروریاتِ زندگی کی عدم فراہمی جیسے کئی مسائل موجود ہیں، لیکن تمام تر نا ہم واریوں، مشکلات اور کٹھنائیوں کے باوجود اس مٹّی کے بیش ترباسی ، بالخصوص پس ماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد، ’’بڑے دل والے‘‘ اور خدمتِ خلق کے جذبے سے سرشار ہیں اور دَر حقیقت یہی خوبی اس وطن کا اثاثہ ہے، جو ہمیں دنیا کی باقی اقوام سے منفرد بناتی ہے۔ عمومی طور پر پاکستانی قوم کا دل انسانیت کی خدمت سے لبریز ہے، اسی لیے یہاں دردمندوں کی کوئی کمی نہیں۔

بلا شبہ، دوسروں کے کام آنا بہت بڑی نیکی ہے، جس کا صِلہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہی دے سکتی ہے۔ اسی لیے ہمارے درمیان موجود کئی لوگ گُم نامی میں رہ کربھی نیکیوں کا سلسلہ جاری رکھتے، دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرتے رہتےہیں۔ دَر حقیقت ،یہی لوگ ہمارے معاشرے کے اصل ہیروز ہیں۔ ایسے ہی خدمتِ خلق کے جذبے سے سرشار ایک نوجوان، پشاور کے ایک گائوں، متھرا میں رہتا ہے، جو ہے تو ایک رکشہ ڈرائیور، لیکن ہمّت و حوصلے، قول و عمل کے اعتبار سے کسی عظیم شخصیت سے کم نہیں ۔ 

1سالہ ، عرب شاہ ، گزشتہ سات سال سے اپنے رکشے میں اپنے علاقے کی پرائمری اورمِڈل اسکول کی طالبات کو بلا معاوضہ پِک اینڈ ڈراپ سروس فراہم کررہا ہے۔ یہی نہیں، شام میں بچیّوں کو مدرسے میں بھی چھوڑتا اور واپس لاتا ہے اور یہ سب کچھ عرب شاہ اس لیے کرتا ہے کہ وہ اپنے علاقے میں لڑکیوں کی تعلیم کو فروغ دینا چاہتا ہے۔ اُنہیں تعلیم یافتہ دیکھنا چاہتا ہے۔گزشتہ دنوں ہم نے پشاور کے اس’’بڑے انسان‘‘سے ایک ملاقات کی، جس کا احوال نذرِ قارئین ہے۔

’’اپنے حالاتِ زندگی سے متعلق کچھ بتائیں؟‘‘ہم نےسوال کیاتو عرب شاہ کچھ یوں گویا ہوئے کہ ’’میرا تعلق پشاور کے ایک غریب خاندان سےہے۔ ہم 11 بہن بھائی ہیں، چھے بھائی اور پانچ بہنیں۔جب مَیں چھوٹا تھا تو اپنی بہنوں کو اسکول نہ جانے کی وجہ سے روتا دیکھتا تھا۔ اُن کی سہیلیاں انہیں تنگ کرتیں کہ ’’تمہیں تو لکھنا پڑھنا ہی نہیں آتا۔‘‘ تو میری بہنیں امّی ، ابّو کے سامنے رو پڑتیں۔ اُن سے التجائیں کرتیں کہ’’ ہمیں بھی اسکول جانا ہے، ہماری سہیلیاں اسکول جا سکتی ہیں، تو ہم کیوں نہیں؟‘‘ 

جس پر امّی کبھی پیار سے، تو کبھی ڈانٹ کر کہتیں کہ ’’ہمارے پاس کرائے کے پیسے ہیں اور نہ ہی کوئی بھائی اتنا بڑا ہے کہ تمہیں روز اسکول چھوڑنے اور لینے جائے۔‘‘ بہنوں کی سِسکیاں، آنسو اور بے چارگی مجھ سے دیکھی نہیں جاتی تھی، آج بھی سوچتا ہوں تو ان کے لیے افسوس ہوتا ہے۔ خیر، وقت گزرتا گیا ، مَیں اسکول اور پھر کالج جانے لگا اور ساتھ ہی ایک دوست ، جس کے پاس رکشہ تھا، اس سے رکشہ چلانا بھی سیکھ لیا۔ پھر صبح کالج جاتا اور شام میں دوست کا رکشہ چلانے لگا۔ تعلیمی سلسلہ بھی جاری رہا ۔ یہاں تک کہ مَیں نے بی اے کرلیا۔ 

مگر بد قسمتی سے کوئی معقول ملازمت نہ مل سکی، تو مَیں نے کرائے پر رکشہ لے کرچلانا شروع کردیا۔ رکشہ چلانے کے دوران ہی بچیوں کو اسکول چھوڑنے اور گھر واپس لانےکا خیال آیاکہ ذہن میں بس یہی سوچ تھی کہ میری بہنوں کی طرح ، میرے علاقے کی دوسری بچیاں غربت اورٹرانسپورٹ کی عدم سہولت کی وجہ سے تعلیم سے محروم نہ رہ جائیں۔ ‘‘ عرب شاہ نے مزید بتایا کہ ’’جب مَیں نے رکشہ چلانا شروع کیا، تو گاؤں کے اُن گھروں میں گیا ، جنہوں نے ٹرانسپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے اپنی بچیوں کو گھر بٹھا لیا تھا۔ مَیں نے ان سے کہا کہ مَیں آپ کی بچیوں کو اسکول کے لیے مفت پِک اینڈ ڈراپ سروس دوں گا۔ محلّے والے مجھے جانتے بھی ہیں، تو انہوں نے مجھ پر بھروسا کر کے اپنی بچیوں کو میرے رکشے میں جانے کی اجازت دے دی اور مجھے ایسا لگا، جیسے میری اپنی بہنوں کا خواب پورا ہو رہا ہے۔‘‘

روز مرّہ کے معمولات بتاتے ہوئے عرب شاہ کا کہنا تھا کہ ’’مَیں روزانہ چھے چکّر لگا کر 100 بچیوں کو اسکول چھوڑ نے آتا، جاتاہوں۔ اس مقصد کے لیے صبح پانچ بجے گھر سے نکلتا ہوں کہ اسکول میرے گھر سےچار کلو میٹر کی مسافت پر ہے۔ بچّیوں کو اسکول چھوڑ کر پھر اپنی روزی روٹی کمانے نکل جاتا ہوں اور رات گیارہ بجے گھر لَوٹتا ہوں۔ اس دوران شام کو چار بجے سے سات بجے تک مدرسے کی بچیوں کو بھی پِک اینڈ ڈراپ کی مفت سہولت فراہم کرتا ہوں۔ مَیں چوبیس گھنٹوں میں سے قریباً 17گھنٹے رکشہ چلاتا ہوں۔ ‘‘ ’’اس طرح رکشہ چلا کر گھر کاخرچ پورا ہوجاتا ہے؟‘‘ ہمارے پوچھنے پر انہوں بتایا کہ ’’مَیں گھر میں خرچہ نہیں دیتا ، وہ میرے بڑے بھائی کی ذمّے داری ہے۔ 

بھائی ٹرک چلاتا ہے، مَیں رکشے سے صرف اپنا خرچ پورا کرتا ہوں۔ ‘‘ باتوں کا سلسلہ آگے بڑھا تو عرب شاہ نے بتایا کہ ’’مَیں گائوں میں ’’عرب شاہ بھائی جان‘‘ کے نام سے مشہور ہوں بچّے، بوڑھے ،عورتیں، مرد سب ہی مجھے ’’عرب شاہ بھائی جان‘‘ کہتے ہیں۔ اور میری ہی وجہ سے میرے گھر والوں کو بھی عزّت اور قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’ جب ہم اللہ کے بندوں کی مدد کرتے ہیں، تو اللہ پاک ہمارے لیے خود بخود آسانیاں پیدا کر دیتا ہے، جیسے پہلے مَیں کرائے پر رکشہ چلاتا تھا پھر میرے ایک جاننے والےنے، جو امریکا میں مقیم ہیں، مجھے رکشہ خرید کےدے دیا۔

یوں اب رکشے کا ماہانہ کرایہ بچ جاتا ہے۔ یہی نہیں ،اگر کبھی سودا سلف خریدنے جاؤں تو دُکان دار مجھ سے پیسے نہیں لیتے کہ مَیں گاؤں والوں کی اتنی خدمت کر رہا ہوں۔‘‘ عرب شاہ نے مزید بتایا کہ ’’جب ملالہ یوسف زئی کو میری اس کاوش کا پتا چلا تو اُن کی فیملی نے ہمیں سوزوکی خرید کر دی ، جو میری جان پہچان کا ایک دوسرا لڑکاچلا رہا ہے۔ وہ بھی اسکول کی بچیوں کومفت سروس فراہم کرتا ہے، جب کہ دن کا باقی حصّہ سوزوکی سے روزگار کماتا ہے۔ ا س طرح بچیوں کو ٹرانسپورٹ کی سہولت اور اُس لڑکے کو روزگار مل گیا۔ ‘‘

مستقبل کے عزائم کے حوالے سے بات کرتے ہوئے عرب شاہ کا کہنا تھا کہ ’’سب کہتے ہیں کہ ابھی تم پہ گھر یلو ذمّے داریاں نہیں ہیں، اس لیے خدمتِ خلق کر رہے ہو۔ شادی ہوجائے گی تو گھریلو اخراجات کا بوجھ یہ نیکی جاری نہیں رکھنے دے گا۔ یہی وجہ ہے کہ مَیں نے فی الحال شادی کا ارادہ ترک کر دیا ہےکہ مَیں پہلے معاشی طور پر اتنا مضبوط ہوجاؤں کہ اپنا گھر بھی چلا سکوں اور یہ کارِ خیر بھی جا ری رکھ سکوں۔ مَیں یونی وَرسٹی تک مفت پِک اینڈ ڈراپ سروس فراہم کرنا چاہتا ہوں تاکہ ہمارے علاقے کی آیندہ نسل تعلیم یافتہ اوربا شعور ماؤں کے ہاتھوں پروان چڑھے۔میرے علاقے کی لڑکیاں باصلاحیت ، باوقار،اعلیٰ تعلیم یافتہ اور پُراعتماد ہوں۔ 

میری اپنی بہنوں کی طرح کبھی کوئی لڑکی اسکول جانے کی خواہش سے محروم نہ رہ جائے ۔یوں بھی جب لڑکیاں مجھے ’’بھائی جان‘‘ کہہ کر خُوب دُعائیں دیتی ہیں، تو میرا دل بَھر آتا ہے۔ بہت سی بچیاں تو ایسی ہیں، جنہیں مَیں پرائمری اسکول لے کر جاتا تھا اور اب وہ کالج تک آگئی ہیں، ان کی آنکھوں کی حیا، چمک اور ان کے والدین کی دُعائیں میرے لیےکسی انعام ، اعزازسے کم نہیں۔ ہمارے گاؤں میں بجلی کم ہی آتی ہے، مگر میری زندگی اتنی پُر سکون ہے کہ مجھے بستر پر لیٹتے ہی نیند آجاتی ہے۔ 

بجلی نہ ہونے کے باوجود مَیں بہت سکون سے سوتا ہوں کہ مَیں جو کام کر رہا ہوں، وہ صدقۂ جاریہ ہے،جس کا اجر مجھے مرنے کے بعد بھی ملتا رہے گا۔ اسی لیے مَیں باقی نوجوانوں سے بھی یہ کہتا ہوں کہ سوشل میڈیا پر وقت ضایع کرنے کی بجائے، اپنی صلاحیّتوں، ہنر کا درست ، مثبت استعمال کریںکہ کیا پتا کسی کے ہونٹوں سے نکلی کوئی ایک دُعا آپ کی تقدیر سنوار دے ۔ مالی امداد کے حوالے سے عرب شاہ نے بتایا کہ ’’ مَیں تنِ تنہا ہی یہ کام کر رہا ہوں، اس ضمن میں کسی این جی او، صوبائی یا وفاقی حکومت کی کوئی مدد، معاونت حاصل نہیں، لیکن اگر حکومت تعاون کرے تو پورے صوبے میں طالبات کے لیے مفت پِک اینڈ ڈراپ سروس کا جال بچھانا چاہتا ہوں۔‘‘

تازہ ترین