• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افغانستان میں سیاسی خلا، خانہ جنگی کا پیش خیمہ

امریکا اور طالبان کے درمیان 18ماہ کے طویل اور صبر آزما مذاکرات کے بعد29 فروری، 2020ء کو قطر کے دارالحکومت، دوحا میں امن معاہد ہ طے پایا، جس کے نتیجے میں افغانستان میں امن کی اُمید ہوچلی تھی، مگر اب یہ اُمید تیزی سے مایوسی میں بدلنے لگی ہے۔ مستقل سیاسی حل تلاش کیے بغیر غیرمُلکی افواج کے انخلا سے جہاں افغانستان پر ایک اور خوف ناک جنگ کے بادل منڈلانے لگے ہیں، وہیں پاکستان میں بھی خطرے کی گھنٹی بج چُکی ہے، کیوں کہ ایک طرف افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا ہونے جا رہا ہے، تو دوسری طرف، طالبان کی دارالحکومت، کابل کی جانب پیش قدمی اور مُلک کے مختلف علاقوں پر قبضے کی خبریں بھی گرم ہیں۔ 

افغانستان کے صدر، اشرف غنی نے طالبان کو للکارتے ہوئے واضح کیا ہے کہ’’ اگر وہ(طالبان) دشمنی چاہتے ہیں، تو اُنہیں سنگین نتائج بھگتنا پڑیں گے۔‘‘پاکستان کے وزیرِ اعظم، عمران خان نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر افغانستان پر طالبان کو مکمل فتح حاصل ہوگئی، تو وہاں خون ریزی ہوگی۔‘‘ ان حالات میں افغانستان میں ایک اور خوف ناک خانہ جنگی کا امکان رَد نہیں کیا جاسکتا۔ اِن خدشات کا آغاز اُسی وقت ہونے لگا تھا، جب امریکا اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات سے افغان حکومت کو دُور رکھا گیا۔ 

اِسی طرح قطر معاہدے کے موقعے پر بھی افغان حکومت غیر حاضر رہی، جو تنازعے کی ایک اہم فریق ہے۔ ابھی افغان امن معاہدے کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ فریقین نے ایک دوسرے پر معاہدے کی خلاف ورزی کے الزامات لگانے شروع کردیے۔ طالبان اپنے تمام قیدیوں کی رہائی کے ساتھ غیرمُلکی افواج کے انخلا کا بھی مطالبہ کرتے رہے، جب کہ افغان حکومت سنگین جرائم میں ملوّث طالبان قیدیوں کو رہا کرنے سے انکار کرتے ہوئے صرف سیاسی قیدیوں کی رہائی پر بضد تھی، مگر بعدازاں اُسے دبائو پر بڑی تعداد میں طالبان قیدی رہا کرنے پڑے۔ 

اس موقعے پر ان خدشات کا بھی اظہار کیا گیا کہ رہا ہونے والے طالبان قیدی دوبارہ افغان حکومت کے خلاف لڑائی میں حصّہ لیں گے اور ایسا ہی ہوا۔ یوں امریکا، طالبان معاہدے کا حشر بھی جنوری 1973 ء کے امریکا، شمالی ویت نام معاہدے اور اپریل 1988 ء کے جنیوا معاہدے جیسا ہوا، جس کے باعث افغانستان میں قیامِ امن کی کوششوں کو شدید دھچکا لگا۔ ایک طرف مُلک میں بے یقینی کی فضا نے جنم لیا، تو دوسری طرف، افغان حکومت اور بعض دیگر ممالک کے خدشات کے باوجود افغانستان کے لیے ایک پائیدار سیاسی حل تلاش کیے بغیر غیرمُلکی افواج کا انخلا شروع ہوا،جو اِس سال ستمبر میں مکمل ہونے کا امکان ہے۔ یوں تاریخ کی طویل خانہ جنگی کے شکار افغانستان اور اُس کے لُٹے پِٹے غریب عوام کوایک مرتبہ پھر عسکریت پسندوں کے رحم و کرم پر چھوڑا جارہا ہے، جس کا نتیجہ ایک اور خانہ جنگی کے سِوا کچھ نہیں ہوگا، کیوں کہ مُلک ایک مرتبہ پھر سیاسی خلا کا شکار ہوتا نظر آرہا ہے اور اس خلا کو پُر کرنے والا کوئی نہیں۔

اِن دنوںہر طرف سے یہ سوالات اُٹھ رہے ہیں کہ غیرمُلکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان کا سیاسی، انتظامی اور سیکیوریٹی ڈھانچا کیا ہوگا؟کیا مُلک پھر بدامنی اور خانہ جنگی کا شکار ہوگا؟ اور یہ بھی کہ کیا امریکا کسی نہ کسی شکل میں اپنا وجود برقرار رکھے گا؟ اقوامِ متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق ،طالبان آدھے سے زیادہ مُلک پر اپنا تسلّط قائم کرچُکے ہیں، جب کہ شہری علاقوں کے قریب کا 70فی صد علاقہ بھی اُن کے کنٹرول میں آ چُکا ہے۔ مگر اس کے باوجود تنازعے کے فریقین، خصوصاً افغان حکومت کی جانب سے اِس نازک صُورتِ حال سے نمٹنے کے لیے کوئی ٹھوس منصوبہ سامنے نہیں آیا کہ وہ غیرمُلکی افواج کے انخلا کے بعد درپیش چیلنجز سے کیسے نمٹے گی؟ 

اس صُورتِ حال نے جہاں افغان عوام کو تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے، وہیں پاکستان بھی اس سے متاثر ہو رہا ہے۔ افغان صُورتِ حال پر نظر رکھنے والی قوّتیں سرجوڑ کر بیٹھی ہیں کہ غیرمُلکی افواج کے جانے کے بعد حالات سے کیسے نمٹا جائے؟پاکستان کا ہمیشہ سے یہی موقف رہا ہے کہ افغان مسئلہ مذاکرات ہی سے حل ہو سکتا ہے، اِسی لیے پاکستان نے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں اہم کردار ادا کیا۔

افغانستان میں جاری خانہ جنگی کے باعث اب تک ایک لاکھ سے زاید افراد اپنی زندگیاں گنوا چُکے ہیں۔ لاکھوں شہری بے گھر ہوئے۔ لاکھوں افغانوں نے گھربار چھوڑ کر تُرکی، یورپ، آسٹریلیا اور وسط ایشیائی ممالک کا رُخ کیا، جہاں اُنہیں غیر مستحکم مستقبل کا سامنا ہے۔ اِسی طرح مُلک میں افیون کی پیداوار سالانہ 50 ٹن سے بڑھ کر500 ٹن تک پہنچ چُکی ہے۔ بے روزگاری انتہا کو چُھو رہی ہے، حکومت کا مُلک کے آدھے حصّے پر کنٹرول ہے۔طالبان نے اپنے زیرِ کنٹرول علاقوں میں متوازی حکومتیں قائم کر رکھی ہیں، جہاں وہ ٹیکس جمع کرتے ہیں اور اپنے فیصلے صادر کرتے ہیں۔

اِن حالات میں تنازعے کے فریقین کو حالات کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے پُرامن انتقالِ اقتدار کے لیے لویہ جرگہ اور بات چیت کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ لویہ جرگے کےذریعے عبوری حکومت کے قیام کے بعد امریکی امداد سے قائم موجودہ کابل حکومت پر دبائو ڈالنا چاہیے کہ وہ عبوری حکومت کو تسلیم کرے اور اقتدار سے دست بردار ہوجائے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا، تو متحارب دھڑوں کے درمیان خون خرابے کا خدشہ ہے، جس کی بھینٹ ایک مرتبہ پھر عام شہری ہی چڑھیں گے۔ طالبان جنگ جُوئوں کی پیش قدمی جاری ہے اور شاید وہ اب پیچھے ہٹنے والے نہیں۔ 

امریکی صدر، جوبائیڈن نے بھی اشرف غنی کی سربراہی میں امریکا کا دَورہ کرنے والے وفد پر واضح کیا کہ امریکی انخلا کی تکمیل کی مدّت قریب آرہی ہے، لہٰذا افغان حکومت مُلک کے مستقبل کے بارے میں جلد کوئی فیصلہ کرے، جب کہ طالبان نے امریکا کو ایک بار پھر دھمکی دی کہ افغانستان سے انخلا کی مدّت میں کسی بھی قسم کے ردوبدل کی صُورت میں اُسے طالبان کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ امریکا نے افغانستان میں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کی ہے۔ وہ یہاں بیٹھ کر روس، چین، ایران اور افغانستان میں موجود داعش کی نگرانی کرسکتا ہے۔

لہٰذا، وہ کبھی بھی اپنی تمام افواج افغانستان سے نہیں نکالے گا، بلکہ وہاں کے اسٹریٹیجک اہمیت کے حامل علاقوں میں اپنی فوج کا ایک حصّہ ضرور رکھنے کی کوشش کرے گا،جب کہ طالبان مزاحمت کی دھمکی دے چُکے ہیں،اِس پس منظر میں یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ آنے والے چند ماہ میں افغانستان اور خطّے کا سیاسی، فوجی نقشہ کیا ہوسکتا ہے؟ اگر افغان تنازعے کے فریقین نے بروقت مؤثر اقدامات نہ کیے، تو آنے والے چند ماہ افغانستان اور خطّے کے لیے خوف ناک ثابت ہوسکتے ہیں۔

تازہ ترین