• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

75سال قبل اقوامِ متحدہ کے قیام پر امنِ عالم، سرد جنگ، آزادی، سرحدوں کا احترام، تحفظِ حقِ خودارایت، نیشن اسٹیٹس کی حقیقی خود مختاری، اس کے چارٹر کے بہت پُرکشش نکات تھے۔ ان سب کی بنیاد پر باہمی علاقائی اقتصادی تعاون کے پورپین اکنامک کمیونٹی (موجودہ یورپین یونین) اور جنوب مشرقی ایشیا کے علاقائی تعاون آسیان کے کامیاب ریجنل ارینجمنٹ کے قیام نے حوصلہ پایا۔ اس ماحول میں عالمی معاشرے، انٹرنیشنل ازم اور گلوبلائزیشن کے ادھورے عمل میں ڈھلے حسین تصورات کا پیراڈائم (قبولیت پاتا اور عمل میں ڈھلتا عالمگیر رجحان) مطلوب نتائج دیے بغیر، تیسری جنگِ عظیم کا ماحول بناتا، بالآخر پٹ گیا، اس کے ارتقاکی انتہا گلوبلائزیشن کہلائی، سو خاکسار اسے ’’گلوبلائزیشن پیراڈائم‘‘ کا نام دیتا ہے۔ اس (دم توڑتے) پیراڈائم کے مطلوب نتائج کے برعکس دوہی نتیجے نکلے۔ ایک اس کا اپنا پٹ جانا، دوسرا اپنے مکمل خاتمے سے پہلے نئے کی جگہ بنانا (پیرا ڈائم شفٹ) کی جگہ بنانا۔

اس عالمی صورت حال پر ناچیز کے سوالات یہ ہیں کہ: گلوبلائزیشن کا پیراڈائم کیوں پٹ گیا؟ نیا پیرا ڈائم کیا بن رہا ہے؟ کون بنا رہا ہے اور اس کی امکانی صورت کیا ہوگی؟ اور یہ کیا کہلائے گا؟ موضوع پر زیادہ سے زیادہ سوال اور درست جواب تک پہنچا ’’حقیقی عالمی امن و استحکام‘‘ کی ناگزیر ضرورت بن گئی ہے۔ یونیورسٹیوں، آزاد میڈیا اور تھینک ٹینکس نے مطلوب سوالات و جوابات کا ماحول بنانے میں حکومتی، منتخب ایوانوں اور جملہ نوعیت کے مراکزِ اقتدار و اختیار سے زیادہ اہم کردار ادا کیا ہے۔ ناچیز کے متذکرہ اٹھائے گئے سوالات کی گہرائی تو بہت ہے تو جواب بھی عمیق ہی ہوں گے۔ جس کے لئے متعلقہ حلقوں کا ابلاغ مسلسل اور علمی کاوشیں مطلوب ہیں۔ تاہم غور و خوض اور آغاز بحث کے لئے متذکرہ اٹھائے گئے 5سوالات کے مختصر ترین جوابات کچھ یوں ہیں۔

گلوبلائزیشن پیراڈائم اس لئے پٹا کہ اقوامِ متحدہ کے قیام اور اس کے چارٹر پراتفاق کا آغاز دوسری عالمی جنگ کی تباہ کاریوں کے بعد فاتح، شکست خوردہ اور نوآزاد ممالک میں فطرتاً پائی جانے والی امن عالم کی پیاس اور اسے مستقل قائم رکھنے کی اہمیت کے متفقہ اعتراف سے ہوگیا لیکن عین اسی وقت فلسطینیوں کو ان ہی کی سرزمین پر مجرمانہ حد تک نظر انداز کرکے، اسرائیل کا ناجائز قیام، تنازعات کے حتمی حل کے لئے عالمی ادارے کے قیام کے کرتادھرتاؤں کا مرضی کے 5ممالک کوویٹو پاور کا اختیار دے دیا گیا، گراں خوابی سے 1949میں بیدار ہوئی کروڑ ہا کی آبادی کے آزاد عوامی جمہوریہ چین کو تسلیم نہ کرکے اسے اقوامِ متحدہ کی رکنیت سے محروم رکھ کر، فارموسا (موجودہ تائیوان) کے جزیرے میں پناہ لینے والے بھگوڑے کٹھ پتلی بادشاہ چیانگ کائی شیک اور اس کے ساتھ لگے امرا کے ٹولے کو اصل چین مان کر اس کٹھ پتلی حکومت کو بھی ویٹو پاور تسلیم کرنا، پھر پاکستان کا سلامتی کونسل کی اپیل کے احترام میں بھارتی مقبوضہ کشمیر کے فتح ہوتے عمل کو روک کر فائر بندی قبول کرنا، لیکن عالمی فیصلوں پر عملدرآمد کو تادم اقوامِ متحدہ کے قیام اور آغاز پر شامل ہونے والا وہ کھوٹ تھا جس نے 75سال میں گلوبلائزیشن کی صورت میں بنے پیرا ڈائم کو آج اختتام پذیری سے دو چار کیا۔ نئے پیرا ڈائم کی بنیاد واضح بنتی نظر آ رہی ہےالبتہ اس کے بننے میں عالمی معاشرے کی جغرافیائی تقسیم اور امکانی عسکری اتحادوں کی تشکیل بہت واضح ہے۔ چین کی اقتصادی ترقی سے حسد یا خوف یا دونوں نے مل کر سائوتھ چائنہ سی میں جس طرح جنگی ماحول بنایا، اس کی پہلی پروڈکٹ امریکہ، بھارت، آسٹریلیا اور جاپان کے مبہم دفاعی اتحاد کو ایڈ کا اعلان تو ہوگیا۔ مقابل کی تشکیل کے چرچے اور امکانات کا جائزہ عالمی میڈیا میں تواتر سے لیا جارہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے گلوبلائزشن اور اقوام متحدہ کے فیصلوں سے متصادم بھارتی ہندو بنیاد پرستی کی مہم جوئی اور کھلی ریاستی دہشت گردی اور گلوب کا جمود، افغانستان سے بالآخر امریکہ اور نیٹو کا انخلا اور بنتی گھمبیر صورتحال، جو کچھ مسجد اقصیٰ پر اسرائیلی دھاوے کےبعد ہوگیا، اس کا فالواپ، عالمی و علاقائی سیاست کے بڑے بڑے اہم ایکٹر ممالک کے خارجی تعلقات کی سرگرمیوں میں غیر معمولی تیزی واضح کر رہی ہے کہ رائٹ اور رانگ (خیر و شر) کی بنیاد پر نیا پیرا ڈائم بننے کو ہے جو عالمگیر نہیں بلکہ سوچ و اپروچ اور جغرافیے کے حوالے سے بھی دنیا کو دو بڑے کیمپس میں تقسیم کرے گا لیکن یہ سرد جنگ نہیں بلکہ ہر دو جانب گریٹ گیم کے ساتھ بڑی عالمی جنگ کے خطرات سے پُر ہوگا۔

اس غیر معمولی پیش منظر میں ہماری بڑی قومی ضرورت عودکر آئی ہے کہ قومی علمی حلقے خصوصاً یونیورسٹیاں اور آزاد ابلاغی ادارے وزیراعظم کے جاندار بیانئے ’’اب جنگ کے نہیں امن کے پارٹنر‘‘کو عام کرنے، اس کی تشریح سب سے بڑھ کر اس پر نیا پیرا ڈائم قائم کرنے کے لئے علمی و تحقیقی کردار ادا کریں۔ تین ملکی یونیورسٹیاں، پنجاب، قائد اعظم اور یونیورسٹی آف کراچی خصوصاً اس ضمن میں اپنا ہوم ورک کرکے کوئی منظم اجتماعی برین اسٹارمنگ کی صورت بنائیں۔ پنجاب یونیورسٹی جو، ملک کی صدر یونیورسٹی ہے، نے عالمی یونیورسٹیوں کی تازہ ترین رینکنگ میں 16فیصد کیو ایس ایشین کی درجہ بندی میں 54فیصد اضافے نیچرل سائنس میں ملک میں نمبر ون اور سوشل سائنسز کی ورلڈ رینکنگ میں سائوتھ ایشیاسے دونوں ٹاپ محقق پروفیسر دیے ہیں۔ اس میں وی سی ڈاکٹر نیاز اختر کی تحقیق اور علمی ڈائیلاگ کی حوصلہ افزائی کی پالیسی کا بڑا دخل ہے۔ وہ ہمت کریں اور عالمی خصوصاً خطے کی غیرمعمولی صورت حال میں وزیراعظم کے دنیا میں شہرت پاتے بیانیے کے حوالے سے اور نئےپیراڈائم میں اس کی جگہ بنانے کے لئے پنجاب یونیورسٹی میں مطلوب علمی کاوش کا آغاز کریں۔ وما علینا الالبلاغ۔

تازہ ترین