اسلام آباد (نمائندہ جنگ) عدالت عظمیٰ میں’ نامعلوم ملزمان کی جانب سے شہری کے شناختی کارڈ پر سم نکلوانے‘ سے متعلق ایک مقدمہ کی سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے ریما رکس دیئے ہیں کہ یہاں پر سب کے فون ہی ٹیپ ہوتے ہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان پر مشتمل دو رکنی بینچ نے منگل کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر کی گئی اپیل گزار عدنان سومروکی اپیل کی سماعت کی توان کے وکیل آغا محمد علی نے موقف اختیار کیا کہ ان کے موکل 2009میں حصول تعلیم کے لئے شکار پور سندھ سے اسلام آباد منتقل ہوئے تھے ،اور ماس کمیونیکیشن میں ایم اے اور ایم فل کیا ہے ۔
اسی دوران کسی نامعلوم شخص نے انکاشناختی کارڈ استعمال کرتے ہوئے ان کے نام پر موبائل فون کی ایک سم نکلوا ئی تھی
انہوں نے اس کے حوالے سے ایف آئی اے اور پی ٹی اے میں شکایات بھی درج کروائی تھیں لیکن آج تک کوئی تحقیقات نہیں کی گئی جس کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تو وہ بھی خارج ہوگئی ۔دوران سماعت درخواست گزار نے روسٹرم پر آکر بتایا کہ وہ پی ایچ ڈی کیلئے ملک سے باہر جانا چاہتا ہے لیکن پانچ سال سے ان کا فون ٹیپ کیا جارہا ہے ،اس دوران انھوں نے سرکاری اداروں میں نوکری لینے کی بھی کوششیں کی ہیں لیکن فون ٹیپ کرنے والے انہیں کہیں بھی کام کرنے نہیں دے رہے ہیں ۔
اپیل گزار نے عدالت سے ڈی جی ایف آئی اے کو تحقیقات کرنے کا حکم جاری کرنے کی استدعا کی تو جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ فون تو سب کے ٹیپ ہوتے ہیں، اگر آپ صحافی ہوتے تو عدالت آپ کو تحفظ دینے کی پابند ہوتی ،کیونکہ ان کے پاس حساس معلومات ہوتی ہیں ان کو حراساں کیے جانے پرتحفظ دیا جاتا ہے۔