یوسف خان جن کو دنیا دلیپ کمار کے نام سے جانتی ہے آج ہم سے رخصت ہو چکے ہیں۔ لیکن ان کا فنی قد اور دل آویز شخصیت کا سحر صدیوں تک قائم رہے گا۔فن اداکاری اس بات کا احسان مند ہے کہ اس کو دلیپ جیسا اداکار میسر آیا۔دلیپ کی اداکاری کا عکس ان کے ہم عصر فنکاروں کے ساتھ مستقبل میںآنے والے تمام اداکاروں پر نمایاں رہا ہے۔ دلیپ نے محض اداکاری کے فن پر دیرینہ اثرات نہیں ڈالے بلکہ ان کے اخلاق، شخصیت اور محبت اور شفقت بھرے انداز نے برصغیر کی معاشرت اور لوگوں سے میل ملاپ کے طریقوں پر بھی نمایاں اور خوشگوار اثرات مرتب کیے ہیں۔دلیپ اداکاری کی اپنی صنف ہے۔
ان کی پرفارمنس فن اداکاری سے محبت اور واقفیت رکھنے والوں کے لیے ہمیشہ انسپائریشن کا کام کرتی رہے گی۔ ان کے پرفارم کردہ کردار شائقین پر سحر طاری کر دیتے ہیں۔دلیپ نے اپنی اداکاری میں رومانس میں دل لگی ، ڈرامے میں حقیقت پسندی ، سنجیدگی میں متانت اور جذبات میں دل گرفتی کو مستحکم کیا۔ان کے کام کا تجزیہ فن کے نئے زاویے متعارف کروا رہا ہے۔
دلیپ کمار کی زندگی کی کہانی دلچسپ رہی۔ وہ11 دسمبر 1922 کو پشاور شہر میں لالہ غلام سرور علی خان کے گھر میں بطور محمد یوسف خان پیدا ہوئے۔ان کے والدپھلوں کی تجارت سے منسلک تھے۔یوسف خان پڑھائی اور کھیل دونوں میں تیز تھے۔ان کی اردو اور انگریزی زبان پر گرفت خاصی مضبوط تھی۔چونکہ راج کپور کا خاندان بھی پشاور میں ہی مقیم تھا اس لیے یوسف خان کی راج کپور سے دوستی تھی ۔ 1940 میں یوسف پونا آگئے۔1942 میں یوسف نے ممبئی ٹاکیز میں ملازمت اختیار کر لی۔ یہاں یوسف خان نے فلموں کی سکرپٹ رائٹنگ کا کام کیا۔
ممبئی ٹاکیز کی مالکن دیو یکا رانی ان کی شخصیت اور کردار سے خاصی متاثر ہوئی اور اس نے1944 میں یوسف خان کو فلم جواربھاٹا میں کام کرنے کی آفر کی۔ یوسف نے اس پیش کش کو قبول کر لیا ۔ اس طرح دنیائے فن کو دلیپ کمار مل گیا۔فلم جوار بھاٹا کی باکس آفس پرفارمنس اچھی نہیں رہی تھی مگر اس میں دلیپ کی اداکاری نے سب کو متاثر کیا۔ اس کے بعد انہوں نے ملن اور پرتیما میں کام کیا۔ دلیپ کمار کی پہلی کامیاب فلم جگنو تھی۔جس میں دلیپ نے نورجہاں کے ساتھ پرفارم کیا۔فلم کی کامیابی نے دلیپ کے لیے فلم انڈسٹری میں مزید مواقع پیدا کر دیے۔فلم میں دونوں فنکاروں کی اداکاری کو بہت سراہا گیا۔ راج کپور اور نرگس کے ساتھ 1949 میں فلم انداز نے دلیپ کے چاہنے والوں میں مزید اضافہ کر دیا۔ اس فلم میں دلیپ نے ایک امیر آدمی کا کردار نبھایا ۔ فلم میں بہترین اداکاری پر دلیپ نے فلم فیئر ایوارڈ بھی حاصل کیا۔
1950کی دہائی دلیپ کے فنی سفر کے لیے کامیاب ترین ثابت ہوئی۔انہوں نے جوگن، ہلچل، داغ، شکست،دیوداس ، مدھوتی، ترانہ، آن، آزاد، نیا دور، یہودی اور دیگر فلموں میں بہترین پرفارمنس دی۔ ان کی کردار نگار ی میں جذباتیت اور ٹریجڈی کا عنصر غالب تھا۔ان کو سب نے ٹریجڈی کنگ کے طور پر تسلیم کر لیا۔اس دوران اداکارہ کامنی کوشل کے ساتھ ان کی محبت کی شہرت بھی رہی۔ دلیپ اپنی پرفارمنس میں ورائٹی لانا چاہتے تھے اس لیے انھوں نے 1952 میں محبوب خان کی فلم آن میں ایک چلبلا کردار پرفارم کیا۔
اس میں اداکارہ نمی ان کی ہیروئن تھی۔ فلم نے باکس آفس پر زبردست کامیابیاں سمیٹیں۔یہ ہندوستان کی پہلی ٹیکنی کلر فلم تھی۔ فلم کو سترہ زبانوں میں ڈب کر اٹھائیس ممالک جن میں برطانیہ ، امریکہ، جاپان بھی شامل ہیں میں ریلیز کیا گیا۔آن کے کردار نے دلیپ کو نئے انداز میں پیش کیا۔اب یہ ثابت ہو چکا تھا کہ دلیپ ایک ورسٹائل ادا کار ہیں۔وہ ڈرامہ، رومانس ، رنجیدہ ، ایکشن کے ساتھ کامیڈی بھی پرفارم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔دلیپ نے کوہ نور اور آزاد میں بھی اسی طرز کے کرداروں کو پرفارم کیا۔
1955میں دلیپ کمار نے بمل رائے کی فلم دیوداس میں دیوداس کا کردار پرفارم کیا۔ ان کے مقابل وجنتی مالا اور سچیترا سین نے اداکاری کی۔ دلیپ کی پرفارمنس نے فلمی شائقین کو اپنا گرویدہ کرلیا۔فلم میں دلیپ نے ٹریجڈی اداکاری کو نیا آہنگ عطاکیا۔ اب دلیپ کمار بولی وڈ کے ماتھے کا جھومر بن چکے تھے۔ دلیپ نے اس وقت کی تمام مقبول اداکارائوں کے مقابلے میں پرفارم کیا ۔1960 میں مغل اعظم میں شہزادہ سلیم کے کردار کی پرفارمنس نے دلیپ کے فن کو اعلیٰ مقام عطا کیا۔
فلم میں پرتھوی راج اور مدھو بالا کے مقابل ان کی اداکاری نے فلمی شائقین کو ان کی دیوانگی اور عشق میں مبتلا کر دیا۔ دلیپ اور مدھوبالا ایک دوسرے کی محبت میں بھی گرفتار رہے لیکن اس کا اختتام ناکامی پر ہوا۔ 1966 میں دلیپ نے اداکارہ سائرہ بانو سے شادی کر لی جو کہ مرتے دم تک قائم رہی۔ دلیپ نے 1961 میں گنگا اور جمنا کو پروڈیوس بھی کیا اور گنگا کا مرکزی کردار بھی ادا کیا ۔
اس دوران دلیپ کو ہالی وڈ سے بھی کئی فلموں میں کام کرنے کی آفرز ہوئیں لیکن انہوں نے حامی نہ بھری۔ 1970 کی دہائی نے دلیپ کے فنی سفر کو نئی جہتوں سے متعارف کروایا۔اگرچہ ان کی کئی فلمیں باکس آفس پر ناکام رہیں لیکن ان کی پرفارمنس کو ناقدین نے پسند کیا۔1980 کی دہائی میں دلیپ نے اپنی پرفارمنس کے نئے روپ متعارف کرائے۔ اب وہ زیادہ تر مرکزی کرداروں کی بجائے معاون اور دوسرے کرداروں کے روپ میں نظر آئے۔فلم کرانتی، ودھاتا، مشعل، دھرم آدیکاری اور شکتی میں ان کی پرفارمنس نے فن اداکاری کو نئی جہتیں عطا کیں۔
اب دلیپ کمار آہستہ آہستہ فلموں میں کام کرنے سے پیچھے ہٹ رہے تھے۔ وہ اس حقیقت کو جانتے تھے کہ ان کے فن کا معیار کیا ہے اور شائقین ان سے کس طرز کی پرفارمنس کی توقع کرتے ہیں۔فلموں کے انتخاب میں دلیپ ہمیشہ ہی محتاط رہے اور ساٹھ سال سے زائد کی عمر میں وہ بے حد محتاط ہو گئے تھے۔ 1991 میں فلم سوداگر میں ان کی راج کمار کے ساتھ اداکاری کے مناظر دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ دلیپ کی آواز کی گرج اور چہرے کے تاثرات نے ایک بار پھر سے بالی وڈ پر ان کے راج کو مستحکم کر دیا ۔ 1998 میں ریلیز ہونے والی فلم قلعہ ان کے فنی سفر کی آخری فلم ثابت ہوئی۔
دلیپ کا فن درخشاں ہے۔ دلیپ نے اداکاری کے ساتھ فلاحی سرگرمیوں میں بھی بھر پور حصہ لیا۔وہ 2000 سے 2006 تک ہندوستانی پارلیمنٹ کے رکن بھی رہے۔ دلیپ صاحب نے اپنی فنی خدمات کے لیے درجنوں ایوارڈزحاصل کیے۔ ان کو بہترین مرکزی اداکار کے طور پر آٹھ فلم فئیر ایوارڈ زملے جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔ دلیپ کی فنی خدمات کے اعتراف میں ہندوستانی حکومت نے ان کو2015 میں پدما وبھوشن اور 1991 میں پدما بھوشن سے نوازا۔1994 میں دلیپ صاحبہ کو دادا صاحب پھالکے ایوارڈ دیا گیا۔ یہ ہندوستان میں فلمی صنعت کا سب سے بڑا اعزاز ہے۔1988 میں حکومت پاکستان نے ان کو نشان امتیاز عطا کیا ۔ دلیپ نے اپنی عمر کا آخری حصہ ممبئی کے علاقے باندرا میں واقع اپنے گھر میں گزارا۔ ان کی اہلیہ سائرہ بانو تا دم مرگ ان کے ساتھ رہیں۔ دلیپ پچھلے کئی برس سے علیل تھے اور کافی مرتبہ ہسپتال میں بھی داخل رہے۔
دلیپ اور سائرہ بانو کی جوڑی محبت کا استعارہ ہے۔ جس انداز اور وقار کے ساتھ سائرہ بانو نے دلیپ صاحب کی بیماری میں ان کا ساتھ نبھایا وہ ایک خوبصورت رومانوی داستان کی طرح ہے۔ دلیپ صاحب کی شخصیت نے یہ تاثر ثابت کیا کہ فنکار کا کام محض خود کو فنی دنیا تک محدود کرنا نہیں ہوتا بلکہ فنکار کو اپنے معاشرے کے ساتھ جڑ کر رہنا چاہئیے ۔ دلیپ کمار کے سٹائل اور اداکاری کے انداز کو بالی وڈ اور لولی وڈ میں کاپی کیا جاتا رہا۔
فلم انڈسٹریز کے بڑے ناموں نے ان کو اپنا آئیڈیل تسلیم کیا ان میں شاہ رخ خان، منوج کمار، راجندر کمار، عامر خان اور دوسرے فنکار شامل ہیں۔ دنیائے فلم کے تمام ہدایتکاروں اور پروڈیوسرز کی یہ خواہش رہتی کہ وہ دلیپ صاحب کے ساتھ کام کر سکیں۔ فلم ہدایتکار ستیاجیت رے نے دلیپ کمار کو مکمل اداکار قرار دیا۔ دنیا دلیپ صاحب کے فن اور خدمات کو ہمیشہ یاد رکھے گی۔