قومی اسمبلی اور تینوں صوبائی اسمبلیوں کے برعکس خیبر پختونخوا اسمبلی نے نئے مالی سال کے بجٹ کی منظوری انتہائی پرامن اور مفاہمانہ ماحول میں دےدی ہے جس کیلئے یقیناً وزیر اعلیٰ محمود خان نے جو کوشش کی تھی وہ کامیاب رہی ،انہوں نے بجٹ پیش کرنے سے قبل ہی اپوزیشن کے چیمبر میں جاکر اپوزیشن ممبران کو بڑی کامیابی کیساتھ رام کرلیا تھا، حالانکہ عام طور پر وزیر اعلیٰ اور اپوزیشن کے درمیان کافی فاصلے چلے آتے رہے ہیں حتیٰ کے اپوزیشن ارکان دو مرتبہ فنڈز کے معاملہ پر براہ راست وزیر اعلیٰ ہاؤس کے سامنے احتجاجی کیمپ کا انعقادبھی کرچکے ہیں لیکن اس کے باوجود وزیر اعلیٰ نے اپوزیشن چیمبر جاکر حزب اختلاف کے ارکان کیساتھ ملاقات کی تو اپوزیشن ارکان بھی اچھے بچوں کی طرح مان گئے۔
چنانچہ نہ صرف یہ کہ وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر کے دوران کوئی ہنگامہ آرائی نہیں ہوئی بلکہ بعد ازاں بجٹ پاس کرنے کے دوران بھی اپوزیشن نے کافی تعاون کا مظاہرہ کیا اس حوالے سے یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ اپوزیشن کے بعض بااثر اراکین وزیر اعلیٰ ہاؤس کیساتھ قریبی رابطے رہتے ہیں اور ان اراکین کے مسائل فوری بنیادوں پر حل بھی ہوتے ہیں اور پھر ان ہی بااثر اراکین نے مفاہمانہ ماحول قائم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا، اسی طرح ضمنی بجٹ بھی کسی بڑی مزاحمت کی بجائے آسانی کیساتھ منظور ہوگیا، یوں صوبائی حکومت نے ایک اور مرحلہ کامیابی کیساتھ طے کرلیا ہے۔
اسی مصالحانہ، مفاہمانہ اور برادرانہ ماحول کا مظاہرہ اس وقت بھی دیکھنے میں آیا جب اپوزیشن ارکان نے ممبران اسمبلی کی تنخواہوں میں کمی کا رونا رویا، اپوزیشن ارکان جب اس حوالے سے چیخ و پکار اور فریاد کررہے تھے تو حکومتی ارکان کو بھی موقع ملا اور انہوں نے اپوزیشن ارکان سے کہیں زیادہ فریاد کی بلکہ صوبائی وزرا نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اگر ہمیں کرپشن سے روکنا ہے تو ہماری مراعات میں اضافہ ناگزیر ہے۔
سپیکر نے اس میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے فوراً کمیٹی قائم کرکے 15دن میں رپورٹ طلب کرلی، ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ اراکین اسمبلی سے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 37فیصد تک اضافہ ہضم نہیں ہورہا اور اب وہ موقع غنیمت جانتے ہوئے خود بھی بہتی گنگا میں غوطے لگانے کیلئے تیار ہیں، کمیٹی کی رپورٹ تو ناجانے کب آتی ہے تاہم دکھائی یہ دیتا ہے کہ اراکین اسمبلی کی مراعات اور تنخواہوں میں اضافہ کے معاملہ پر بھی وسیع تر اتفاق رائے ہوجائیگا اور یوں بچارے غریب اور لاچار ارکان اسمبلی کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہونے سے بچ جائیں گے۔
اسمبلی اجلاس کے دوران ایک مرتبہ پھر صوبائی وزرا کی بھڑک بازیاں خود حکومت کے گلے پڑ گئیں، اس سے پہلےبنوں میں تجاوزات کے معاملہ پر تحقیقاتی کمیشن قائم کرنے کی پیشکش کردی گئی تھی جو اپوزیشن نے تو فوراً قبول کرلی مگر وہ کمیشن تاحال قائم نہیں ہوسکا ہے، اسی طرح گزشتہ دنوں ضمنی بجٹ پر بحث کے دوران جبBRT پر بات چلی اور اپوزیشن ارکان نے ایک مرتبہ پھر بی آر ٹی کی خامیوں اور مبینہ کرپشن کی نشاندہی پر مبنی رپورٹوں کا حوالہ دیا تو صوبائی وزیر محنت شوکت یوسفزئی نے ترنگ میں آکر اپوزیشن جماعتوں کو بی آر ٹی کے معاملہ پر مناظرہ کا چیلنج دے ڈالا۔
انہوں نے مناظرہ کا یہ چیلنج کچھ ایسے اعتماد کیساتھ دیا کہ جیسے انہیں تمام معاملات زبانی یاد ہیں اور شاید ان کا یہ خیال تھا کہ اپوزیشن ارکان ڈر کر خاموش ہوجائیں گے لیکن اس وقت انتہائی دلچسپ صورت حال پیدا ہوگئی جب اپوزیشن ارکان نے حکومتی مناظرہ کا چیلنج قبول کرتے ہوئے سپیکر سے وقت اور جگہ کے تعین کا مطالبہ کرڈالا جس کے بعد پہلے تو یہ طے ہوا کہ یکم جولائی کو صوبائی اسمبلی کے کانفرنس روم میں مناظرہ کا انعقاد ہوگا جس میں حکومت کی نمائندگی صوبائی وزیر شوکت یوسفزئی کی قیادت میں تین رکنی کابینہ کمیٹی کریگی جبکہ اپوزیشن لیڈر اکرم خان درانی، اے این پی کے خوشدل خان اور مسلم لیگ ن کے اختیار ولی اپوزیشن کی نمائندگی کریں گے لیکن یکم جولائی کو خوشدل خان کی مصروفیت آڑے آگئی جس کے بعد نئی تاریخ مقرر کی گئی تاہم صوبائی وزیر شوکت یوسفزئی کی درخواست پر5جولائی کی بجائے اب مناظرہ کیلئے 8جولائی کی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔
بظاہر تو ایسا محسوس ہورہا ہے کہ فی الوقت صوبائی حکومت اس قسم کے کسی مناظرہ کے موڈ میں دکھائی نہیں دے رہی ہے لیکن دیکھنا اب یہ ہے کہ حکومت اپنے ہی چیلنج سے کس طرح پیچھے ہٹتی ہے؟ ظاہر ہے اگرحکومت کسی ٹھوس جواز کے بغیر مناظرہ سے راہ فرار اختیار کرتی ہے تو اس کی انتہائی سبکی ہوگی اور یوں ایک صوبائی وزیر کی بھڑک بازی پوری صوبائی حکومت کے گلے پڑسکتی ہے جس کیلئے یقیناً اس مرحلہ پر صوبائی حکومت تیار دکھائی نہیں دے رہی ہے۔
دوسری جانب ملک بھر میں کنٹونمنٹ بورڈ انتخابات کیلئے تو شیڈول جاری ہوچکا ہے لیکن ابھی تک بلدیاتی انتخابات کے شیڈدل کا انتظار ہے، امکان یہی ہے کہ بلدیاتی انتخابات ستمبر کے آواخر یا اکتوبر کے اوائل میں منعقد ہوں گے جس کےلئے صوبائی حکومت بجٹ میں پہلے ہی ایک ارب روپے مختص کرچکی ہے ،بلدیاتی الیکشن نئے بلدیاتی نظام کے تحت ہوں گے۔