طویل تعطل‘ قیاس آرائیوں‘ حکومت کے سیاسی بیانات اور اپوزیشن کی جانب سے الزامات کے بعد رواں ہفتے سی پیک کے اہم منصوبے جسے GAME CHANGER کا نام بھی دیا گیا ہے‘ وزیراعظم عمران خان نے ’’گوادر فری زون‘‘ کا افتتاح اور 2200ایکڑ پر فری زون IIکا سنگ بنیاد رکھا۔ اس سے پہلے پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومتیں بھی اس منصوبے سے وابستہ رہی ہیں اور اس حوالے سے انفراسٹرکچر سمیت دیگر متعلقہ امور میں پیشرفت کی دعویدار ہیں تاہم امر واقعہ ہے کہ ابھی تک یہ منصوبہ سست روی کا شکار ہے۔
وزیراعظم نے گوادر میں اپنی تقریر کے حوالے سے جہاں سی پیک منصوبوں کی تکمیل سے پاکستان اور بالخصوص بلوچستان جو رقبے کے اعتبار سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور وہاں کے عوام اتنے ہی پسماندہ ہیں ان کیلئے بھی زندگی کی آسانیاں اور آسودگی فراہم کرنے کا اعلان کیا۔ وزیراعظم کا یہ مجوزہ فیصلہ بھی انتہائی اہم ہے کہ وہ پہاڑوں پر جا بسنے والے عسکریت پسندوں سے ڈائیلاگ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اگر اِس حوالے سے واقعتاً کوئی سنجیدہ اور بامقصد پیشرفت ہوتی ہے تو یہ صرف بلوچستان کیلئے ہی نہیں بلکہ پورے ملک کیلئے اہم ہو گی کیونکہ دیگر عوامل کے علاوہ بلوچستان میں بے چینی اور عدم اعتماد کی ایک وجہ وہ غلط فہمیاں بھی ہیں جو عدم رابطوں کی وجہ سے ہیں۔
اگر رابطوں سے افہام و تفہیم کے ساتھ ناراض بلوچوں کو دوست کا درجہ دیکر اُن سے مکالمہ کیا جائے تو معاملات میں بہتری آ سکتی ہے جو سی پیک منصوبے کے تحفظ کیلئے بھی ضروری ہے کیونکہ بعض طاقتوں کو پاکستان کی خوشحالی اور چین سے اسکے تعلقات کا استحکام پسند نہیں۔ وزیراعظم کے دورے کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ سی پیک منصوبے میں صرف پاکستان اور چین ہی سرمایہ کاری نہیں کر رہے بلکہ دنیا کے دوسرے ممالک بھی اس میں حصہ لے سکتے ہیں تاہم اس کیلئے ترغیبات کی مارکیٹنگ ضروری ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بعض بڑے ممالک سی پیک میں شامل ہونے کے خواہشمند تو ضرور ہیں لیکن اُنکی دانست میں انہیں مطلوبہ اعتماد نہیں مل رہا۔ وفاقی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان انتخابی محاذ آرائی کا میدان‘ اس مرتبہ آزاد کشمیر میں ہونے والے انتخابات ہو گا‘ جہاں جلسے جلوس اور دیگر سرگرمیوں کا آغاز ہو چکا ہے۔ قانون ساز اسمبلی کیلئے عام انتخابات عید کے فوری بعد 25جولائی کو ہونگے جس کیلئے تمام انتظامات کر لئے گئے ہیں۔
45براہ راست نشستوں میں 33آزاد جموں و کشمیر کے علاقے میں واقع ہیں جہاں لگ بھگ 28لاکھ سے زیادہ رجسٹرڈ ووٹرز ہیں جن میں 13لاکھ خواتین بھی شامل ہیں۔ 12نشستیں ان کشمیریوں کی ہیں جو پاکستان کے مختلف شہروں میں مقیم ہیں۔ حکومتی جماعت نے وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کو آزاد کشمیر اور راولپنڈی میں الیکشن کے حوالے سے اہم ذمہ داریاں تفویض کی ہیں جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو نے مظفر آباد کے جلسوں سے آغاز کیا تھا۔
حکومتی جماعت کے دو امیدوار بیرسٹر سلطان جو آزاد کشمیر کے صدر اور وزیراعظم بھی رہ چکے ہیں اور تحریک انصاف میں شامل ہونے والے سردار تنویر الیاس اس مرتبہ جیت کی شکل میں ریاست جموں و کشمیر کی وزارت عظمیٰ کے امیدوار ہیں۔ بیرسٹر سلطان کے بارے میں تو آزاد کشمیر کے لوگ سب کچھ جانتے ہیں تاہم سردار تنویر الیاس نے بہت کم عرصے میں نیک نامی کمائی ہے اور ان کا حوالہ ایک بڑی کاروباری شخصیت کا ہے جبکہ وزیراعظم عمران خان سے ملاقاتوں میں بھی انہوں نے اپنی سی وی سے انہیں وزارت عظمیٰ کے منصب کیلئے قائل اور متاثر کیا ہے۔
2016ء کے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ن) آزاد کشمیر میں سب سے بڑی پارٹی بن کر سامنے آئی تھی جس نے الیکشن میں 31نشستیں حاصل کر کے میدان مار لیا تھا جبکہ اسکے مقابلے میں پاکستان پیپلز پارٹی نے 3اور پاکستان تحریک انصاف نے 2نشستیں حاصل کی تھیں تاہم اس مرتبہ وزیراعظم عمران خان کی یہ کوشش ہے کہ انتخابات میں گلگت بلتستان والی صورتحال پیدا نہ ہو‘ اسلئے وہ خود بھی اس حوالے سے بہت زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں اور الیکشن کے آخری مرحلے میں وہ آزاد کشمیر میں چار جلسوں سے خود بھی خطاب کریں گے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ماضی کی روایات کے مطابق جس سیاسی جماعت کی حکومت وفاق میں ہوتی ہے وہی جماعت بہرصورت آزاد کشمیر میں حکومت بناتی ہے اور گلگت بلتستان میں بھی۔ اس مرتبہ بھی گلگت بلتستان میں تحریک انصاف نے ہی حکومت بنائی تاہم اب دیکھنا ہو گا کہ کیا آزاد کشمیر میں بھی ماضی کی اسی روایات کا اعادہ ہو گا؟؟
کیا پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ ایک بار پھر فعال ہو رہی ہے اور کیا واقعی اس حد تک موثر ہو سکے گی کہ حکومت کیلئے خطرے کی گھنٹی نہ سہی پریشانی کا سبب بن سکے‘ کیونکہ فی الوقت تو حکومت اسکی سرگرمیوں کو درخور اعتنا ہی نہیں سمجھتی۔ پی ڈی ایم نے حکومت مخالف تحریک سرگرمیوں کا تین ماہ بعد دوبارہ آغاز اتوار کو سوات میں ایک جلسہ عام سے کیا۔ جلسہ عام میں ہونے والی تقاریر اور عوامی شرکت کی تعداد کو لوگ دیکھ سن ہی چکے ہیں تاہم اس حوالے سے کچھ باتیں بحث طلب بھی ہیں۔
مولانا فضل الرحمان کے ذرائع نے جلسے کے انعقاد سے قبل یہ دعویٰ کیا تھا کہ جلسے میں میاں شہباز شریف اور مریم دونوں سوات کے جلسے میں خطاب کرینگے جس سے یہ تاثر دیا گیا کہ مولانا فضل الرحمان بالآخر ’’مفاہمت اور مزاحمت‘‘ کی سیاست کو یکجا کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں لیکن مریم نواز نے جلسے میں شرکت نہیں کی‘ چونکہ اپوزیشن کے جلسوں میں مریم نواز کے جارحانہ انداز کو پسند کیا جاتا ہے اسلئے لوگ بڑی تعداد میں مریم نواز کو سننے کی خواہش لیکر بھی جلسہ عام عام میں آئے تھے اور بعد میں جلسے میں مریم نواز کی عدم موجودگی کے تذکرے رہے۔ اطلاعات کے مطابق اس بات کا فیصلہ ’’لندن‘‘ سے ہوا تھا کہ شہباز شریف سوات کے جلسے میں جائیں گے اور مریم نواز آزاد کشمیر میں ہونے والے انتخابات میں اپنی تقاریر کے ’’جوہر‘‘ دکھائیں گی تاہم میاں شہباز شریف بھی انتخابی مہم کیلئے آزاد کشمیر جا سکتے ہیں۔
جلسے میں مسلم لیگی راہنما شاہد خاقان عباسی جو پی ڈی ایم کے سیکرٹری جنرل بھی ہیں اور انتہائی جارحانہ انداز میں حکومت پر تنقید کرتے ہیں سٹیج پر موجود تھے لیکن انہوں نے تقریر نہیں کی‘ یہ بھی بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ پھر مریم اورنگزیب بھی موجود تھیں لیکن اُنکی ’’تفریحی مصروفیات‘‘ تو نظر آئیں لیکن انہوں نے بھی تقریر نہیں کی۔ مولانا عبدالغفور حیدری بھی اسی فہرست میں شامل ہیں تاہم یہ بھی فرض کیا جا سکتا ہے کہ بارش کے باعث مقررین کی تعداد کم کرنے کی وجہ سے یہ لوگ تقریر نہ کر سکے ہوں۔