• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں اس وقت بمبئی میں ہوں جس کا نیا نام ممبئی ہے، مگر میں اسے بمبئی ہی کہوں گا۔ بمبئی ایک شہر ہے جو پام کے درختوں، رنگ برنگے انسانوں، فلم نگری کے ستاروں اور سمندر کی لہروں سے بنا سنورا رہتا ہے۔ میرے ساتھ انور شعور ہیں، اصغر ندیم سید اور عزیر احمد ہیں۔ ہمیں لاہور سے امرتسر تک بائی روڈ آنے میں ایک گھنٹہ، امرتسر سے بمبئی بائی ایئر جانے میں ڈھائی گھنٹے اور بمبئی ایئر پورٹ سے اپنے ہوٹل تک پہنچنے میں دو گھنٹےلگے تھے۔ اور اگر ہم یہ شہر دیکھنے نکلیں تو اللہ جانے ایک مہینے میں بھی یہ پورا شہر دیکھ سکیں گے بھی کہ نہیں۔ چنانچہ سوچا ہے کہ صرف وہی کام کریں گے، جس کے لئے پاسبان ادب اور جشن ادب والوں نے بلایا ہے۔ بمبئی کا مشاعرہ سات مئی کو اور دہلی میں دو تقریبات آٹھ مئی کو ہیں، انشاء اللہ دس مئی کو اپنے وطن کی مٹی کو بوسہ دینے واپس پاکستان چلے آئیں گے!
میں اس وقت اپنے کمرے میں اکیلا ہوں، لیکن اگردیکھا جائے تو انسان اکیلا کب ہوتا ہے؟ اس کے اندر ہر وقت ایک محشر خیال برپا رہتا ہے۔ مجھ ایسا کند انسان تو جب کبھی اللہ کے حضور بھی سجدہ ریز ہوتا ہے تو اس وقت بھی اللہ جانے کتنے ’’بت‘‘ اس کے خیالوں میں آ رہے ہوتے ہیں۔ اور میں تو یوں بھی اس حوالے سے اکیلا نہیں ہوں کہ قیصر خالد کا شعری مجموعہ ’’شعور عصر‘‘ اس وقت میرے ہمراہ ہے۔ قیصر سے میری ملاقات چند برس پیشتر رنجیت سنگھ چوہان کی معرفت بمبئی ہی میں ہوئی تھی۔ ایک خوبصورت نوجوان، پولیس میں ہونے کے باوجود شریف النفس! مگر آگے چلنے سے پہلے اپنے پولیس کے دوستوں سے ایک گزارش ہے کہ میرے جملے کا مطلب اگر سمجھنا ہو تو براہ کرم فون پر پوچھ لیں، اپنے کسی اہلکار کو بھجوانے اور پولیس کی بند کھڑکیوں والی گاڑی میں تھانے بلوانے کی زحمت نہ کریں کہ مجھے اتنا پروٹوکول پسند نہیں۔ بہرحال بات قیصر خالد کی ہو رہی تھی۔ مجھے کیا پتہ تھا کہ یہ شخص شاعر بھی ہے۔ وہ تو انہیں اسٹیج پر ’’عرض کیا ہے‘‘ کرتے دیکھا تو یہ عقدہ کھلا کہ شاعر، شاعر ہی ہوتا ہے، خواہ وہ کتنے ہی بلند عہدے پر فائز نہ ہو۔ تاہم ایک بات یاد رکھیں کہ بہت سے بہت اچھے شاعر اپنے بلند مرتبہ عہدے کے دوران اپنے اس وصف کو اپنے عیب کی طرح چھپا کر رکھتے ہیں، بس یہی سوچ کر کہ لوگ کہیں گے ہم تو اسے افسر سمجھتے تھے اور یہ شاعر نکلا۔۔ مگر ہمارے ہاں ایک بدقسمت افسر شاعر ایسا ہی ہے، جسے افسر، افسر نہیں سمجھتے اور شاعر اسے شاعر نہیں مانتے!
مجھ ایسے باتونی شخص کے ساتھ یہ بہت بڑا مسئلہ ہوتا ہے کہ اصل بات درمیان میں رہ جاتی ہے اور میں پگڈنڈیوں پر چلنے لگتا ہوں دراصل جب آج صبح عزیزم اطہر شکیل نے مجھے قیصر خالد کا شعری مجموعہ پڑھنے کو دیا تو میں اس کے مطالعہ میں اتنا گم ہوا کہ مجھے پتہ ہی نہ چلا کہ اب مزید کچھ پڑھنے کو نہیں رہا کیونکہ اب اس کا بیک ٹائٹل آچکا ہے۔ میں نے سوچا کہ اس کتاب پر مجھے کچھ ضرور لکھنا چاہئے کیونکہ یہ کتاب میں نے نہیں پڑھی، کتاب نے خود مجھے پڑھایا ہے مگر ذہن میں بمبئی ہی گھومتا رہا، بالآخر میں نے ذہن کویکسو کیا اور پھر مجھے لگا میں نے قیصر خالد کے ساتھ جو لمحے گزارے ہیں وہ لمحے مجھے یاد رہیں گے کیونکہ اس کے شعری مجموعے کا صرف نام ہی ’’شعور عصر‘‘ نہیں بلکہ یہ شعری مجموعہ عصری شعور کا خود ہی منہ بولتا ثبوت ہے۔ ہمارے ہاں عصری شعور کو کچھ لوگوں نے بہت بدنا م کیا۔ انہوں نے سمجھا کہ نعرے بازی کے ذریعے لوگوں کو عصری شعور سے آگاہ کیا جاسکتا ہے۔ انہیں یہ بات سمجھ نہیں ٓئی کہ شاعری میں سب سے پہلے شعری شعورکی ضرورت ہوتی ہے۔ باقی شعور وغیرہ اس کے بعد آتے ہیں۔ اقبال اگر سچا اور بڑا شاعر نہ ہوتا تو اس کا شعور ہمارے کسی کام کا نہ تھا۔ اس کی نثر تو ہمارے کام آتی لیکن اس کی شاعری کا مول لگانے والا کوئی نہ ہوتا۔ قیصر کی یہ بات سمجھ میں آگئی چنانچہ اس نے اول و آخر شاعری کی مگر اس کی شاعری عصری شعور میں گندھی ہوئی ہے۔ قیصر کے ہاں ایک بات مجھے ایسی نظر آئی جس کا میں خود بھی بہت بڑا پرچارک ہوں وہ ناموری کو اتنی اہمیت نہیں دیتا جتنی نیک نامی کو دیتا ہے۔ آپ ٹین ایجرز والی شاعری کر کے کچے پکے ذہنوں والے قارئین میں نامور تو ہوسکتے ہیں لیکن شعری حلقوں میں نیک نام نہیں ہوسکتے۔
میں جب کبھی کسی شعری یا نثری کتاب پر لکھنے کو بیٹھتا ہوں تو اپنی ایک محرومی پر بہت دکھ ہوتا ہے اور وہ یہ کہ میں نقاد نہیں ہوں، نقاد ہونے کی صورت میں پرپیچ قسم کی چند سطور اور چند موٹی موٹی اصطلاحات کے ذریعے قاری کو میری بات سمجھ آتی یا نہ آتی مگر میں اسے کتنی آسانی سے متاثر کرسکتا تھا۔ افسوس اللہ نے مجھے اس ہنر سے محروم رکھا۔ میں صرف ذاتی تاثر بیان کرتا ہوں اور اس دوران اپنی جہالت پر مسلسل کف افسوس ملتا رہتا ہوں۔ اس وقت میری یہی کیفیت ہے۔ مجھے قیصر خالد کی شاعری بھی بہت خوبصورت لگی ہے اور اس شاعری کو اس نے جس طرح پیغام رسانی کا ذریعہ بنایا ہے وہ پیغام مجھے بھی بہت عزیز ہے۔ استحصالی طبقوں کو نعرے بازی کی شاعری سے نہیں اسی قسم کی شاعری سے خطرہ ہے جو اپنے کٹیلے پن کے ساتھ سیدھی دل میں جا اترتی ہے۔ میری ان سطور سے خدانخواستہ یہ نہ سمجھیں کہ قیصر خالد کو پری چہرہ لوگوں سے کوئی کد ہے، ایسی کوئی بات نہیں، اس کے ہاں ’’خالص‘‘ غزل کے بھی بہت خوبصورت شعر ملتے ہیں لیکن اگر آپ چاہیں تو ان میں سے بھی عصری شعور بآسانی کشید کرسکتے ہیں!
آخر میں قیصر خالد کے بے شمار خوبصورت اشعار میں سے صرف چند اشعار؎
اپنے ہی حال دل کی ہمیں کچھ خبر نہیں
ورنہ جمال یار کا جلوہ کدھر نہیں
ان کا بھی ایک حصہ اجالوں میں ہے یہاں
ایسے چراغ جن پہ کسی کی نظر نہیں
ہم کو آداب پرستش سے نہیں کوئی غرض
ہم تو شوریدہ سری لائے ہیں بت خانے سے
اب سلاسل یا سلاسل کی صدا ہے کوئی
شور کب اٹھتا ہے اب شہریا ویرانے سے
اور اب چلتے چلتے قیصر کی ایک پوری غزل:
عشق صادق ہی تو معیار طلب کرتا ہے
یہ سکوں بانٹ کے آزار طلب کرتا ہے
جس کی گرمی سے مہک اٹھتا ہے یہ پندار وفا
شعلہ و عشق وہ دلدار طلب کرتا ہے
اک جہاں ، وہ بھی مکمل سا، ملے ہے کس کو
قلب معصوم تو بے کار طلب کرتا ہے
جس کی خوشبو ہو سفیران ادب میںہر سو
اک غزل ایسی بھی فن کار طلب کرتا ہے
رت جگے کر کے وہ افکار کی وادی کے سپرد
صبح خوش رنگ کو ہر بار طلب کرتا ہے
شہر خوش رنگ، تسلی، نہ وضاحت نہ سکوں
دل وہ بچہ ہے جو سنسار طلب کرتا ہے
کیا معمہ ہے عجب شوق جنوں ہے اس کو
یہ دل سادہ بھی بازار طلب کرتا ہے
صرف اقرار محبت نہیں اس کو کافی
وہ عمل سے بھی تو اظہار طلب کرتا ہے
بوئے سلطانی تو ہے، ہو نہ ریاست، نہ سہی
وہ اٹھے جب بھی تو دستار طلب کرتا ہے
ہر یقین آج گماںاور گماں جیسے یقین
اب جنوں، دشت سے گھر بار طلب کرتا ہے
دل کہ عادی ہو اس درد کا اے راحت جاں
یوں نیا دکھ ترا بیمار طلب کرتا ہے
تازہ ترین