• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’بجٹ سیزن‘‘ پاکستان کے موجودہ معاشی چیلنج اور مستقبل کے امکانات کا تنقیدی جائزہ لینے کا اچھا موقع ہوتا ہے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمارا مالیاتی بجٹ وسیع تر سیاسی اور معاشی قوتوں کے نرغے میں ہے۔ یہ قوتیں قومی بھی ہیں اور بین الاقوامی بھی۔ مثال کے طور پر آئی ایم ایف کا کنٹرول، ملک میں انتہائی سیاسی قطبیت اور گورننس کی حالت۔ لہٰذا اس سیزن کے دوران سب سے اہم ترجیح ان رکاوٹوں کے باوجود معاشی امکانات بڑھانا ہے۔ اس وقت ہمارے بجٹ کا ایک بڑا حصہ قرضوں کی ادائیگی اور دفاعی اخراجات کی نذر ہوجاتا ہے حالانکہ گزشتہ تین برس سے ہمارے دفاعی بجٹ میں اضافہ نہیں ہوا۔ اس دوران انڈیا کے دفاعی بجٹ میں 62فیصد اضافہ ہوا۔ ہمارا ترقیاتی بجٹ بھی کم ہورہا ہے۔ اس رجحان کے ملک کی سیکورٹی اور معاشی شرح نمو پر طویل المدتی تناظر میں پریشان کن ثابت ہوں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری سیکورٹی کا دارومدار معاشی استعداد پر ہے۔

معاشی امکانات بڑھانے کے لئے پاکستانی معیشت کو مسلسل بلند معاشی نمو برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس لئے بجٹ کا کوئی بھی تجزیہ وسیع تر معاشی قوتوں کو شامل کیے بغیر نامکمل ہوگا۔ حکومت کی کج فہمی ہے کہ محض ٹیکس کی شرح بڑھانے سے ملک کی معاشی استعداد بڑھ جائے گی۔ اگرچہ پاکستان میں ٹیکس کا حجم بڑھانے کی گنجائش موجود ہے لیکن ان امور میں حکومت کی سوچ غیر واضح ہے۔بجٹ پر ہونے والی بحث میں جو اہم سوال بدقسمتی سے نظر انداز کردیا گیا ، وہ یہ تھا کہ معاشی حجم میں اضافہ کس طرح کیا جائے؟ اس لئے ہمیں اپنے خطے اور خطے سے باہر کامیاب معاشی ماڈل دیکھنے کی ضرورت ہے۔ جن ممالک نے معاشی شرح نمو میں تیزی سے اضافہ کیا، اُنہوں نے ان دو شعبوں میں لازمی ترقی کی : براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری، اور برآمدات۔ اس ضمن میں بنگلہ دیش اور ویت نام کی مثالیں برمحل ہیں۔ غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری آنے سے برآمدات کی شرح میں بھی اضافہ ہوتا ہے کیوں کہ یہ میزبان ملک میں کاروبار کے جدید انداز، ٹیکنالوجی، عالمی معیار کی مہارت، عالمی سپلائی چین کے ساتھ رابطہ قائم کرتی ہے۔

210 ملین آبادی رکھنے والے پاکستان میں 2020 میں 1.5 بلین ڈالر کی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری ہوئی ، جب کہ اس دوران ویت نام میں ہونے والی بیرونی سرمایہ کاری کا حجم 28.5 بلین ڈالر تھا۔ حتیٰ کہ میانمار میں بھی سالانہ چار سے چھے بلین ڈالر کی سرمایہ کاری ہورہی ہے۔ آج کل سالانہ دو ٹریلین ڈالر کی براہ راست سرمایہ کاری پرکشش تصور کی جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ کون سے چھوٹے بڑے عوامل ہیں جو کسی ملک کو بیرونی سرمایہ کاری کے لئے پرکشش بناتے ہیں۔ پہلا عامل سیاسی ماحول ہے اور دوسرا اداروں کی استعداد، خاص طور پر نظامِ انصاف کی کارکردگی ۔سرکاری افسران کا رویہ اور انفراسٹرکچر بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

میکرو لیول پر سیاسی ماحول اہمیت رکھتا ہے۔ ہمیں خود سے سخت سوالات پوچھنے کی ضرورت ہے کہ ہم بیرونی سرمایہ کاری کی منزل کے طور پر عالمی سطح پر کہاں کھڑے ہیں۔ مسلسل غیر آئینی مداخلتوں کا پید اکردہ سیاسی عدم استحکام اور غیر یقینی پن ،سیاسی عمل کا ہمیشہ کے لئے خطرے میں رہنا ملک کی بیرونی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کرتا رہا ہے۔ ہر عشرے کے بعد ملک میں بحث چھڑجاتی ہے کہ پاکستان کے لئے کون سا نظام بہتر رہے گا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ یہاں سیاسی عمل کو سماجی اور معاشی ترقی ، کارکردگی اور عوام کو فراہم کردہ سہولیات کی بنیاد پر نہیں پر کھا جاتا۔ اس کی بجائے اسے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ’’درست تعلقات‘‘ کی بنیاد پر جانچا جاتا ہے۔ اس پر کھ میں سب سے زیادہ نقصان بیرونی سرمایہ کاری کا ہوتا ہے۔

براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کے لئے ضروری ہے کہ سرمایہ کارکو ملک کے نظام ، اس کی ساکھ اور اس کی کارکردگی پر اعتماد ہو۔ اس میں عدالتی نظام سب سے اہم ہے۔ یہاں سادہ سا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بیرونی سرمایہ کار اس ملک میں سرمایہ کاری کا خطرہ مول کیوں لیں گے جہاں میڈیا کا خبر نامہ عدالتی بازو کے ذریعے سیاسی حریفوں کو شکار کرنے کی خبروں سے بھرا ہوگا؟

اہم سوال یہ ہے کہ کیا ملک کا ادارتی ڈھانچہ ترقی کے لئے ساز گار ہے یا نہیں؟ ترقی کے لئے ضروری ہے کہ آئینی قوت ہی حقیقی قوت ہواور یہ اختیارات کی تقسیم رکھتی ہو۔ بیرونی سرمایہ کاری کا دارومدار اس امر پر نہیں کہ کیا کوئی ملک جمہوری ہے یا نہیں ، بلکہ اس امر پر ہے کہ کیا ملک کانظام قابل اعتماد ہے یا نہیں؟ کیا ملک پر اتھارٹی رکھنے والا ہاتھ واضح ہے؟ اس کے لئے ملک کے آئین، بزنس کے قوانین، لیگل سسٹم کے علاوہ قانون پر عمل درآمد کو دیکھا جاتا ہے۔ پاکستان میں آئینی طاقت تو منتخب آفس کے پاس ہے لیکن حقیقی طاقت غیر منتخب اداروں کے ہاتھ میں ہے۔ یہ صورت حال تنائو اور ٹکرائو کی فضا قائم کرتی ہے۔ اس کی موجودگی میں معاشی ترقی ناممکنات میں سے ایک ہے۔پاکستان کی 220 ملین کی آبادی میں دوتہائی نوجوان ہیں۔ ایک سے دوارب ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری انتہائی ناکافی ہے ۔ہمیں موجودہ پچیس بلین ڈالر کی برآمدات کو دوپچاس بلین ڈالر ،ا ور ڈیرھ بلین ڈالر بیرونی سرمایہ کاری کو پینتیس بلین ڈالر تک پہنچانا ضروری ہے۔ یہ ناممکن ہرگزنہیں ہے کیوں کہ ہم 220 ملین آبادی رکھنے والی ایک فعال معیشت ہیں۔ اس میں ساٹھ سے ستر ملین درمیانی طبقہ ہے جو سیاسی استحکام ، قانونی نظام اور کاروبار کے لئے سازگار ماحول چاہتا ہے۔

اداروں کے درمیان ٹکرائو ملک کی معاشی ترقی اور سیاسی استحکام کے لئے زہر قاتل ہے۔ دنیا نے اس بابت بہت تلخ سبق سیکھ رکھا ہے۔ اس لئے سول اور سیاسی اداروں کو تقویت دینے کی ضرورت ہے ۔حالیہ عشروں میں بہت سے ممالک میں یہ سبق سیکھ لیا گیا کہ سیاسی مداخلت ملک کے لئےنقصان دہ ہے۔ اُنہوںنے ایسے اقدامات سے توبہ کرلی ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہماری اسٹیبلشمنٹ بھی ’’تزویراتی پسپائی‘‘ کے لئے تیار ہے؟ کیوںکہ یہ پاکستان کے نئے سیاسی مستقبل کا واحد راستہ ہے ۔اسی راستے پر چل کر پاکستان بیرونی سرمایہ کاری کے لئے پرکشش ملک بن سکتا ہے۔ تمام اسٹیک ہولڈر آئین، طاقت اور حقیقی طاقت کے درمیان بڑھتے ہوئے فرق کو کم کرنے کی کوشش کریں ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین