• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم عمران خان نے اپنے حالیہ دورہ گوادر کے موقع پر قبائلی عمائدین سے خطاب کے دوران اس بات کا عندیہ دیا کہ وہ ایسے ناراض بلوچ قبائل کے ساتھ بات چیت کا سوچ رہے ہیں جو بھارت کی ایما پرپاکستان کے خلاف منفی سرگرمیوں میں ملوث نہ رہے ہوں۔ 6 جولائی کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزیراعظم عمران خان کو ناراض بلوچ رہنمائوں کو قومی دھارے میں لانے کے لئے ان کے ساتھ بات چیت کا مکمل اختیار دے دیا گیا ۔

یہ پہلا موقع نہیں کہ کسی حکومت کی جانب سے ناراض بلوچ رہنمائوں کو منانے کیلئے بات چیت کا آغاز کیا جا رہا ہو ، ماضی میں بھی اسی طرح کی متعدد بار کوششیں ہو چکی ہیں بالخصوص وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک کے پہلے اڑھائی سالہ دور میں بلوچ رہنمائوں کے ساتھ بات چیت ہوتی رہی اور اس میں مثبت پیشرفت بھی ہوئی تاہم ان کے پیشرو نواب ثناء اللہ خان زہری کے دور حکومت میں بات چیت کا عمل مزید آگے نہ بڑھ سکا۔بلوچستان میں جاری بدامنی اور شورش کی تاریخ کئی دہائیوں پر محیط ہے اور اس آگ کو بھڑکانے کیلئے ملک دشمن قوتوں نے ہمیشہ بلوچ عوام کی غربت اور پسماندگی کا فائدہ اٹھایا ۔ اگرچہ ناراض بلوچ رہنمائوں کے بعض مطالبات جائز ہو سکتے ہیں لیکن صوبے میں جاری بدامنی اور عدم استحکام کی صورتحال کو اندر اور باہر دونوں محاذوں پر ریاست کیخلاف استعمال کیا گیا جس کے نتیجے میں نہ صرف صوبے کے عوام کی ملک کے ساتھ وابستگی کو زک پہنچی بلکہ بھاری تعداد میں قیمتی جانوں کا بھی ضیاع ہوا۔ اس کے علاوہ صوبے میں جاری فلاحی منصوبے بھی تعطل کا شکار رہے جن کی تکمیل کے فوائدبراہ راست پسماندہ اور حقدار لوگوں تک منتقل ہونے تھے۔

بلوچستان میں پاک چین شراکت سے ترقیاتی سرگرمیوں کا آغاز ہونے کے ساتھ ہی صوبے میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوششوں اور بدامنی کے واقعات میں بھی تیزی آ گئی۔ اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ صوبے میں جاری منفی سرگرمیوں کے پیچھے بین الاقوامی ہاتھ کارفرما رہے ہیں، جنہیں چند علاقائی طاقتوں کی مکمل اشیرباد بھی حاصل رہی ہے ۔ ایسی ملک دشمن قوتوں کا بنیادی مقصد پاکستان میں ہونے والی ترقی بالخصوص جہاں دوست ملک چین شراکت دار ہے، کو سبوتاژ کرنا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ صوبے میں پنپنے والی ناامیدی اور مایوسی کی لہر پہلے سے جاری رہی ہو۔ تاہم 1973میں جب ذوالفقار علی بھٹو نے سردار عطاء اللہ مینگل کی منتخب حکومت کا خاتمہ کیا تو یہ بد امنی واضح طور پر سامنے آئی۔ اس کے نتیجے میں ہی خیبرپختونخوا میں نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کی اتحادی حکومت نے بھی استعفیٰ دیا ۔ ان جماعتوں کی اعلیٰ قیادت کی بڑے پیمانے پر ہونے والی گرفتاریوں نے بلوچ علیحدگی پسندوں کو ایک بینر تلے متحد ہونے اور وفاقی حکومت کیخلاف مسلح مزاحمت شروع کرنے کا موقع فراہم کیا۔ 1978میں حیدر آباد سازش کیس سے دستبرداری، عام معافی کے اعلان اور سیاسی قائدین کی نظربندی کے خاتمے جیسے اقدامات اس بغاوت کوروکنے میں کافی حد تک معاون ثابت ہوئے۔

حکومتوں کی طرف سے بغاوت کا سبب بننے والی بنیادی وجوہات کو حل کرنے میں ناکامی نے بھی بلوچ عوام میں مایوسی پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے جن کا مقامی اور غیرملکی قوتوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور اس کی آڑ میں باغیوں کی بھرپور معاونت کی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ صوبے کے غریب عوام کا معیار زندگی بہتر بنانے اور انہیں ملک کے ترقی یافتہ علاقوں کے برابر لانے کیلئے ایک جامع پروگرام پر عمل کیاجاتا لیکن بدقسمتی سے ماضی کے حکمرانوں کا سارا زور تقاریر اور فائلوں کی حد تک ہی محدود رہا۔

اگرچہ سیکورٹی اداروں نے وفاق کی سالمیت کو چیلنج کرنیوالوں کے خلاف آئین کے مطابق کارروائیاں کیں لیکن طاقت کا استعمال کسی بھی مسئلے کا پائیدار حل فراہم نہیں کرتا ۔ یہ تب ہی ممکن ہوگا جب صوبے کے مایوس عناصر کے ساتھ ایک وسیع البنیاد بات چیت کا آغاز کیا جائے اور ان کی جائز شکایات کا ازالہ کرنے کیساتھ ساتھ ان کی حوصلہ افزائی کی جائے اور ملکی و صوبائی سیاست میں اپنا کردار ادا کرنے میں ان کی مدد کی جائے۔جب تک صوبے کے مایوس عوام کو اپنائیت کا احساس نہیں دلایا جاتا اس وقت تک ان کے لئے وفاق کے ساتھ اپنی وابستگی قائم رکھناایک مشکل فعل ہوگا۔ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ایسے ناراض قبائلی عمائدین کے ساتھ بات چیت کا عندیہ یقیناً اس پسماندہ صوبے اور اس کے عوام کی فلاح و بہبود کی طرف ایک مثبت قدم ہے۔ وزیراعظم کی جانب سے اٹھایا جانے والا یہ قدم نہ صرف بہترین ملکی مفاد میں ہے بلکہ پاکستانی عوام کی بھی یہی خواہش ہے۔ اگر اس اقدام کو پیرائے باہمی کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ نہ صرف بلوچ عوام کی دہائیوں سے چلی آ رہی جائز شکایات کا ازالہ کرے گا بلکہ یہ تمام لوگوں کو ’’ایک پاکستان، ایک عوام‘‘ کے جھنڈے تلے اکٹھا کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرے گا۔

لیکن اس اقدام کو کسی چھوٹی موٹی سرگرمی تک محدود نہیں رہنا چاہئے۔ صوبے کی ترقی اور عوام کو اعتماد دلانے کیلئے ایسی مخلصانہ کوششوں کا جاری رہنا ضروری ہوگا ۔ اس کے علاوہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو بھی صوبے کی ترقی اور عوامی فلاح وبہبود کے منصوبوں کو اولین ترجیح دینا ہوگی۔ صوبائی قیادت اور مقامی آبادی کے ساتھ شراکت اور مشاورت کی بنیاد پر ترقی کے لئے جاری منصوبوں کے ساتھ ساتھ تمام شعبہ ہائے زندگی میں ترقیاتی سرگرمیاں شروع کی جانی چاہئیں تاکہ عوام کو اس بات کا احساس ہو سکے کہ مذکورہ منصوبوں کے فوائد ان تک پہنچیں گے۔ اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو ہم مایوسی کا شکار بلوچ عوام کے دل جیتنے میں کامیاب ہو جائیں گے جو آدھی جنگ جیتنے کے مترادف ہوگا ۔ مکمل کامیابی کا انحصار ترقیاتی سرگرمیوں کے ثمرات عوام تک پہنچنے سے منسلک ہوگا۔

تازہ ترین