اختر حفیظ
دریا کے روٹھنے کا درد وہی لوگ جان سکتے ہیں، جن کی آنکھوں نے اسے بہتے دیکھا ہو۔ دریا محض پانی کا بہاؤ نہیں ہوتے بلکہ یہ تہذیبوں کے امین اور خوشیوں کی علامت بھی سمجھے جاتے ہیں۔ ہم دریاؤں سے جڑے قصے سنتے ہیں، کئی دیو مالائی کہانیاں بھی ان سے منسوب ہیں۔ جہاں بھی دریا بہتے ہیں، وہاں خوشیوں کے سازبجتے ہیں، مگر آج بڑھتی ہوئی آبادی اور دریاؤں پر ڈیمز کی تعمیر نے دریاؤں کی ہیئت کو متاثر کیا ہے۔
انسانی حیات تو اس کی مرہون منت ہے ہی، مگر آبی حیات کی بھی دریا کے بہتے پانی پر افزائش نسل ہوتی ہے۔ تصور کریں کہ دریائے سندھ کا ایک ایسا کنارا جو کسی زمانے میں ایک گاؤں کے لیے ’’معاشی حب‘‘ کی حیثیت رکھتا تھا اس کے باسیوں کی زندگی کا تمام تر دارو مدار اسی کنارے سے ملنے والی مچھلی اور دیگر آبی حیات پر ہو، اچانک ہی وہ ویران ہو جائے تووہاں کے باسیوں کی حالت کیا ہو گی؟
حیدرآباد کے تعلقہ لطیف آباد یونٹ نمبر 7 کے قریب ماہی گیروں کا ایک ایسا گاؤں آباد ہے، جس کے ساتھ پہلے دریا بہتا تھا، مگر اب وہاں خاک اڑتی ہے۔ کبھی گاؤں والوں کی آنکھوں میں دریا کے پانی کے بہنے کی وجہ سے چمک رہتی تھی، اب وہی آنکھیں دریا میں پانی کے بہاؤ کو ترس رہی ہیں۔ یہ گاؤں ’’سون میان‘‘ ہے۔ 70سالہ حمزہ فقیر اس گاؤں کے سب سے قدیم رہائشی ہونے کے علاوہ گاؤں کے نمبردار ہیں۔ انہوں نے دریائے سندھ کے کنارے بسے اس گاؤں کا عروج و زوال دیکھا ہے۔ ان کے آباء و اجداد نے صدیوں قبل یہ گاؤں بسایا تھا۔
آج یہ جس جگہ آباد ہے ، چند سال قبل یہاں نہیں تھا بلکہ یہ لوگ دریا کے دوسرے کنارے پر آباد تھے۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب دریائے سندھ پر ’’کوٹری بیراج ‘‘تعمیر نہیں ہوا تھا۔ اس دور میں گاؤں ہمیشہ سیلابی ریلے کی زد میں رہتا تھا، مگر کوٹری بیراج تعمیر ہونے کے بعد دریا کا رخ تبدیل ہوگیا جس کے بعد یہاں کے باشندوں نے اپنا گاؤں دریا کے بائیں کنارے پرمنتقل کرلیا۔
حمزہ فقیرکے مطابق ’’میں نے اپنی جوانی میں دریا کو اس طرح برباد حالت میں نہیں دیکھا۔ یہ ہمارے روزگار کا اہم ترین ذریعہ تھا، ہمیں اس میں سےاس قدر مچھلی ملتی تھی کہ فروخت کرنے کے بعد بھی بچ جاتی تھی جسے ہم سکھا کر رکھتے تھے اور مہینوں اپنے استعمال میں لاتے تھے۔ اس وقت یہاں کئی اقسام کی مچھلیاں پائی جاتی تھیں۔ پلا مچھلی اتنی زیادہ ہوتی تھی کہ ہم اسے انتہائی سستے نرخوں پر فروخت کرتےتھے، جبکہ جھینگا بھی یہاں با افراط تھا۔ آج یہاں پلا مچھلی نایاب ہوگئی ہےجس کی وجہ سے رہی سہی مچھلی مارکیٹ میں انتہائی مہنگے داموں فروخت ہوتی ‘‘۔
سون میان نام کا پس منظر بھی دلچسپ ہے۔ جب دریا میں پانی کی روانی بہت زیادہ تھی یہاں ہرقسم کی مچھلیاں وافر مقدار میں تھیں۔ ماہی گیروں کے معاشی حالات اتنے اچھے تھے کہ لوگ کہا کرتے تھے کہ یہ ’’میان مچھلی‘‘ کی صورت میں سونا اگلتی ہے۔ گاؤں کے باسی شادی بیاہ اور دیگر خوشی کی تقریبات کا انعقاد دریا کا بہاؤ دیکھ کر کرتے تھے۔ آج اسی سون میان گاؤں کے باسی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ سونا اگلتے دریا میں خاک اڑ رہی ہے۔ اب نہ تو یہاں مچھلی کا شکار رہا اور نہ ہی دریا میں پانی ہے، بس اچھے دنوں کی یادیں باقی رہ گئی ہیں۔
جب برسات میں دریا میں پانی کی سطح کچھ بہتر ہو تی ہے تو سون میان گاؤں کے باسی ٹھٹھہ کے علاقے کھارو چھان تک کے علاقے میں ماہی گیری کرتے ہیں۔ کھارو چھان وہ علاقہ ہے جہاں دریا اور سمندر کا آپس میں سنگم ہوتا ہے۔ مگر دو دہائیوں سے دریا کا پانی سمندر تک نہیں پہنچ پا رہا۔1991 کے آبی معاہدے کے تحت دس ملین ایکڑ فٹ پانی کوٹڑی ڈائون اسٹریم سے چھوڑنا لازمی ہے، مگر آج تک اس پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے ایک تو سمندر بدین اور ٹھٹھہ کے اضلاع کی زمین نگل رہا ہے اور دوسری جانب سندھ کا زیر زمین پانی کڑوا ہو رہا ہے۔
گاؤں کے ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ ہم نے وہ دور بھی دیکھا ہے، جب مچھلی پکڑنے کا جال موٹے دھاگے سے بنا ہوا تھا اور اسے دریا میں ڈالتے ہی منوں مچھلی ہاتھ آتی تھی، تب بس ایک بار ہی جال دریا میں ڈالا جاتا تھا۔ جال بڑا ہوتا تھا، اس کے سروراخوں میں سے چھوٹی مچھلیاں واپس دریا میں گر جاتی تھی جس کی وجہ سے ان کے افزائش کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ اُس زمانے میں یہاں ہر شخص کے لیے روزگار کے مواقع موجود تھے۔ سون میان کے کنارے بہت سے مزدور مچھلی کو کاٹنے، بیچنے اور اسے نمک لگا کر ذخیرہ کرنےکے پیشے سے منسلک تھے۔
یہاں رہنے والے ماہی گیر اب فش فارمنگ کے ذریعے افزائش کی ہوئی مچھلیاں بیچنے پر مجبور ہیں۔ زیادہ تر مچھیرے اپنے آبائی پیشے کو خیرباد کہہ کر محنت مزدوری کرکے اپنے اہل خانہ کا پیٹ پال رہے ہیں۔