• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ امن و آشتی کی سرزمین ہے، اس کی تہذیب و ثقافت میں محبت و پیارکے رنگ نمایاں نظر آتے ہیں۔ سندھ کے باسیوں کے دلی جذبات کا اظہار، شعر و ادب، لوک کہانیوں، موسیقی اور رقص و سرود کی محافل سے ہوتا ہے۔ سندھی موسیقی میں تو روحانیت چھلکتی ہے جب کہ رقص میں صوفیانہ رنگ نظر آتا ہے۔ مٹکا رقص کو سندھی زبان میں’’گھڑا یا گھڑو رقص‘‘ بھی کہتے ہیں، یہ دنیا بھر میں ایک انوکھے فن کی حیثیت رکھتا ہے۔

رقاص سر پر کئی فٹ لمبی لوہے کی راڈ پر مٹکا رکھ کر رقص کرتا ہے۔ اس میں فن کار کی مہارت کے علاوہ توازن کابڑا دخل ہوتا ہے۔ رقص کے دوران، رقاص کے سر پر ساڑھے چار فٹ لمبی لوہے کی ایک ’’راڈ‘‘ ہوتی ہے ، جس کے دوسرے سرے پربنے اسٹینڈ پر پانی سے بھرا ہوا مٹکا ٹکا ہوتا ہے،جس کا وزن تقریباً سولہ کلو گرام ہوتا ہے۔ 

رقاص کے ہاتھ میں’’ چپلیاں‘‘ ہوتی ہیں۔ ’’راڈ‘‘ فقط سر پر نہیں رہتی، کبھی فن کار اِسے ہاتھ میں پکڑ لیتا ہے، کبھی دانتوں پر ٹکا لیتا ہےجس کی وجہ سے اکثر منہ اور جبڑے زخمی بھی ہوجاتے ہیں۔ ہاتھوں سے مٹی کے گھڑے کو لوہے کے بنے ہوئے اسٹینڈ پر رکھنا اور اس کو منہ سے پکڑ کرفضا میں معلق رکھ کر رقص پیش کرنا، کوئی عام بات نہیں، دیکھنے والوں کو یہ سب عجوبہ لگتا ہے۔یہ رقص سندھ کی ثقافت کا حصہ ہے ،جسے سندھ دھرتی کے لوک فنکار پیش کرکے اس قدیم فن کو زندہ رکھنے کی کوشش کررہے ہیں،جو سائنس و ٹیکنالوجی کی تیز رفتارترقی کے دور میں حکومتی عدم توجہی کی وجہ سے قصہ پارینہ بنتا جارہا ہے۔

اس کا شمار سندھ کے روایتی رقص میں ہوتا ہےلیکن اب اس کی مقبولیت میں کمی واقع ہوتی جارہی ہے جس کی وجہ سے فن کار وں نے اپنے اہل خانہ کا پیٹ پالنے کے لیے دوسرے پیشے اپنا لیے ہیں ۔ اب اس سے وابستہ صرف چند رقاص رہ گئے ہیں۔ فن کاروں کے گروپ شہر کی گلیوں میں سر پر مٹکا رکھ کر اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں لیکن تمام دن گلیوں گلیوں پھرنے کے بعدیہ لوگ مجموعی طور پربہ مشکل چند سو روپے ہی کما پاتے ہیں ۔

سندھ کے دیہی علاقوں میں اب بھی مٹکا ڈانس، شادی بیاہ اور دیگر تقریبات کا حصہ ہے۔ سائیں داد فقیرکا خاندان صدیوں سے اس فن سے وابستہ ہے اور وہ اسے ختم ہونے سے بچانےکے لیے کوشاں ہیں۔ انہوں نے اسے دنیا بھر میں مقبول کرنے کے لیے کافی کوششیں کی ہیں۔ ان کا تعلق خانہ بدوشوں کے جوگی قبیلے سے ہے۔ منگہار قوم سے تعلق رکھتے ہیں اور ضلع ٹھٹھہ کے دور افتادہ علاقے کیٹی بندر کے رہائشی ہیں۔ انہیں یہ فن اپنے آبا و اجداد سے ورثے میں ملا۔ 

ان کے والد، محراب فقیر تقسیم ہند سے قبل راجستھان کے کے معروف رقاص تھے۔ قیام پاکستان سےقبل نقل مکانی کرکے کراچی آگئے اور لانڈھی میں آباد ہوئے۔ انہوں نے مٹکا رقص کو روزی کمانے کا ذریعہ بنا لیا اور شہر کی گلیوں اور تفریحی مقامات پر اس فن کے مظاہرے کو اپنی روزی روٹی کا ذریعہ بنا لیا۔برطانوی سرکار کے دورمیں سولجر بازار میں ایک میلہ منعقد ہوا۔ 

محراب فقیر بھی وہاں پہنچ گئے اور مٹکا سر پر رکھ کر رقص کے لیے تیار ہوئے لیکن ایک انگریز افسر نے انہیں رقص کرنے سے روکتے ہوئے زمین پر ایک ایک روپے کے سو سکے رکھ کر انہیں چیلنج کیا کہ رقص کرتے ہوئے جتنے سکے اٹھا سکتے ہو، اٹھا لو، وہ سب تمہارے ہوں گے لیکن شرط یہ ہے کہ گھڑا گرنا نہیں چاہئے۔ محراب فقیر نےچیلنج قبول کیا اور رقص کرتے ہوئے تمام سکے اٹھا لیے، جس کے بعد انگریز افسر نے ان سکوں کے علاوہ انہیں انعام و اکرام سے بھی نوازا۔

مٹکا تھام کر رقص کی صلاحیت ان کے بیٹے، سائیں داد فقیر میں بچپن سے تھی لیکن بارہ سال کی عمر سے انہوں نے اپنے چچازادبھائی ، محمد خمیسو خان سے اس کی باقاعدہ تربیت حاصل کی اورکچھ عرصے میں ہی وہ اس فن کے اتنے ماہر ہوگئے کہ ان کی شہرت اندرون ملک کے علاوہ بیرون ملک تک پہنچ گئی۔ چند سال قبل انہوں نے ایک غیر ملکی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ،’’ہمارے ملک میں لوک فنکاروں کو وہ اہمیت نہیں دی جاتی جو انہیں بیرونی ممالک میں حاصل ہوتی ہے۔ 

جب ہم بیرون ملک جاتے ہیں تو لوگ ہمیں عزت اور اہمیت دیتے ہیں مگر ہمارے ہم وطن ، ہمیں ایک فقیر سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے اور چند روپے بھیک کی صورت میں دے کر اپنے فرض سے سبک دوش ہوجاتے ہیں‘‘۔ سائیں داد فقیر کے مطابق وہ کئی ملکی و بین الاقوامی شخصیات کے سامنے مٹکا رقص کا مظاہرہ کرچکے ہیں۔ 1981-82 میں انہوں نے کراچی کے ایک گروپ کے ساتھ جنوبی کوریا کا دورہ کیا ،جہاں ان کے فن کو بہت پسند کیا گیا، وہاں سے وہ جرمنی چلے گئے۔

وہ چین،بھارت، بلجیم اور دبئی کے دورے بھی کرچکے ہیں جہاں مٹکا ڈانس بہت پسند کیا گیا ۔ 1995ء میں لوک ورثہ، اسلام آباد کے وفد کے ساتھ برطانیہ گئے جہاں مختلف شہروں میں انہوں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ مٹکا ڈانس برطانوی شہریوں کے لیے ایک عجوبہ تھا، وہاں لوگ انہیں مٹکا سر پر رکھ کر رقص کرتے ہوئے بہت حیرانی سے دیکھ رہے تھے۔ برطانوی شہزادی، آں جہانی لیڈی ڈیانا نے انہیں ستائشی سند کے علاوہ تحفے کے طور پر ایک قلم اور ’’سووینیر‘‘پیش کیا۔ کراچی کے ایک کلب میں منعقدہ تقریب میں بھی وہ اپنے فن کا مظاہرہ کرچکے ہیں جس کے مہمان خصوصی پاکستان کے سابق صدر جنرل پرویز مشرف تھے۔ 

انہوں نے سائیں داد فقیر کی عمدہ پرفارمنس سے متاثر ہوکر انہیں پچاس ہزار روپے انعام دیا۔ سائیں دادفقیر، شہید بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے سامنے بھی مٹکا ڈانس پیش کرچکے ہیں۔ سائیں داد کا کہنا ہے کہ ، اِس وقت پاکستان میں، اُن سمیت صرف پانچ مٹکا رقاص ہیں، جنھیں اِس کام کو جاری رکھنے میں مالی مسائل کا سامنا ہے۔ لوک فن کاروں کو حکومتی سرپرستی کی ضرورت ہے، محکمہ ثقافت کی جانب سے مختلف اداروں کی اسپانسر شپ میں ہر ماہ ثقافتی پروگرام کا انعقاد کیا جانا چاہئے تاکہ ان کا ذریعہ معاش چلتا رہے۔

تازہ ترین