• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے جسم کا ایک اہم عضو جگر ہے، جو تقریباً 500افعال ہمہ وقت انجام دیتا ہے۔ اسے جسم کا گودام اور فیکٹری بھی کہا جاتا ہے کہ یہ اپنے اندر متعدّد غذاؤں کا ذخیرہ رکھ کر انہیں اس قابل بناتا ہے کہ وہ سال بَھر جسم کے لیے اکسیر ثابت ہو سکیں۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ جگر کے کئی دشمن بھی ہیں، جو اس کے افعال متاثر کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ ان میں مختلف وائرسز، جراثیم اور ناقص غذائیں شامل ہیں۔

ہیپاٹائٹس، جگر کا مرض ہے، جس کے لاحق ہونے کی وجہ بھی ایک مخصوص قسم کا وائرس ہے۔ ہیپاٹائٹس کی کئی اقسام ہیں، لیکن سب سے عام اے، بی، سی ،ڈی اور ای ہیں۔ ان میں ہیپاٹائٹس اے عام قسم ہے، جس کا وائرس منہ کے ذریعے داخل ہو کر پیشاب یا فضلے میں خارج ہوجاتا ہے۔ یہ عموماً97 فی صد آبادی کو متاثر کرتا ہے کہ اس کی وجہ ہپیاٹائٹس کی ویکسی نیشن نہ کروانا ہے۔ یہ وائرس زیادہ تر بچّوں کو اپنا شکار بناتا ہے۔ اگر یہ وائرس بچپن میں متاثر کرے تو پیچیدگیوں کا باعث نہیں بنتا، لیکن نوجوانی میں لاحق ہو جائے تو جان تک جاسکتی ہے۔ اس سے متاثرہ افراد بغیر کسی علاج کے بھی ایک مقررہ مدّت کے بعد صحت یاب ہو جاتے ہیں۔

ہیپاٹائٹس بی خطرناک وائرس ہے، جو مریض کی جسمانی رطوبت، تھوک اور خون میں پایا جاتا ہے اوران ہی ذرائع سے کسی تن درست فرد میں داخل ہو کر اسے اپنا شکار بنا لیتا ہے۔ اس وائرس کے پھیلاؤ کی وجوہ میں غیر مطہر آلات، ایک ہی سرنج کازائد بار استعمال، انتقالِ خون، جِلد پر نقش و نگار، استعمال شدہ ریزرز، کان، ناک چھدوانا یا جنسی بے راہ روی شامل ہیں۔ زیادہ تر کیسز میںیہ وائرس جب جسم میں داخل ہوتا ہے، تو کافی عرصے تک علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔ 

بعض اوقات 10سے 20سال تک یہ جگر کو اپنا مسکن بنائے رکھتا ہےاور جب کسی بھی سبب ٹیسٹ کروایا جائے تو ہی پتا چلتا ہے کہ ہیپاٹائٹس بی لاحق ہے۔ عموماً بیرونِ مُلک مقیم افراد اس وائرس سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔کوئی کسی وجہ سے ٹیسٹ کرواتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ یہ وائرس موجود ہے۔علاوہ ازیں،اگر کوئی حاملہ ہیپاٹائٹس بی کا شکار ہو جائے، تو شکم میں پلنے والا بچّہ بھی اس سے متاثر ہوسکتا ہے، لہٰذا دورانِ حمل ہیپاٹائٹس بی کا لازماً ٹیسٹ کروالیا جائے، تاکہ بچّے میں یہ وائرس منتقل ہونے سے روکا جاسکے۔ اس کے لیے پیدایش کے فوری بعد نومولود کی ویکسی نیشن کی جاتی ہے۔ اس ویکسین کی تین ڈوزز ہوتی ہیں، جو وقفے وقفے سے لگائی جاتی ہیں، لیکن متاثرہ بچّے کی ویکسین پیدایش کےپہلے ہفتے میں کردی جاتی ہے۔ ہیپاٹائٹس سی ایک عام، مگر موذی بیماری ہے۔ 

یہ وائرس جگر کو اپنا مسکن بناکر اس میں Fibrosis پیدا کر دیتی ہے، جو بالآخر جگر کے سرطان کا باعث بن جاتی ہے۔ہیپاٹائٹس سی اور بی کے پھیلاؤ کے اسباب ایک ہی ہیں، مگر وائرس سی سے بچاؤ کی کوئی ویکسین دریافت نہیں ہوسکی، صرف احتیاطی تدابیر اختیار کرکے ہی اس سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔ مثلاً شیو یا حجامت بنواتے وقت ہمیشہ نئے بلیڈ کے استعمال پر زور دیں، دوسروں کی استعمال شدہ اشیاء، جن پر خون لگنے کا اندیشہ ہو مثلاً مسواک، ٹوتھ برش، سیفٹیز، بلیڈ، نیل کٹرز وغیرہ ہرگز استعمال نہ کریں اور نہ ہی اپنی چیزیں دوسروں کو استعمال کے لیے دیں۔بے راہ روی سے قطعاً دُور رہیں۔ 

ہیپاٹائٹس ڈی وائرس طفیلی ہوتا ہے، جو ہمیشہ بی کے ساتھ مل کر نقصان کا باعث بنتا ہے۔یعنی ہیپاٹائٹس بی اور ہیپاٹائٹس ڈی ایک مرض نہیں رہتا، بلکہ ایک اور ایک گیارہ ہوجاتے ہیں۔ ہیپاٹائٹس ای کا وائرس بھی وائرس اے کی طرح منہ کے ذریعے جسم میں داخل ہوکر جگر کو اپنا مسکن بنالیتا ہے۔ہیپاٹائٹس اے اور ای میں مبتلا مریضوں کے پاخانے میں اس کے وائرسز موجود ہوتے ہیں۔ اِسی لیے ان مریضوں کا پاخانہ بہت زیادہ انفیکشن پھیلانے کا سبب بننے والا یا متعدّی ہوتا ہے۔ ان مریضوں کو رفعِ حاجت کے بعد کسی معیاری صابن سے بہت اچھی طرح ہاتھ دھونے چاہئیں۔علاوہ ازیں، ہیپاٹائٹس ای’’ حاملہ کا قاتل‘‘ مرض بھی کہلاتا ہے کہ اگر کوئی حاملہ اس وائرس کا شکار ہوجائے تو موت کےامکانات20فی صد بڑھ جاتے ہیں۔یہاں تک کہ حاملہ خواتین میں اس وائرس کا علاج، معالج کے لیے ایک چیلنج بن جاتا ہے۔

یاد رکھیے،ہیپاٹائٹس بی، سی اور ڈی کا اگر بروقت علاج نہ کروایا جائے، تو کئی پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔ جن میں Fibrosis، Cirrhosis اور سرطان شامل ہیں۔ مشاہدے میں ہے کہ بعض مریض اتائیوں سے علاج کروانے کے چکر میں اپنا وہ قیمتی وقت ضایع کردیتے ہیں، جس میں ہیپاٹائٹس کا کام یاب علاج ممکن ہوتا ہے، لہٰذا مرض کی حتمی تشخیص کے بعد مستند معالج ہی سے علاج کروایا جائے۔ (مضمون نگار، معروف ماہرِ امراضِ معدہ و جگر ہونے کے ساتھ جنرل فزیشن بھی ہیں اور انکل سریا اسپتال ،کراچی میں خدمات انجام دے رہے ہیں)

تازہ ترین