رمضان المبارک ،شوال المکرم اور ذوالحجہ کے مہینوں کے آغاز کے لئے رویتِ ہلال کا مسئلہ عالمی سطح پر انتہائی مشکل اور پیچیدہ مسئلہ ہے ۔بلاشبہ ہر مسلمان کی یہ خواہش ہے اور ہونی چاہئے کہ دینی اعتبار سے یہ مقدس ایام پوری قوم ایک ساتھ منائے۔اُن مسلم ممالک میں تو ایسا ہو بھی رہا ہے جہاں ملوکیت ہے یا اُن کی حکومتوں کا انتظامی تسلط اور اقتدار مستحکم ہے، جیسے سعودی عرب ،مشرقِ وسطیٰ و دیگر عرب ممالک ،انڈونیشیا ،ملائیشیا وافریقی ممالک وغیرہ ،آج کل اسے Writ of the Govt.سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ پاکستان یا اُن ممالک میں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں، ایسا نہیں ہوسکتا چنانچہ برطانیہ اور امریکہ میں بھی کم ازکم دو عیدیں اور بسا اوقات تین عیدیں ہوجاتی ہیں۔ امریکہ میں دو بڑی تنظیمیں اسلامک کونسل آف نارتھ امریکہ(ICNA) اور اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکہ (ISNA)،ان میں سے ISNAپر عرب مسلمانوں کا غلبہ ہے ،وہ غیر مشروط طور پر سعودی عرب کی پیروی کرتے ہیں اور دوسرے یعنی ICNAسائنسی بنیاد پر تاریخ کا تعین کرتے ہیں اور ہمارے پاک وہند کے دینی وفقہی نظریات پر تصلّب کے ساتھ قائم رہنے والے علماء شرعی اصولوں کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ امریکہ جیسے بہت بڑے وسیع وعریض غیر مسلم ملک میں جہاں مسلمانوں کی آبادی جغرافیائی اعتبار سے انتہائی حد تک منتشر ہے،ایسا اہتمام آسان نہیں ہے،اس لئے وہاں بالعموم ایک سے زائد عیدیں ہوتی ہیں۔ برطانیہ ، امریکہ اور یورپ کے ممالک توسائنسی اعتبار سے جدید ترین ممالک ہیں لیکن وہاں بھی یہ مسئلہ آسان نہیں ہے جبکہ وہ پاکستان کی رویتِ ہلال کمیٹی کے زیرِ اثر نہیں ہیں کہ اِس پر الزام لگا کر اپنے فریبِ نفس کو تسکین دی جائے ۔ دیگر مسلم ممالک میں یہ روش بھی نہیں ہے کہ پوری قوم ،بعض سیاسی رہنما اور پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا ہاتھ دھو کر رویتِ ہلال کے مسئلے کے پیچھے پڑ جائے اور ہفتوں تک اِس موضوع پر کالم ،کارٹون ،ٹیلی وژن مباحثے اور بیان بازی کا سلسلہ جاری رکھا جائے ۔یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ شاید قومی انتشار کی واحد وجہ ایک دِن عید کا نہ ہونا ہے ۔ یومِ پاکستان اور دیگر قومی ایام تو پوری قوم ایک ساتھ مناتی ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ66 سال گزرنے کے باوجود قومی وحدت کیوں قائم نہ ہوسکی؟
قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک پورے ملک میں ایک عید کی روایت میرے علم میں نہیں ہے لیکن ہر سال انتہائی حیرت واِستعجاب سے پوچھا جاتا ہے کہ اِس سال دو عیدیں کیسے ہو گئیں؟سابق ادوار میں نسبتاً آسانی تھی کہ چیئرمین اور اراکینِ کمیٹی اعلان کرنے کے بعد گھرجاکرآرام سے سوجاتے تھے اور صرف سرکاری نشریاتی ادارے پی ٹی وی اور ریڈیوپاکستان تھے ، ان سے رویتِ ہلال کمیٹی کا فیصلہ نشر ہوجاتا تھا، کوئی مخالفانہ خبر ،فیصلہ یا تبصرہ نشر نہیں ہوتا تھا۔ صرف پشاور کی ڈیٹ لائن سے ایک لائن کی سرخی پر مشتمل خبر اخبارات میں چھپ جاتی تھی کہ مقامی علماء نے مطالبہ کیا ہے کہ چیئرمین کو برطرف کرو اور رویتِ ہلال کمیٹی کو تبدیل کرو، اس سے اگلے دن لوگ اپنے کاموں میں مصروف ہو جاتے تھے۔ اب درجنوں پرائیویٹ چینلز، ایف ایم ریڈیوز اور سیکڑوں اخبارات ہیں۔ ان سب کی ضرورت ”بریکنگ نیوز“، ”تازہ ترین“، ”فلیش نیوز“اور انتشار کی ایسی خبریں ہیں جن میں سسپینس، تجسس اور عوامی دلچسپی کا مرچ مصالحہ ہو۔ اس کے علاوہ تقریباً ہر پاکستانی کے پاس موبائل فون ہے۔ اب آئندہ کوئی بھی چیئرمین بنے، یہ تمام آفتیں اس کے استقبال اور خبرگیری کے لئے موجود رہیں گی۔ مزید یہ کہ مذہبی معاملات پرائیویٹ سیکٹر میں ہیں، حکومت کی رِٹ (تحَکُّم) قائم نہیں ہے اور نہ ہی مستقبل قریب میں اس کے کوئی آثار ہیں بلکہ بدقسمتی سے ہر آنے والے دن حالات میں مزید بگاڑ پیدا ہوتا چلا جاتا ہے۔ ملک بتدریج مسلح گروہوں کے ہاتھوں یرغمال بنتا جارہا ہے، حکمرانوں کے لئے اپنی سلامتی اورحفاظت ایک سوالیہ نشان ہے، قوم تو اللہ تعالیٰ اور مقدر کے رحم وکرم پر ہے۔ ایسے ماحول اور ایسے ملک میں کسی بھی امام یا خطیب کا یہ فطری حق ہے کہ وہ اپنی مرضی سے جو چاہے اعلان کرے، جو چاہے اقدام کرے، حکومت کی قائم کردہ قضا کو رد کرے ، اسے نہ آج کوئی روکنے والا ہے اور نہ مستقبل میں ایسے آثار نظر آرہے ہیں۔ میڈیا کے لئے 99% فیصد مسلمانوں کاایک ساتھ عید منانا کوئی خبر نہیں ہے بلکہ چند افراد کا الگ عید پڑھنا یہ خبر ہے اور جب اِنحراف واِعتزال کا رویہ اپنانے والوں کی اس حد تک حوصلہ افزائی ہو گی تو مستقبل میں اس روش کو مزید فروغ ملے گا۔
میں نے بحیثیت چیئرمین مرکزی رویتِ ہلال کمیٹی پاکستان تمام ارکان کی حمایت اور اتفاقِ رائے سے گزشتہ بارہ برسوں میں کوشش کی ہے کہ ہم فیصلہ شرعی بنیاد پر کریں مگر جدید سائنسی معلومات سے ہر ممکن استفادہ کریں، عقلی قرائن کے ساتھ مطابقت پیدا کریں تاکہ ہمارا یہ دعویٰ کہ اسلام دین فطرت ہے اور اس کا کوئی حکم ماورائے عقل تو ہوسکتا ہے، خلاف عقل ہر گز نہیں، زمینی حقائق کے مطابق بھی سچ ثابت ہو اور جوں جوں انسانی علم ترقی کرے گا دینی احکام کی حکمتیں اور قدرت کے پوشیدہ راز اس پرمنکشف ہوتے چلے جائیں گے اور اسلام کی حقانیت واضح ہوتی چلی جائے گی۔میں اپیل کرتا ہوں کہ کسی صاحبِ علم کے پاس کوئی ایسا فارمولا ہو تو سامنے لائے جس سے تمام سائنسی حقائق ومعلومات کو یکسر رَد کرکے محض شہادت کو حجّت مان کر رویت کا فیصلہ کرنے والے صوبہ خیبر پختونخوا کے بعض علماء اور ماہرینِ ِفلکیات بہ یک وقت مطمئن ہوجائیں اور کسی طرف سے اختلاف و عدمِ اطمینان کی کوئی آواز بلند نہ ہو جبکہ ان کا دعویٰ ہوتا ہے کہ ہم حلفیہ گواہی لیتے ہیں اور تمام گواہ متشرِّع بھی ہوتے ہیں۔ باہر بیٹھ کر تبصرہ کرنے والا تبصرہ نگار (Commentator) ہمیشہ کھلاڑی سے ماہر ہوتا ہے، اس کی غلطیوں اور کمزوریوں کی نشاندہی کرتا ہے، خواہ اس نے خود زندگی میں میدان میں اتر کر کوئی کارنامہ انجام نہ دیا ہو۔ شریعت نے قَضا میں خَطاکے احتمال کو کبھی رَد نہیں کیا ورنہ قاضی کو بھی نبی کی طرح معصوم ماننا پڑے گا لیکن شریعت نے قضا کو بہرصورت موٴثر مانا ہے اور جدید فلسفہٴ قانون بھی یہی ہے ورنہ جب ماہرین کے نزدیک سعودی عرب کا فیصلہ رویتِ حقیقی اور صریح امکان رویت کے کسی بھی معیار پر پورا نہیں اترتا تو اس کے تحت ادا کئے جانے والے اُمّت کے تمام حج باطل قرار پائیں گے،فَاعْتَبِرُوْا یٰا اُولِی الْاَبْصَار۔پاکستان میں کوئی بھی رویتِ ہلال کمیٹی تشکیل پائے اور کوئی بھی چیئرمین بنے،کسی نہ کسی گوشے سے ہدفِ طعن بننا اس کا مقدر رہے گا لیکن قرآن وحدیث اور اسلام کا حکم حسنِ ظن کا ہے ،بغیر ثبوت وشواہد کے سوءِ ظن کی اجازت نہیں ہے۔
چاند کی پیدائش (Birth Of Moon)کا مفہوم : رویتِ ہلال کے مسئلے پر جب سائنسی اور فنی گفتگو ہوتی ہے تو چاند کی پیدائش ہوئی یا نہیں، یہ اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ چاند کبھی معدوم نہیں ہوتا، ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ چاند کا سفر اپنے مدار(Lunar Orbit) پر جاری وساری رہتا ہے۔ چلتے چلتے ایک ایسا مقام آتا ہے جہاں سورج چاند اور زمین ایک لائن میں نظر آتے ہیں، اسے علمِ فلکیات (Astronomy)کی اصطلاح میں چاند کی پیدائش (Birth Of Moon) یا اقتران (Conjunction) کہتے ہیں۔(جاری ہے)