محمد شبیر خان
میں ریستوراں میں داخل ہوا ہی تھا کہ زور دار قہقہوں کی آواز گونجی ، مجھ سمیت سب لوگ اس طرف متوجہ ہوگئے ۔ چار کرسیوں پر براجمان نوجوانوں کا ایک گروپ ۔ اونچی آواز میں ہنستے ، بولتے تالی پر تالی مارتے اور آپس میں ہی ایک دوسرے کونامناسب القابات سے نوازرہے تھے ۔
ان کی عمریں 16سے 20سال کے درمیان تھیں ان کےسامنے ٹیبل پر ہر ایک کا سمارٹ فون اور سگریٹ کی ڈبیاں پڑی ہوئی تھیں ۔پہلے ایک نوجوان نے سگریٹ سلگایا،پھر دوسرے ،تیسرے اور چوتھے نے ، اس کے، باوجود یہ کہ ریستوراں انتظامیہ کی جانب سے واضح نوٹس لگاہوا تھا کہ یہاں سگریٹ نوشی منع ہے لیکن وہ بلادھڑک سگریٹ کا دھواں فضا میں اچھال رہے تھے ۔ ان کی گفتگو میں مجھے ایک بھی کام کی بات نظر نہیں آئی ۔ تکلیف دہ چیز غیر مہذب گفتگوتھی جن میں گالیاں بھی شامل تھیں۔ ایسا لگ رہا تھا یہ ان کے لیے ایک عام سی بات ہے۔اس وقت مجھے شدت سےاپنے استادِ محترم کی بات یاد آگئی کہ ’’اگر ہم معاشرے میں بولے جانے والے جملوں پر غور کریں تو معلوم ہوجائے گا کہ اس معاشرے کا معیار کیا ہے۔‘‘
نو جوانوں کایہ اندازِ گفتگو کچھ نیا نہیں ہے بلکہ اسی معاشرے کی ترجمانی ہے۔ ان نوجوانوں میں جوسب سے بڑی کمزوری نظر آئی وہ تھی ’’ مقصدیت کا فقدان‘‘۔ ان کے پاس کوئی گول ،ہدف اور ٹارگٹ نہیں تھا ۔اگر چہ ان کا خون جوان تھا ، وہ کچھ بھی کرنا چاہیں تو اپنی لگن کی بدولت کرسکتے ہیں، مگر بدقسمی سے یہاں ایسا نہیں تھا ۔کہتے ہیں’’عظیم ذہنوں میں خواب ہوتے ہیں اور پست ذہنوں میں فقط خواہشات۔‘‘
دنیا میں آج تک کسی ایسے انسان نے کامیابی حاصل نہیں کی جس کا کوئی مقصد نہ ہو ۔جذبہ ،جنون اور قربانیاں کسی کام کی نہیں اگر یہ کسی خاص مقصد کے زیرِ تابع نہیں۔خواہشات سب کی ہوتی ہیں لیکن مقصد کسی کسی کے پاس ہوتا ہے۔آپ کا ذہین ہونا اتنی بڑی بات نہیں جتنا بامقصد ہونا ۔ دیکھا جائے تو یہ ذمہ داری اساتذہ اور والدین کے کندھوں پر آتی ہے۔ آج کل کے اکثر نوجوانوں کے بھٹکنے کا ایک اہم سبب یہ بھی ہے کہ ان کے جذبوں کی قدر نہیں کی جاتی ۔وہ کچھ کرنا چاہیں تو ان کو حوصلہ افزا تھپکی نہیں دی جاتی ،جس کی وجہ سے وہ اس لگی بندھی روٹین سے بیزار ہوجاتے ہیں اور اس ماحول سے فرا ر چاہتے ہیں ۔
نتیجتاً غلط صحبتوں کا شکار ہو کر غلط راستے پر چل پڑتے ہیںحالاں کہ۔ ٹیکنالوجی کے اعتبار سےوہ اپ ٹو ڈیٹ تو رہتے ہیں، مگر تہذیب واخلاق کے دائرے سے نکلتے جارہے ہیں ۔اُن میں کچھ کر گزرنے کا جذبہ ہر وقت موجود ہوتا ہے، مگر بدقسمتی سے ان کو راہنمائی نہیں ملتی ۔جس کی وجہ سے وہ ایسے کاموں میں مبتلا ہوجاتے ہیں جن کا نقصان شاید اس وقت نظر نہ آرہا ہو لیکن وقت گزرنےپر وہ بڑے خسارے کا سبب بن جاتے ہیں ۔ وقت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بڑامنتقم مزاج ہے۔
یہ اپنا انتقام ضرور لیتا ہے اور جوکوئی اس کوضائع کردیتا ہے تو یہ بھی اس کو ضائع کردیتا ہے۔یہ ایک دو دھاری تلوار ہے جس کو اگر درست جگہ پر استعمال نہ کیا جائے تواس کی ایک دھارانسان کو ہی کاٹ دیتی ہے۔ اس وقت حالات کو دیکھتے ہوئے ضرورت اس بات کی ہے کہ بحیثیت والدین ، اساتذہ اور پاکستانی شہری ہر انسان اس بات کو اپنی ذمہ داری سمجھیں کہ نئی نسل کی بہترین راہنمائی کرنا وقت کا تقاضا ہے۔ ان کو مقصدِ حیات سے روشنا س کرانا، گفتگو اخلاق کے دائرے میں رکھنا کتنا ضروری ہے، یہ بھی انہیں بتانا ضروری ہوگیا ہے کیونکہ غیر اخلاقی گفتگو جہاں اسلامی احکام کی خلاف ورزی ہے ، وہیں ایسی گفتگو سے انسان اپنی قدر و منزلت بھی خود کھودیتا ہے۔
آج کے نوجوان بھی اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھیں کہ اللہ نے ان کو ایسے دور میں پیدا کیا ہے جو وسائل سے بھرپورہے ، جس میں کسی چیز کی کمی نہیں۔بڑے سے بڑے اساتذہ ،اہل علم حضرات اور نایاب کتابیں موجود ہیں ۔علوم وو فن کا حصول اب ناممکن نہیں رہا۔کوئی بھی بہترین اور معیاری کورس اب انٹرنیٹ کے ایک بٹن کے فاصلے پر ہے۔
کوئی بھی نوجوان اگر کچھ سیکھنا اور زندگی میں باصلاحیت بننا چاہے تو اس کے لیے کچھ مشکل نہیں، مگر شرط یہ ہے کہ دل میں طلب اور آگے بڑھنے کی لگن ہو،لیکن اتنے وسائل کے باجود بھی اگر وہ خود کوبہتر نہ بنائیں اوراپنے وقت کوغلط صحبتوں اور محفلوں میں ضائع کردیںتوپھر اس کے علاوہ کیا کہہ سکتے ہیں کہ وہ اپنی ناکامی کی قبر خود ہی کھود ررہے ہیں۔
علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے،
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
سر آدم ہے ،ضمیر کن فکاں ہے زندگی