• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تاشقند میں افغان صدر اور وزیراعظم عمران خان کے مابین جو تلخ مکالمہ ہوا اور باہمی خوفناک الزام بازی، اُس سے ظاہر ہے کہ پاکستان کا افغان فریقین میں ممکنہ ثالثی کا کردار بالکل ختم نہیں تو بہت معدوم ہوگیا ہے۔ امریکی فوجوں کے انخلاکے ساتھ ہی جہاں افغان حکومت متزلزل ہو گئی ہے، وہیں اُس خلا کو اگر کوئی پُرکررہا ہے تو فاتح طالبان۔ افغان طالبان کی نفسیاتی جیت تو ہوچکی ہے، امریکہ کی طرح ان کے فوجی جیت کے امکان کم، قومی انتشار اور خانہ جنگی کے امکانات زیادہ ہیں۔ افغان افواج تربیت یافتہ ہونے کے باوجود مرنے مارنے پہ تیار کم لگتی ہیں۔ افغان عوام بھی جنگ و جدل سے عاجز آچکے ہیں۔ افغان حکومت اندرونی کشمکش کی لپیٹ میں ہے اور اس میں شامل بہت سے طاقتور فریق ابھی طالبان کے خوف سے اس لیے اکٹھے ہیں کہ طالبان سے کوئی ایسا سمجھوتہ ہوجائے جس میں وہ اپنا اپنا حصہ بقدر جُثہ حاصل کر سکیں۔ طاقت کا فوکس کابل سے صوبوں میں منتقل ہورہا ہے جہاں مقامی ملیشیاز افغان فوج کی مدد سے طالبان سے نبرد آزما ہیں یا انہیں جگہ دے رہے ہیں۔ طالبان سرعت سے افغان دیہات پہ قابض ہورہے ہیں اور ماسوا طور خم کے وہ تمام بری و تجارتی راستوں پہ قابض ہوچکے ہیں۔ یوں لگتا ہے اس بار اُنہیں دنیا اور ہمسائے کے ممالک کو ساتھ لے کر چلنے کا شاید کچھ احساس ہوچلا ہے اور وہ اماراتِ اسلامی کی سابقہ ملا عمر کی حکومت کی طرح یکا و تنہا نہیں ہونا چاہتے اور امریکہ سمیت تمام ہمسایہ ممالک سے سفارت کاری کررہے ہیں۔ افغان بحران کے اس نئے ڈراپ سین کے وقت پاکستان کی سفارتی ”غیر جانبداری“ کو کابل کی متحارب حکومت درخور اعتنا نہیں سمجھتی۔ دونوں جانب کے ایک دوسرے سے اختلافات اتنے سنگین ہیں کہ 17 جولائی کو اسلام آباد میں منعقد ہونے والی افغان امن کانفرنس کو ملتوی کرنا پڑا ہے کیونکہ کابل کو اسلام آباد کی ثالثی پہ اعتبار نہیں۔ صدر اشرف غنی جتنا اندرونی و بیرونی طور پر تنہا ہورہے ہیں وہ زیادہ دیر اپنے سخت موقف پہ قائم نہیں رہ سکیں گے اور افغان امن کونسل اور دوسرے طاقتور گروہ زیادہ موثر ہوجائیں گے۔ دلچسپ بات ہے کہ طالبان طاقت کی پوزیشن میں آنے اور افغان مہاجرین اور کابل مخالف قوتوں سے کمک پہنچنے کے بعد سیاسی لچک کا مظاہرہ بھی کررہے ہیں۔ اب وہ امارات دولت افغانستان کی بحالی کا دعویٰ تو نہیں کررہے، البتہ افغان قومی جھنڈوں کو اتار کر اپنا جھنڈا اور شریعہ ضرور لاگو کررہے ہیں۔ ویسے بھی شریعت کے نفاذ پر افغان متحارب گروہوں میں نرم یا سخت کے سوا بنیادی اختلاف نہیں ہے، تھوڑی بہت آزادیوں اور کھلے پن کے دائرہ کار پہ اختلافات ضرور ہیں۔ طالبان اب تین ماہ کی جنگ بندی پہ بھی راضی ہیں بشرطیکہ ان کے سات ہزار جنگجو قیدی رہا کر دئیے جائیں۔ وہ اب ”اسلامی نظام“ اور پختوولی کے دائرے میں ایسے سمجھوتے پہ راضی ہوسکتے ہیں جس میں انہیں مرکزی حیثیت حاصل ہو۔ دوحہ میں دونوں اطراف نے اپنے اپنے خاکے تو شیئر کیے ہیں، بات چیت آگے نہیں بڑھی ہے۔ شاید اس لیے بھی کہ ہر دو فریق دوسرے کی آنکھ جھپکنے یا پھر کمزور پڑنے کے انتظار میں ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ بات چیت کا وقت گزر جائے اور خانہ جنگی متحارب قوتوں کے کنٹرول سے ماورا ہوکر جنگل کے قانون کے راستہ پہ چل نکلے۔ طالبان کو پاکستان سمیت دنیا اور خاص طور پر تمام ہمسائیوں نے جتلا دیا ہے کہ کابل پہ ان کا بزور طاقت قبضہ قبول نہیں، جس سے وہ سیاسی مصالحت پہ راغب ہوئے ہیں۔ لیکن وقت طالبان کے ساتھ ہے جبکہ کابل انتظامیہ وقت گنوارہی ہے۔ جو غلطی سابق صدر کرزئی نے بہت پہلے طالبان سے بات چیت کو ناکام بنا کر کی تھی، غالباً صدر غنی وہی دہرا رہے اور ایسے وقت میں جب امریکی/ نیٹو فوجی انخلاکے بعد توازن قوت ان کے خلاف بدل گیا ہے۔ دوسری طرف طالبان کے لیے بڑی مشکل یہ ہے کہ بغیر سیاسی سمجھوتے اور وسیع تر عبوری انتظام کے ان کی فوجی فتح زیادہ تر عالمی و قومی قوتوں کو قبول نہیں ہوگی اور وہ تنہا ہو کر رہ جائیں گے۔ افغان عوام بھی اب طالبان کا سابقہ دور وحشت قبول کرنے کو تیار نہ ہوں گے جبکہ طالبان بھی تروتازہ نہیں اور ایسے احمق اور ضدی بھی نہیں رہے جیسا کہ وہ جانے جاتے تھے۔ جس طرح انہوں نے امریکیوں سے ڈیل کی ہے اور اپنے مخالفین کو تنہا کیا ہے، ان کی پختگی کو ظاہر کرتا ہے۔

اس بیس سالہ خونی کھیل میں سب سے بڑا کھلاڑی استعماری امریکہ بوریا بستر لپیٹ کر ناکام و نامراد جاچکا ہے لیکن اب بھی افغان حکومت کی زندگی کا طوطا اس کے ہاتھ میں ہے۔ افغان حکومت کے تمام کل پُرزے اب بھی اس کے پے رول پر ہیں اور آئندہ ہونے والا بندوبست بھی امریکی ڈالرز کا مرہون منت ہوگا۔ امریکہ کی فوجی ہار تو ہوئی ہے، سیاسی نہیں۔ اب وہ کیا کوئی نیا گند گھولے گا یا پھر کوئی مناسب ترکیب نکالے گا، جلد ظاہر ہوجائے گا۔ موجودہ بری صورت حال کو امریکہ مزید بگاڑ بھی سکتا ہے اور اپنے مفاد میں تبدیل بھی کرسکتا ہے۔ تقریباً 5ارب ڈالرز کی گاجر تو اس نے افغانوں کے منہ کے سامنے لٹکا دی ہے اور سبھی کی رالیں ٹپک رہی ہیں۔ نیٹو ممالک اور یو این کی امداد الگ ہے۔

رہا پاکستان جس سے طالبان کے سوا تمام افغان فریق نالاں ہیں اور ان میں سے ہر کسی کو اسلام آباد نے مختلف وقتوں میں گھوڑے کے طور پر استعمال کر کے خفت ہی اٹھائی ہے۔ طالبان نے بھی اپنا سیاسی دفتر دوحہ میں بنایا اور ملا عمر نے پاکستان ہجرت نہ کی۔ طالبان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جو جہادی مہمان افغانستان میں ہیں انہیں کسی کے حوالے نہیں کیا جائے گا، البتہ انہیں دوسرے ملکوں کے خلاف دہشت گردی کی اجازت نہیں ہوگی۔ یہ معلوم نہیں کہ خراج و صول کر کے یا پھر اپنی ضرورتوں کے تحت۔ اب افغانستان میں پاکستان کے اتحادی صرف افغان طالبان ہیں جن کی بغل میں تحریک طالبان پاکستان و دیگر علاقائی دہشت پسند گروپ بھی ہیں جن سے تمام ہمسائے بشمول چین، پاکستان، ایران، تاجکستان، ازبکستان وغیرہ نالاں ہیں۔ اب مقتدرہ یا تو افغان طالبان کی آخری فتح کا انتظار کرے یا صدر غنی کی حکومت کے باہمی انتشار کا۔ طالبان و دیگر عسکریت پسندوں سے کیا اُمید لگائی جاسکتی ہے، سوائے اس کے کہ طالبان سے کہیں کہ ٹھنڈا کر کے کھائیں اور سب کو ساتھ ملا کر وسیع تر حکومت بنانے کی کوشش کریں۔ بہتر ہوگا کہ تمام علاقائی قوتیں مل کر ثالث کا کردار ادا کریں اور اگر ممکن ہو تو اقوام متحدہ افغان خانہ جنگی سے نکلنے کی کوئی راہ نکالے۔

تازہ ترین