میں ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند میں منعقدہ علاقائی تعاون کانفرنس میں شرکت کے بعد اسلام آباد واپس پہنچ چکا ہوں۔وہاں پاکستانی وفد کا جس اپنائیت کے ساتھ ازبک لوگوں نے خیرمقدم کیا، ہر ایک نے 'رحمت'پکار کر ہمارے لئے دعائیہ کلمات ادا کئے ، اس پُرخلوص اندازِ مہمان نوازی نے ہمارے دِل جیت لئے ہیں، ہمیں ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے ہم اپنے ہی ملک کے کسی حصے میں ہیں۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ پاکستان سینٹرل ایشیائی ریاستوں کے ساتھ تاریخی اور ثقافتی بندھن سے بندھا ہوا ہے۔ تاہم آج سے فقط تین دہائیوں قبل ازبکستان سمیت سینیٹرل ایشیا سوویت یونین کااہم حصہ تھا۔ سوویت یونین اپنے زمانے کی وہ عظیم سپر طاقت تھی جس سے امریکہ سمیت تمام مغربی ترقی یافتہ ممالک خائف تھے۔سوویت یونین کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ جس علاقے کا رُخ کرلیتا تھا ، اسے فتح کرکے ہی دم لیتا تھا،سوویت یونین نے دوسری جنگ عظیم میں ہٹلرکے نازی جرمنی کو شکست دینے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ جغرافیائی لحاظ سے سوویت یونین براعظم یورپ کے مشرقی اور براعظم ایشیا کے شمالی حصوں کی پندرہ جمہوریتوں پرمشتمل تھا جہاں کم از کم سو قومیتوں کے لوگ بستے تھے اور زمین کے چھٹے حصے پر سرخ پرچم لہرایا کرتا تھا۔ مشرق وسطیٰ اور لاطینی امریکہ کے متعدداہم ممالک بھی سوویت یونین کے ہمنوا تھے ۔ عالمی منظرنامہ سوویت یونین کے تحت مشرقی بلاک اور امریکہ کی زیرقیادت مغربی بلاک میں منقسم تھا۔سوویت یونین کے مغربی ممالک میں عسکری اثرات کا مقابلہ کرنے کیلئے نیٹو افواج کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔سرد جنگ کے زمانے میں سوویت یونین نے امریکہ کو ہر شعبہ زندگی میں ٹف ٹائم دیا،جوہری طاقت کا حامل سوویت یونین معیشت، کاروبار، تعلیم، فنون لطیفہ، خلا اور سائنس کے میدان میں بھی آگے تھا۔ تاہم پھر وہ افغانستان کے حوالے سے ایک ایسی بھیانک غلطی کربیٹھا جس نے اس کوٹوٹ پھوٹ کا شکار کردیا،افغانستان سے تاریخی شکست نے نہ صرف سپرپاورسوویت یونین کو قصہ ماضی بنا دیا بلکہ ازبکستان سمیت متعدد سابقہ ریاستوں نے بھی آزادی کا اعلان کردیا۔ آج سوویت یونین کا سابقہ حصہ ازبکستان ایک آزاد اور خودمختارملک کے طور پر دنیا کے نقشے پر موجود ہے۔ دارالحکومت تاشقند میں ہر طرف بلندوبالا عمارات، صاف ستھرے عوامی مقامات اوربہترین انفراسٹرکچر کی موجودگی ازبکستان کی عظیم الشان ترقی و خوشحالی کی عکاسی کرتی ہے۔ اپنے دورہ تاشقند کے دوران مجھے ازبک عوام کی جانب سے صفائی کو نصف ایمان سمجھنے کے قومی جذبے نے شدید متاثر کیا ۔ ایک رپورٹ کے مطابق ازبکستان میں روزانہ کی بنیاد پر تقریباََ بارہ ہزار ٹن کا میونسپل سولڈ ویسٹ (کوڑا کرکٹ) ٹھکانے لگایا جاتاہے ، صرف دارالحکومت تاشقند میںسالانہ پانچ لاکھ ٹن کا کچرا بنتا ہے، تاہم مجھے اپنے دورے کے دوران تاشقند میں کسی جگہ کوڑا کرکٹ نظر نہیں آیا،یہاں آکر ہوا ہے کہ ازبک عوام اپنے گھروں، محلوں کو صاف ستھرا رکھنے کیلئے کسی حکومتی ادارے کی طرف نہیں دیکھتے بلکہ خود اس سماجی فریضے کی انجام دہی کا بیڑہ اٹھالیتے ہیں۔ ازبکستان کو جغرافیائی لحاظ سے ڈبل لینڈ لاکڈ ملک قرار دیا جاتا ہے یعنی نہ صرف وہ خود سمندرسے محروم ہے بلکہ اسکے اردگرد ممالک بھی خشکی میں گھِرے ہوئے ہیں، یہ ممالک تجارتی سرگرمیوں کیلئے خطے کے دیگر ممالک کی بندرگاہوں کے محتاج ہیں۔قدرت نے ہمارے پیارے وطن پاکستان کو دنیا کی ہر نعمت سے نوازا ہے، ہمارے ملک میں سمندر، دریا، صحرا، ریگستان، پہاڑ، گلیشیئراور چاروں موسم موجود ہیں،ہم ازبکستان اور دیگرسینٹرل ایشیا ئی ریاستوں کو گوادر /کراچی بندرگاہ تک رسائی فراہم کرکے وافر مقدار میں زرمبادلہ کماسکتے ہیں۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان کے حالیہ دورہ تاشقند کے دوران دونوں برادر ممالک نے تجارت اور سرمایہ کاری سمیت باہمی تعاون کے اہم معاہدوں پر دستخط کیے ہیں، بزنس فورم کے اجلاس کے دوران لگ بھگ 453ملین ڈالرکی مالیت کے دوطرفہ معاہدے کیے گئے ہیں۔ امید کی جارہی ہے کہ دونوں ممالک اپنے عوام کی ترقی و خوشحالی یقینی بنانے کیلئے ایک دوسرے کے مزید قریب آئیں گے۔ تاہم مجھے ازبکستان میں پاکستانی سفارتخانے کی کارکردگی سے بہت مایوسی ہوئی، میں ماضی میں بھی اس امر کی نشاندہی کرچکا ہوں کہ ہمارے سفارتخانے عالمی سطح پر فعال کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں، بیرون ممالک میں متعین سفراء کرام کی دلچسپی کا محور اپنی فیملی کو سیرسپاٹے کرانا اور پروٹوکول کے مزے اُڑانا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے اس اہم ترین دورہ تاشقند کے موقع پر وزارت کامرس کے تحت پاکستانی بزنس کمیونٹی کا بڑا وفد بھی پاکستانی سفارتخانے کی ناقص کارکردگی اور عدم تعاون سے نالاں نظر آیا۔دفتر خارجہ کے تحت ازبکستان میں پاکستانی سفارتخانے کی سرکاری ویب سائٹ پر حالیہ کانفرنس کے موقع پر ایک پریس ریلیز بھی جاری نہیں کی گئی، اسی طرح پاکستانی سفارتخانے کے فیس بک پیج سمیت سوشل میڈیااکاؤنٹس پر بھی پُراسرارخاموشی چھائی رہی۔ ازبکستان کے میڈیا کوسینٹرل ایشیا کے علاقائی ذرائع ابلاغ پر فوقیت حاصل ہے،یہاں مقامی میڈیا کی اکثریت کا تعلق روسی زبان سے ہے۔ مجھے پاکستانی سفارتخانے میں روسی زبان میں عبور رکھنے والے ماہرین کی بھی اشد ضرورت محسوس ہوئی جو پاکستان کا بیانیہ احسن انداز میں اجاگر کرنے کا قومی فریضہ ادا کرسکیں۔ آج کے ڈیجیٹل دور میں ہمارا خطہ تیزی سے بدلتے حالات کا سامنا کررہا ہے، تاشقند میں علاقائی تعاون کانفرنس کا انعقاد ایسے موقع پر کیا گیا جب سپرپاور امریکہ افغانستان پر بیس سالہ قبضہ ختم کرکے فوجی انخلا کررہا ہے اور افغانستان کی بدلتی صورتحال ایک مرتبہ پھر علاقائی استحکام پر اثرانداز ہونے کی اہلیت رکھتی ہے۔اس لئے ہمیں دورِ حاضر کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے اپنے دقیانوسی طرزعمل کو اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)