اسلام آباد (قاسم عباسی) انڈس اسپتال کے شعبہ وبائی امراض کے سربراہ ڈاکٹر نسیم صلاح الدین کا کہنا ہے کہ کتے کے کاٹنے کا نیا طریقہ علاج بہت موثر ہے اور اس میں علاج کا دورانیہ بھی بہت کم ہے، یہ پاکستان جیسے اُن ممالک کیلئے بہترین ہے جہاں وسائل کے ساتھ ویکسین کی قلت ہے اور کتے کے کاٹنے کے واقعات بھی بہت زیادہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 28؍ روزہ علاج کی بجائے نئے طریقہ کار میں صرف دوا کی دو خوراکیں دی جاتی ہیں اور یہ علاج سات روز میں مکمل ہو جاتا ہے۔ انڈس اسپتال کی جانب سے کی جانے والی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ نئے طریقہ کار کے تحت جن 89؍ فیصد مریضوں کا علاج کیا گیا وہ نہ صرف علاج کے بعد بہتر ہو گئے بلکہ باقی 11؍ فیصد میں بھی ریبیز کی وجہ سے موت کا ایک بھی کیس سامنے نہیں آیا۔
ڈاکٹر عامر اکرام نے اس نمائندے کو بتایا کہ اس تحقیق میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ (این آئی ایچ) نے نگرانی کا کام کیا۔ عالمی ادارہ صحت نے بھی کم خوراک والے اس طریقہ کار کو ایسے ممالک کیلئے تجویز کیا ہے جہاں کتے کے کاٹنے کے واقعات زیادہ ہیں۔ سیکریٹری ہیلتھ عامر خواجہ سے جب اس نئے طریقہ کے حوالے سے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ہماری ایکسپرٹ رائے اس معاملے پر متفقہ نہیں ہے۔
ہیلتھ سروس اکیڈمی اس معاملے پر گول میز مباحثے کا انعقاد کر رہی ہے جس میں تمام صوبوں کے ماہرین شرکت کریں گے تاکہ فوائد و نقصانات پر بات کرکے آگے کی حکمت عملی مرتب کی جا سکے۔
انٹرا ڈرمل ویکسین کی کم خوراک کے حوالے سے بات کرتے ہوئے مس نسیم، جو عالمی ادارہ صحت کی ریبیز ٹیم کی رکن اور فری ریبیز پاکستان مہم کی بانی ہیں، کہتی ہیں کہ انہوں نے تحقیق کے دوران دیکھا کہ ایک ہفتے تک دی جانے والی تین خوراکوں پر مبنی علاج کا یہ نیا طریقہ سابقہ طریقے کے مقابلے میں زیادہ موثر ہے اور اس میں خرچ بھی بہت کم ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 2019ء میں محققین نے ریاضی کے ماڈل کے ذریعے یہ معلوم کیا تھا کہ کم خرچ میں زیادہ سے زیادہ مریضوں کا علاج کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ نیا طریقہ بہت موثر ہے، سابقہ طریقے کے مقابلے میں مریضوں کی تعداد میں اضافے کے باوجود سالانہ اخراجات بہت کم ہیں۔ تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ مریض کو 28؍ دن بعد دوبارہ ریبیز پریونشن سینٹر کا دورہ کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی جس سے نہ صرف اخراجات بچ سکیں گے بلکہ وقت بھی بچ جائے گا۔
اس سے نہ صرف اسپتال کے ملازمین کا وقت بھی بچ جائے گا بلکہ دیگر ضروری اشیا جیسا کہ سرنج اور سواب کے اخراجات بھی نہیں ہوں گے۔ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ 2018ء سے کراچی اور پاکستان بھر بشمول بدین (سندھ) اور کوئٹہ (بلوچستان)، ایبٹ آباد، مانسہرہ وغیرہ میں 20 ؍ سے زائد ورکشاپس کا انعقاد کیا گیا ہے اور ماہرین کو تربیت بھی دی گئی ہے۔ ماہرین کی رائے ہے کہ نئی حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے 2030ء تک پاگل کتوں کے کاٹنے سے ہونے والی ہلاکتوں کی شرح صفر تک لانے میں مدد ملے گی۔