کورونا کے منحوس سائے میں شروع ہونے والےٹوکیو اولمپکس گیمز ان دنوں جاری ہیں جس میں پیر تک چین میڈلز کی دوڑ میں آگے تھا، افتتاحی تقریب میں کورونا پابندیوں کی وجہ سے کوئی اچھل کود نظر نہیں آئی، پہلی مرتبہ ان کھیلوں میں حصہ لینے والے دستے کے کھلاڑیوں نے چہرے پر ماسک لگا کر مارچ پاسٹ میں حصہ لیا، کورونا میں اضافے کی وجہ سے پانچ ہزار وی آئی پی مہمانوں کی تعداد میں کمی کر کے اسے عین وقت پر ایک ہزار کردیا گیا، افتتاحی تقریب میںکورونا وبا کا شکار ہونے والوں کے لیے ایک منٹ کی خاموشی بھی اختیار کی گئی۔
فنکاروں نے تقریب میں جاپان کے ماڈرن ڈانس کا خوبصورت مظاہرہ کیا، اولمپکس کی تاریخ فنکاروں نے منفرد انداز میں پیش کی۔اسٹیڈیم کے ٹریک پر ہونے والی افتتاحی تقریب میں رنگا رنگ گرافکس دکھائےگئے ،تقریب میں کورونا کے باعث ایتھلیٹ کو درپیش مشکلات کو بھی اجاگر کیا گیا، جاپان کی ثقافت پیش کی گئی،پچھلے دو اولمپکس گیمز کی میزبانی کے مناظر کی جھلک دکھائی گئی،افتتاحی تقریب میں مارچ پاسٹ کے دوران ہر دستے کے کھلاڑیوں اور آفیشلز کی تعداد بھی محدود رکھی گئی تھی، جبکہ ٹیموں کی میدان میں مارچ پاسٹ کے بعد موجودگی میں بھی سماجی فاصلہ رکھا گیا۔
جاپان کے شہنشاہ ناراہیٹو کے علاوہ چند معززین اور مدعو کیے گئے مہمان اسٹیڈیم کی نشستوں پر موجود تھے، ایونٹ میں مجموعی طور پر 11326 ایتھلیٹ شرکت کر رہے ہیں، جبکہ سب سے بڑا دستہ امریکا کا ہے جو 613 ایتھلیٹ پر مشتمل ہے۔ اسی طرح 13 ممالک ایسے ہیں جن کے صرف 2، 2 ایٹھلیٹس کو ٹوکیو اولمپکس میں شریک ہیں، وائرس کے باعث ایک سال کی تاخیر کے بعد ٹوکیو اولمپکس کا آغاز متعدد پابندیوں کے تحت ہوا ہے۔جو اصل شیڈول سے 364 روز کی تاخیر کے بعد شروع ہوئے ہیں۔
اولمپک اسٹیڈیم بڑے پیمانے پر خالی ہے اور اس کے داخلی دروازوں پر ٹوکیو 2020 کی یادداشت کا اسٹور بھی بندپڑا ہوا نظر آیا، جاپان سمیت دنیا بھر میں شا ئقین کھیل نے ٹی وی اسکرین اور مختلف مقامات پر نصب کی گئی بڑی بڑی اسکرینوں پر افتتاحی تقریب دیکھی۔ ان کھیلوں میں پاکستان کے دس کھلاڑی ایکشن میں ہیں جن میں دو کھلاڑی ماہور شہزاد اور شوٹر گلفام اپنے ابتدائی مقابلوں میں ہی شکست کھا گئے، تاہم ویٹ لفٹر طلحہ طالب کو ان کی محنت اور لگن کا صلہ مل گیا۔
وہ صرف دو کلوگرام کے فرق کی وجہ سے کانسی کے تمغے سے محروم رہ گئے اور طلحہ پانچویں پوزیشن پر آئے۔ وہ ہار کر بھی قوم کے ہیرو بن گئے،طالب نے محدود وسائل میں رہ کر اپنی بساط سے زیادہ محنت اور کوشش کی، طلحہ طالب تین سال سے چیختا ریا ، چلاتا رہا، اس عزم کا اظہار کرتا رہا کہ اسے ٹریننگ کی سہولت دی جائے مگر کسی نے اس پر توجہ نہیں دی، اولمپکس میں اس نے اپنی صلاحیتوں اور مہارت کاثبوت دے دیا کہ اگر اسے سہولت مل جاتی تو وہ اولمپکس میں تاریخ رقم کردیتا، 21 سالہ طلحہ طالب کا تعلق گوجرانوالہ سے ہے۔
طلحہ طالب نے کامن ویلتھ چیمپئن شپ اور انٹرنیشنل سالیڈاریٹی چیمپئن شپ میں پاکستان کے لیے گولڈ میڈلز جیتے جب کہ آسٹریلیا میں ہونے والے کامن ویلتھ گیمز میں بھی شاندار کارکردگی دکھائی۔ اس سال ہونے والی ایشین ویٹ لفٹنگ چیمپئن شپ میں انہوں نے کانسی کا تمغہ جیتا تھا ، ایک اسکول میں دیسی سامان کے ساتھ تر بیت حاصل کرتا رہا مگر پاکستان اسپورٹس بورڈ نے اسے کوئی سہولت فراہم نہیں کی،وزیر اعظم کو خط لکھا مگر کسی نے اسے جواب دینا بھی گورا نہیں کیا، وہ بین الصوبائی رابے کی وزیر سے ملاقات کو خواہش مند رہا مگر اس کی خواہش پوری نہیں کی گئی، پاکستان اولمپکس ایسوسی ایشن کی کوششوں سے اسے اولمپکس میں وائیلڈ کارڈ( انوی ٹیشن کوٹے) پر اولمپکس میں نمائندگی کا اعزاز مل گیا۔
پی ایس بی نے کسی بھی کھیل کے کھلاڑی کے لئے ٹریننگ کا کوئی بند و بست نہیں کیا، بیڈ منٹن میں ماہور شہزاد کو فیڈریشن کے سکریٹری واجد علی چوہدری کے ساتھ جانا پڑا یہ بات خوش آئند تھی کہ واجد خود بھی قومی اور انٹر نیشنل بیڈ منٹن کھلاڑی رہ چکا ہے جس نے گیمز کے دوران اس کی کوچنگ کی ، مگر طلحہ کو تو مقابلوں کے دوران کوچ کی خدمات نہ ہونے پر فلسطینی کوچ سے مدد لینا پڑی،پاکستان میں پی او اے، پی ایس بی اوروزارت کھیل کے درمیان اختلافات ہونے کی وجہ سے کھیل تباہ ہورہے ہیں مگر اسپورٹس مین وزیر اعظم عمران خان کے دور میں بھی کھیلوں کا شعبہ زبوں حالی کا شکار ہے اب بھی اگر اس جانب کوئی توجہ نہیں دی گئی تو پاکستان میں کھیلوں کا اللہ ہی حافظ ہے۔
سب سے زیادہ افسو ناک با ت یہ ہے کہ ملک میں سوائے پاکستان کر کٹ بورڈ کے کسی بھی کھیلوں کی فیڈریشن نے مالی طور پر خود کو مضبوط بنانے پر توجہ نہیں دی ، آج تک کسی بھی فیڈریشن میں مار کیٹنگ اور میڈیا کے شعبے قائم نہ ہوسکے، اگر فیڈریشن اس طرف توجہ دیتی تو انہیں حکومت کی جانب دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی، پاکستان میں اسپانسرز کی کمی نہیں ہے کمی ہے تو فیڈریشن پر ان کے اعتماد کی جسے بہتر بنانے کی ضرورت ہے، اولمپکس میں ہماری واحد امید ہاکی کا میڈل ہوا کرتا تھا مگر ہاکی فیڈریشن نے کئی سال سے ہاکی ٹیم کو اولمپک میں کوالیفائی کرنے کی زحمت سے ہی بچا رکھا ہے، پاکستان اب تک اولمپک میں 10 میں سے آتھ میڈلز ہاکی میں جیتے ہیں۔
ہاکی کے علاوہ 74 سالوں میں پاکستان نے صرف 2 سنگل پلئیر میڈل جیتے ہیں۔ دونوں برانز میڈل ہیں پہلا 1960 روم اولمپک میں محمد بشیر ریسلر نے دوسرا 1986 سیول اولمپک میں لیاری کے باکسر حسین شاہ نے جیتا،1948 میں پاکستان بننے کے صرف ایک سال بعد پاکستان کے35 رکنی دستے نے 20 ایونٹس میں حصہ لیا تھا جو اب دس کھلاڑیوں تک محدود ہوگیا ہے،پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ ملک میں کھیلوں کے شعبے کے لئے کوئی بڑا بجٹ نہیں ہے حکومت کو اس جانب توجہ دینا ہوگی ملک میں اچھے اور معیاری کھلاڑیوںکی کمی نہیں ہے، ان کو اچھی کوچنگ اور بہتر سہولتیں فراہم کی جائیں تو وہ بہت کچھ کر سکتے ہیں، نوجوان ویٹ لفٹر طلحہ طالب نے ٹوکیو اولمپکس میں شاندار پر فار منسک سے ثابت کیا ہے کہ اگر انفرادی گیمز پر خصوصی توجہ دی جائے تو پاکستانی ہر سطح پر میڈلز جیت سکتے ہیں۔
ٹاپ ٹین گیمز کو منتخب کرکے پچاس کرورڑ کا بجٹ رکھیں۔کھلاڑیوں کے ساتھ کوچز کو بھی جدید کوچنگ اور پراپر ٹریننگ ماحول مہیا کریں اس سے ہی اچھے نتائج ملیں گے، ہمیں ابھی سے 2024کے پیرس اولمپکس گیمز کی تیاری شروع کرنا ہوگی،پاکستان میں ایک نہیں کئی طلحہ طالب جیسے نایاب ہیرے موجود ہیں مگر ان کو تلاش کرنے والی آنکھیں موجود نہیں ہیں،کھیلوں کے ادارے ایک پیج پر آجائیں تو بہت کچھ بدل سکتا ہے۔
موجودہ حکومت تین سال کھیلوں کی متوازی فیڈریشنوں کا خاتمہ نہ کرسکی اس کا بہترین فار مولا یہ ہے کہ جس فیڈریشن کو اس کی عالمی تنظیم تسلیم کرتی ہو اسے ہی پاکستان میں کام کا موقع ملنا چاہئے مگر اس قسم کے اقدامات کون کرے گا، حقیقت یہ ہے کہ وزارت کھیل کے حکام کو تو بیور کریسی جس انداز میں بے وقوف اور ماموں بناکر اپنا الو سیدھا کرتی ہے اس کے سامنے اعلی افسران بے بس نظر آتے ہیں۔
اولمپکس میں ۔طلحہ کی کارکردگی عوام کے ذہنوں میں یہ سوال ضرور چھوڑ گئی کہ اولمپکس سے قبل پاکستان اسپورٹس بورڈ نے 44 کروڑ روپے ایتھلیٹس پر خرچ کرنے کی بجائے حکومت کو واپس کیوں کردیئے۔اگر یہ رقم کھلاڑیوں پر استعمال کی جاتی تو یقینی طور اس سے بہتر نتائج سامنے آتے۔