عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کا وفد پاکستانی حکام کے ساتھ 5/ارب 30کروڑ کے نئے بیل آؤٹ پیکیج کے معاہدے پر رضامند ہوگیا ہے۔ پروگرام کا دورانیہ3سال ہے اور پاکستان کو (ای ای ایف )کی مد میں وسائل فراہم کئے جائیں گے ۔آئی ایم ایف کی انتظامیہ معاہدے پر نظرثانی کرے گی اور اس کی جانب سے منظوری کے بعد اسے ستمبر کے پہلے ہفتے میں آئی ایم ایف کے بورڈ کے سامنے پیش کیا جائے گا جو پاکستانی حکام کی جانب سے مقررہ مدت میں ترجیحی کارروائیوں سے مشروط ہو گا۔ پاکستان کیلئے آئی ایم ایف کا نیا پروگرام سازگار ہے جن کی وجوہات مندرجہ ذیل ہیں۔اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے سے پاکستان کی معیشت کو درپیش غیر یقینی کی صورتحال کا خاتمہ ہوگا ۔ خود اعتمادی کے فقدان سے چھٹکارا ملے گا اور نتیجتاً مرکزی سطح پر بیرونی آمد زر میں اضافہ ہوگا اور بیرونی زذرمبادلہ کے ذخائر کو مزید گرنے اور شرح مبادلہ پر مزید دباؤ کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔ مزید یہ معاہدہ پاکستان کو بیرونی قرضوں کے معاملے میں نادہندہ ہونے سے بچائے گا اور اس کے نتیجے میں غریب اور درمیانے طبقے کے لوگوں کو مزید پریشانیوں میں گھرنے سے بچایا جا سکے گا۔ میں پاکستانی حکام کو ستمبر2011ء سے یہ مشورہ دے رہا ہوں کہ وہ آئی ایم ایف کا تعاون حاصل کریں کیوں کہ نوشتہ دیوار بالکل عیاں تھا تاہم سابقہ دور حکومت معاشی خودکشی کر رہی تھی اور آئی ایم ایف کا تعاون حاصل کرنے کے حق میں نہیں تھی۔ میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور ان کی ٹیم کو بالآخر آئی ایم ایف کیساتھ نئے معاہدے پر ان کی کاوشوں کو سراہتا ہوں۔ پروگرام کے اہم نکات یہ ہیں 1) ٹیکس کی بنیادوں کو مزید وسعت دینا اور ایس آر اوز کا خاتمہ۔ 2) ٹیکس انتظامیہ کو مضبوط بنانا، 3) زرمبادلہ کی لامرکزیت کو ختم کرنا، 4) توانائی کے شعبے کی بحالی جس میں سرکلر ڈیٹ پر توجہ مرکوز رکھنا، بجلی کی چوری کو روکنا، بجلی کے بلوں کی وصولی اور بجلی کے شعبے میں سرمایہ کاری شامل ہے۔ ان کے علاوہ پروگرام کے دیگر عوامل میں حکومتی اداروں کی بحالی اور اس کی نجکاری جن میں بجلی کی ترسیل کی کمپنیاں بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ مہنگائی کو قابو کرنے اور سرمائے کی روانگی زر سے بچنے کیلئے سخت مانیٹری پالیسی بھی شامل ہیں۔مالی سال 2013-14ء میں بجٹ خسارے کو جی ڈی پی کے6.3فیصد سے کم کر کے 6فیصد کیا جاچکا ہے۔ پروگرام کے اختتام پر اسے جی ڈی پی کا 3سے4فیصد تک مزید کم کر دیا جائے گا۔ سرمایہ کاری کیلئے سازگار ماحول بناتے ہوئے قیمتوں کے تصفیے سے سماجی تحفظ کے دائرے کو وسیع کر کے معاشرے کے غریب طبقات کو بچانا پروگرام کی اہم جزویات میں شامل ہیں۔مختصراً وسائل کو بروئے کار لا کر ٹیکس کی بنیاد میں اضافہ کیا جائے، مالی لامرکزیت کے مسائل کا سدباب کیا جائے، توانائی کے شعبے میں اصلاحات، سرمایہ کاری کی فضا کو سازگار بنانا اور حکومتی قرضوں کے بوجھ میں کمی کرنا پروگرام کے چند اہم مقاصد ہیں۔ دیگر اہم مقاصد میں اقتصادی شعبے کو مستحکم کرنا، کارپوریٹ گورننس کو مضبوط بنانا، زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کرکے شرح مبادلہ کو استحکام دینا اور سماجی تحفظ کے پروگراموں کی حمایت کرنا شامل ہے۔ اگر ان اصلاحات پر کامیابی سے عملدرآمد ہوا تو پاکستان اگلے پانچ سالوں میں 7 سے8 فیصد کی سالانہ شرح سے ترقی کرے گا جس میں معیشت کلاں میں بھی قدرے استحکام آئے گا لیکن اس کے عملدرآمد اور پروگرام کے کارکردگی اہداف کی راہ میں سنگین چیلنجز حائل ہیں۔ این ایف سی ایوارڈ کے نتیجے میں پروگرام کی کامیابی کا انحصار صوبوں پر ہے۔ صوبے چونکہ 60سے65 فیصد وسائل وفاقی بورڈ آف ریوینیو سے وصول کرتے ہیں اس لئے مالی انضباط کو برقرار رکھنے اور بجٹ خسارے میں کمی کرنے کے اقدامات کی ذمہ داری ان پر ہے۔ یہی سب کچھ میں2010ء میں این ایف سی ایوارڈ کو حتمی شکل دینے کے وقت سے کہ رہا ہوں لیکن ملک کے اقتصادی انتظام کاروں نے توجہ نہیں دی اور اسی طرح مالی بے ضابطگی کو اپنے تمام تر منفی نتائج کے ساتھ ہونے دیا گیا۔ آئی ایم ایف اور پاکستانی حکام نے پروگرام کی کامیابی کا احساس کرتے ہوئے ابتدائی اقدام کے طور پر مسئلے کے حل پر اتفاق کیا۔ دوسرے لفظوں میں صوبوں کی جانب سے زائد اہداف مقرر کرنے ہوں گے اور انہیں ستمبر 2013ء کے اوائل تک مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) سے منظور کرانا ہوگا۔ میرے مطابق صوبوں کو سی سی آئی سے منظوری کا لازمی پابند بنانا وزیر خزانہ کیلئے سب سے زیادہ چیلنجنگ کام ہوگا۔ مجھے امید ہے کہ صوبے معیشت کے وسیع تر مفاد میں اس لازمی پابندی پر اتفاق کرلیں گے۔ اس پر اتفاق نہ کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ دیگر ابتدائی اقدامات میں ڈسکاوٴنٹ ریٹ میں100سے150بی پی ایس تک اضافہ کرکے زری پالیسی کو سخت کرنا اور گشتی قرضے کو دوبارہ ابھرنے سے بچانے کیلئے بجلی کے نرخوں میں اضافہ شامل ہو سکتا ہے۔ پروگرام کی کامیابی کا انحصار ایف بی آر کے ٹیکس کے ہدف کو وصول کرنے کی اہلیت پر بھی منحصر ہے جو کہ آئی ایم ایف پروگرام میں اور بھی چیلنجنگ ہے۔ یہ سب کو پتہ ہے کہ ایف بی آر بری حالت میں ہے۔ مختلف ٹیکس گروہوں کی اندرون خانہ لڑائی غیر معمولی سطح تک پہنچ چکی ہے۔ گزشتہ برسوں میں سینئر اسٹاف اراکین سمیت اسٹاف کا معیار ابتری کا شکار ہوا ہے۔ معاشی ماہرین ایف بی آر کے ٹیکس کے اہداف وصول کرنے کی اہلیت پر سنجیدہ طور پر شاکی ہیں۔ اگر مناسب طریقہ اختیار نہیں کیا گیا تو اخراجاتی بدنظمی پیدا کرکے توانائی کا شعبہ پروگرام کو پٹڑی سے اتارنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ 2013-14ء کے بجٹ میں تقسیم کار کمپنیوں کے درمیان نرخوں کے فرق کے ضمن میں 150/ارب روپے مختص کئے گئے ہیں جس کی خلاف ورزی کا قوی امکان ہے لہٰذا مالی خسارے کے ہدف کے ضمن میں بدنظمی پیدا ہوگی۔ غیر ٹیکس آمدنی میں مالی بدنظمی کی شرح بلند بھی ہے۔ تھری جی لائسنس کی فروخت سے حکومت کو حاصل ہونے والی آمدنی کا ہدف 120/ارب روپے ہے۔ یہ آمدنی دو سالوں میں ملنے کا امکان نہیں ہے۔ اولاً، موجودہ ٹیلی کام آپریٹرز اس سرمایہ کاری کو 2013-14ء کے بجٹ میں موبائل فون صارفین پر عائد ہونے والے ٹیکس کے بوجھ اور مزید سخت ہوتی ریگولیٹری شرائط کے تناظر میں مناسب نہیں سمجھتے ہیں۔ میں وزیر خزانہ پر زور دوں گا کہ وہ ان معاملات پر موجودہ ٹیلی کام کمپنیوں کے سی ای اوز سے تبادلہ خیال کریں خاص طور پرایک موبائل سروس فراہم کرنے والی کمپنی کے ادارے کے سی ای او کے اس نقصان دہ انٹرویو کے بعد جو دی نیوز اور انگلش کے دیگر روزناموں میں شائع ہوا تھا۔ دوم، ٹیلی کام کے ٹیکس میں اضافے سے ان کی آمدنی میں کمی ہوئی اور اس لئے تھری جی لائسنس کی خریداری اب منافع بخش سودا نہیں رہا ہے۔ پروگرام کی پیشرفت اور نگرانی کیلئے میں وزیر خزانہ کو تجویز دوں گا کہ وہ وزارت خزانہ میں متعلقہ وزارتوں سے مربوطی اور پروگرام کی پیشرفت کی نگرانی کیلئے ایک سینئر سطح کا افسر مقرر کریں۔آخر میں بھی تجویز دوں گا کہ ٹیکس وصولی اور ٹیکس پالیسی کو علیحدہ کردیا جائے۔ فی الوقت ایف بی آر دونوں ذمہ داریاں ادا کررہا ہے اور اس کی ابتر صورتحال کو دیکھتے ہوئے،کوئی بھی کام مطمئن طریقے سے پورا ہوتا ہوا ممکن نظر نہیں آرہا۔ حکومت ٹیکس پالیسی کی دیکھ بھال کیلئے سیکریٹری سطح کا افسر تعینات کرنے پر غور کرسکتی ہے۔ یہ ڈویژن تھنک ٹینک کے طور پر، ٹیکس کی بنیاد وسیع کرنے اور اس کے معاشی نتائج کا تجزیہ کرنے،آمدنی اور ٹیکس کی پیش گوئی کا ماڈل تیار کرنے اور نیشل فنانس کمیشن کے تھنک ٹینک کے طور پر کام کرے گا۔ اسٹاف کی سطح پر معاہدہ طے پانا آئی ایم ایف پروگرام کی جانب ایک قدم ہے۔ ابتدائی اقدامات کرنا دوسرا قدم ہے۔ پروگرام کے اہداف کامیابی سے حاصل کرنا اور ان پر عملدرآمد کرانا فیصلہ کن طور پر صوبوں، ایف بی آر اور سب سے زیادہ اہم بالعموم ملک میں اور خاص طور پر کراچی میں امن و امان کی صورتحال پر منحصر ہے۔