عارف نظامی صاحب کی آنکھیں کیا بندہوئیں، میری دنیا بھی اندھیر ہو گئی۔ جانتا تھا کہ وہ کافی عرصے سے علیل ہیں اور ان کی بیماری خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے ،لیکن کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ایک دن وہ ہم میں نہیں ہوں گے۔ اس دنیا کو یوں داغ مفارقت دے جائیں گے، اپنے کزن بابر تجمل کی وفات کے بعد یہ بدترین صدمہ ہے جسے میں شاید ہی کبھی بھلا پائوں ۔
زندگی کے یہ آخری چند سال مجھےبہت پریشان کر رہے ہیں ،میرے عزیزواقارب ایک ایک کرکے اس دنیا سے روٹھتے جارہے ہیںاور میں حیران ہورہا ہوں کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے ؟آخر کار مجھے سمجھ آئی کہ میری عمر کے لوگوں کی موت کا وقت قریب ہے ۔ ہم دراصل موت کے زون میں داخل ہوچکے ہیں مگر خیال کرتے ہیں کہ شاید ہم لافانی ہیں اور ہمیں یہاں ہمیشہ رہنا ہے ۔ بھول جاتے ہیں کہ ہر ذی روح کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے ۔ خالق ِ دوجہاں کے سوا ہر چیز کو فنا ہے۔
عارف صاحب منفرد شخصیت کے مالک تھے ۔ان کی زندگی میں بہت سے اتار چڑھاؤ آئے تھے ۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ وہ منجدھار میں سے تیرکر ابھرے تھے ۔وہ مشہور شخصیت حمید نظامی کے بیٹے تھے جو نوائے وقت گروپ کے بانی تھے اور بہت جلد خالق ِحقیقی سے جاملے ۔ درحقیقت وہ اپنی زندگی کی چالیس یا کچھ زیادہ بہاریں ہی دیکھ پائے تھے ۔ اس وقت عارف نظامی اور ان کے بھائی لڑکپن میں داخل ہو رہے تھے۔ اس دور میں اخبار مشکلات سے دوچار ہوگیا۔ حمیدنظامی کے بھائی مجید نظامی نے ان کے مقابل ایک اخبار ندائے ملت نکال لیا اور پھر مجید نظامی نے نوائے وقت کا بھی انتظام سنبھال لیا۔
مجیدنظامی ایک انگریزی اخبار بھی شائع کرنا چاہتے تھے ۔انہوں نے اس کی ذمہ داری عارف نظامی کو سونپ دی ۔ انہوں نے دی نیشن نامی اخبار شروع کیا جس کے وہ بانی مدیر اور مجید نظامی مدیر اعلیٰ تھے ۔ یہ اخبار بہت کامیاب ہوا ۔مجید نظامی نے مرنے سے پہلے نوائے وقت کی ملکیت اپنی بیٹی کو منتقل کر دی تھی لیکن عارف صاحب نے بددل ہونا سیکھا ہی نہیں تھا ۔انہوں نے کچھ دوستوں کی مددسے پاکستان ٹوڈے شروع کیا جو پاکستان کا سب سے زیادہ پڑھا جانے والا اخبار بن گیا۔اس دور میں پرنٹ میڈیازوال کا شکار ہو رہا تھا اور الیکٹرانک میڈیا صحافت کا مرکزی ستون بن گیا ۔ چند ایک رائے ساز کالموں کے علاوہ عارف صاحب کے پاس چھاپنے کے لئے بہت کم نیا مواد تھا۔ اس کے باوجود انہوں نے بہت محنت کی اورپاکستان ٹو ڈے کے زیرانتظام چھپنے والا ’’پرافٹ ‘‘ایک پر کشش رسالہ بن گیا، اور اب بھی ہے۔ یہ عارف صاحب کی ایک اہم خوبی تھی کہ وہ صحافت کی نبض کو دوسروں سے بہت بہتر سمجھتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ صحافتی میدان میں کس چیز کا خلا ہے، وہ اس خلا کو پر کرنے کی کوشش کرتے جس کی وجہ سے کامیاب رہتے۔
عارف نظامی ان تمام خوبیوں کا مجسمہ تھے جو صحافت کے لیے ضروری ہیں۔ مضبوط اور کھرے اصولوں کے آدمی تھے جن پر کبھی سمجھوتہ نہ کیا ۔ان کا تجزیہ گہرا اور حقائق پر مبنی ہوتا تھا۔ ان کی تقریر و تحریر میں ٹھہراؤ اور اعتماد جھلکتا تھا اور اسی لیے وہ ملک کے قابل قدر اور معززصحافیوں میں شمار کیے جاتے تھے۔ وہ پوری ایمانداری کے ساتھ سیدھی اور سچی بات کرتے تھے ۔
ٹی وی پر بھی سچ کی آواز سمجھے جاتے تھے ۔ عوام ان کی رائے اور تجزیوں کو بہت اہمیت دیتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ان کا مقصد حقائق کو سامنے لانا ہے۔ وہ حالیہ صحافت کے مزاج میں کبھی نہیں ڈھلے جس کا انحصار جھکاؤ ، ہنگامہ پروری اور ہیجان خیز ی سے پر ہے۔ وہ پرسکون ، متحمل اور سب سے بڑھ کر حقیقت پر مبنی گفتگو کیا کرتے تھے۔
عارف نظامی ایک نگران حکومت میں تین ماہ کے لئے وزیر اطلاعات بھی رہے۔ اپنی زندگی کے آخری دنوں میں وہ اپنی نئی اشاعت پاکستان ٹوڈے پر اپنی اولاد کی طرح ساری توجہ مرکوز کئے ہوئے تھے، لیکن انہیں اتنا وقت نہ مل سکا کہ وہ اس کے انتظامی ڈھانچہ کی تعمیر کرتے ۔ صحافت میں ان جیسا ابھی کوئی نہیں اور ہمیں ان کا متبادل تلاش کرنے کی بہت ضرورت پیش آئے گی۔ امید ہے کہ ان کے بیٹے یوسف نظامی اس مشعل کو اٹھائیں گے اور اسے لے کر آگے چلیں گے۔ ہماری دعائیں ان کے ساتھ ہوں گی۔
عارف صاحب ! دعا ہے آپ کو جنت الفر دوس میں جگہ نصیب ہو، امید ہے آپ سے جلد ملاقات ہو گی۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)