انجینئر ناظم ایف حا جی
حکمرانی کسی قسم کے طرز عمل کو کہتے ہیں؟ عام فہم زبان میں اسے حسن انتظام سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اپنے ہنر میں طاق بے شمار ماہرین ان امور کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ گرچہ ان کی رائے انتظامی امور سے متعلق ہوتی ہے۔ زیر نظر مضمون میں اچھی طرز حکمرانی، عوام کو درپیش مسائل حل کرنے کے حوالے سے ہے۔ ان مسائل میں بیروزگاری اور دیگر ضروریات زندگی جن میں سر چھپانے کی جگہ کا فقدان، تعلیم، صحت عامہ اور عوامی آمد و رفت کے ذرائع کی عدم دستیابی شامل ہیں۔ عوام خصوصاً نوجوانوں کے ان عام فہم مسائل کو مزید تشریح کی ضرورت نہیں۔
اگر ہم اچھی طرز حکمرانی کے گھمبیر مسائل کو چھوڑ کر حکومتی معاملات میں حسن انتظام پر توجہ مرکوز رکھیں تو ہماری سوچ چند بنیادی امور کو گرفت کرلے گی۔ اس میں صلاحیت کی پذیرائی، کارکردگی کی مناسبت سے اجرت، اختیارات کے استعمال میں احساس ذمہ داری اور عمل کا بے لاگ احتساب شامل ہیں، مگر صرف اتنا ہی کافی نہیں بہتر ہوگا کہ حکومت پاکستان کے تینوں انتظامی مدارج، وفاقی، صوبائی اور مقامی کے بندوبست کا ڈھانچہ کارپوریٹ پاکستان کی طرز پر استوار کیا جائے۔
مسائل کا حل زیادہ صوبے بنانے میں مضمر ہے، مگر یہ بات واضح ہے کہ مزید صوبوں کی تشکیل سیاسی عمل کا حصہ ہے اور اسے اوپر سے نافذ نہیں کیا جا سکتا۔ شروعات میں یہ مسئلہ پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر زیر غور لایا جائے۔ وفاقی حکومت ابتدا کرتے ہوئے اس مسئلے کو نیشنل اسمبلی، سینٹ، قومی اسمبلیوں اور کونسل آف کامن انٹرسٹ(CCI) کے سامنے رکھے۔ رائے عامہ کا ادراک حاصل کرنے کیلئے ماہرین ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا میں دستیاب زوم (ZOOM) کی مدد سے گفت و شنید کا سلسلہ شروع کریں۔ جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبہ بنانے کے سلسلے میں قانون سازی اور انتظامی معاملات پر بحث تو شروع ہو چکی ہے، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عمل درآمد میں دیر کیوں؟ فوری کارروائی اس لئے مناسب ہوگی کہ بہت سے نادیدہ مسائل سامنے آجائیں گے۔
اگر نیا صوبہ پوری طرح خود مختار نابھی ہو، تب بھی اس عمل سے گزرنے کے دوران بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔ اختیارات کو مرکز کے چنگل سے نجات دلا کر قوت فیصلہ کو نچلی سطح پر منتقل کرنا، سیاسی عمل کا حصہ ہے۔ اس کی تکمیل اس قدرتی طریق سے ہونی چاہئے کہ عوام کی سماجی اور اقتصادی بھلائی ایک مقصد واحد کی طرح آنکھوں کے سامنے رہے۔ حکمرانی کے مختلف مدارج میں مقامی حکومت اس لئے اہم ہے کہ عوام کے مسائل کا حل اسی سطح پر ہوتا ہے۔
عوام الناس کی زندگی پر اثرانداز ہونے والے مفاد عامہ کے منصوبے یہیں سے شروع ہوتے ہیں۔ یہاں پر حکومتی ڈھانچہ، میٹرو پولیٹن، شہری اور قصباتی، تین مختلف صورتوں میں منقسم ہوتا ہے اور اس سے بھی زیریں سطح پر مختلف کونسلیں وجود میں آتی ہیں، اسی تناظر میں ہم تینوں مدارج کی اہمیت کا اندازہ اور تجزیہ کراچی شہر کے حوالے سے کرتے ہیں۔
سندھ صوبے کے سب سے بڑے شہر کراچی کی آبادی 2017ء میں مردم شماری کے مطابق ایک کروڑ ساٹھ لاکھ سے اوپر ہے۔ اتنی آبادی، دنیا کے ایک سو اٹھائیس ممالک میں بھی نہیں جہاں مقتدر وفاقی حکومتیں قائم ہیں۔ ایسے میں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ کراچی کی حالت کیوں اتنی ناگفتہ بہ ہے۔ ایک شہر جس میں ہر طرف غلاظت کا بہائو، کم لاگت والی رہائشی آبادیوں کا فقدان، تعلیم، صحت اور پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی کے باوجود اپنی پامردی اور ہمت کے سہارے قائم و دائم ہے۔ ہم کئی دہائیوں تک پھیلی رہنے والی سیاسی مار دھاڑ کو کس طرح فراموش کر سکتے ہیں، مگر کراچی کی ہمت ہے کہ وہ بار بار ڈوب کر ابھرتا ہے۔
پاکستان کا تجارتی، مالیاتی اور صنعتی مرکز، وفاقی سطح کی پچاس فیصد اور صوبائی سطح کی نوے فیصد مالیاتی وصولیابیاں، یہی شہر فراہم کرتا ہے، اسی حوالے سے اس شہر کوایک بااختیار میٹرو پولیٹن گورنمنٹ کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستان کوئی غریب ملک نہیں، صرف اس میں حسن اقدام کا فقدان ہے۔ اچھی حکمرانی صرف ایک سیاسی نعرہ نہیں تمام سیاسی جماعتیں (اپنے منشور کے حوالے سے) اس بات کا اعادہ کرتی ہیں کہ اختیارات کی مرکزیت ختم کرتے ہوئے قوت فیصلہ کو حکومت کے مختلف انتظامی اور سیاسی مدارج میں منقسم ہونا چاہئے۔
اب اس وعدے پر عمل ہونا چاہئے، اگر ایسا نہیں ہوتا تو ہمارے سماج میں پھیلی ہوئی مختلف تنظیمیں، ماہرین کی جماعتیں، صنعت و تجارت اور میڈیا سے منسلک عوام، سرکاری سطح پر رجسٹر ہونے والی یونینز اور منافع کے بغیر عوامی مفاد میں متحرک گروہ، شہریوں کے مفاد میں ایک دستاویز تیار کریں اور پھر اس کا پیغام ایک منظم اور مہذب انداز میں لوگوں کو ذہن نشین کروائیں۔ مناسب ہوگا کہ ہمارے وہ نوجوان جن کی عمر پچیس اور پینتالیس سال کے درمیان ہے، ان کے کاندھوں پرملک کے مستقبل کا بار، اچھا ہو یا براعائد ہے۔ پاکستان کی نئی نسل کو خلوص نیت سے سمجھنا ہوگا کہ کون سا عمل اس کے مستقبل کو بہتر بنائے گا۔ یہی طریقہ ہے کہ ملک اور آئندہ آنے والی نسلوں کو مزید فریب کاریوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔