24جولائی 1950ء کو لاہور میں جنم لینے والے شاہد حمید ایک متمول گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ فلم میں آنا ان کی معاشی ضرورت نہیں، بلکہ شوبزنس کی رنگینوں کا حصہ بننا شوق اور خواہش تھی۔
عباس نوشہ کی پروڈکشن ’’ایک رات‘‘ آغاز کے اعتبار سے ان کی پہلی فلم تھی، لیکن ’’ایک رات‘‘ کو مکمل ہونے میں زیادہ وقت لگا، لہٰذا اس کے آغاز کے بعد شروع ہونے والی فلموں میں سے ایس اے بخاری کی ’’آنسو‘‘ سب سے پہلے یعنی 30جولائی 1971ء کو منظر عام پر آگئی،اس طرح ان کو فلم انڈسٹری میں کام کرتے ہوئے پچاس برس ہوگئے۔ ’’آنسو‘‘میں وہ سپورٹنگ آرٹسٹ کے طور پر سامنے آئے تھے، لیکن کردار کہانی میں خاص اہمیت کا حامل تھا۔ نیچر کے لحاظ سے یہ ایک منفی کردار تھا۔ ایک جبری گناہ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ناجائز بیٹے کا کردار جسے شاہد نے بہت عمدگی سے نبھایا۔
’’آنسو‘‘ نے باکس آفس پر عمدہ بزنس کرتے ہوئے گولڈن جوبلی کا اعزاز حاصل کیا۔ رحمت علی کی ’’سوہنا پتر‘‘ ان کی پہلی پنجابی فلم تھی، جس میں وہ دیبا کے ہیرو بنے۔ ریاض شاہد کی جرات مندانہ تخلیق ’’یہ امن‘‘ میں انہوں نے بہ طور گیسٹ آرٹسٹ اپیئرنس دی، حسن طارق کی یادگار معاشرتی فلم ’’تہذیب‘‘ دراصل شاہد حمید کا پہلا بہترین اور متاثر کُن حوالہ ثابت ہوئی۔ وہ اس فلم میں سولو ہیرو تھے اور کردار بھی خاصا جاندار تھا۔
یہ ایک مغرب زدہ نوجوان کی کہانی تھی کہ جو اپنی سادہ لوح بیوی کو گھر سے نکال کر کلبوں کی زینت بنادیتا ہے اور پھر بھیانک نتائج کا سامنا کرتے ہوئے قتل جیسا گھنائونا جرم کرکے نیم پاگل پن کی کیفیت میں جیل چلا جاتا ہے۔ ’’تہذیب‘‘ باکس آفس پر سپرہٹ گولڈن ثابت ہوئی اور شاہد کی ہیروشپ کے لیے راہیں کھول گئیں۔ 1972ء میں دلجیت مرزا کی ’’ٹھاہ‘‘ جس میں وہ سیکنڈ ہیرو تھے اور حسن طارق کی ’’امرائو جان ادا‘‘ کراچی سرکٹ میں بہ یک وقت ریلیز ہوکر بالترتیب ہٹ اور سپر ڈوپر ہٹ ثابت ہوئیں، جس کے نتیجے میں شاہد پر فلم میکر اور ڈسٹری بیوٹرز کا اعتماد مزید پختہ ہوگیا۔
’’امرائو جان ادا‘‘ میں وہ نواب زادہ کے روپ میں خوب جچے۔ یہ ان کی پہلی پلاٹینیم جوبلی فلم قرار پائی۔ یُوں انہوں نے حسن طارق کیمپ اپنی ہیرو شپ کے لیے مستقل مقام بنایا۔ 1973ء میں پرویز ملک کی یادگار فلم ’’انمول‘‘ میں وہ ایک کم فہم، ناپختہ اور بچکانہ ذہنیت کے حامل نوجوان کے کردار میں عمدہ اور معیاری کارکردگی کے ساتھ سامنے آئے۔ ’’انمول‘‘ باکس آفس پر شاہد کے کریڈٹ پر ڈائمنڈ جوبلی کا پہلا سنگ میل ثابت ہوئی،اس فلم میں شبنم کی پرفارمنس کو بھی بے حد پسند کیا گیا، لیکن اتنی عظیم الشان کام یابی کے باوجود ’’شاہد حمید‘‘ دوبارہ پھر کبھی پرویز ملک کی کسی فلم کا حصہ نہ بن سکے۔ اس کے پیچھے وجوہات کیا تھیں، یہ کوئی نہ جان سکا۔
’’انمول‘‘ کی ریلیز سے قبل کے خورشید کی ’’گھرانہ‘‘ بھی ان کی گولڈن جوبلی ہٹ فلم تھی، لیکن وہ صرف اور صرف محمد علی کی فلم کہلائی۔ نامور ہدایت کارحسن طارق کی ’’پیاسا‘‘ اور ’’دیدار‘‘ میں شاہد کو جاندار کردار ملے۔ معروف ہدایت کار اقبال کشمیری کی ’’جادو‘‘ کراچی سرکٹ میں شاہد کی پہلی گولڈن جوبلی پنجابی فلم ثابت ہوئی۔ 1974ء کی ریلیز ہدایت کار اقبال اختر کی سپرہٹ کامیڈی مووی ’’پردہ نہ اٹھائو‘‘ ہر چند کہ پرفارمنس کے اعتبار سے رنگیلا کی فلم تھی، لیکن اس کے فرسٹ ہیرو چوں کہ شاہد تھے، لہٰذا فلم کی باکس پر گولڈن جوبلی کا فائدہ انہیں بھی ملا۔ ایس اے حافظ کی ایکشن مووی ’’شِکار‘‘ میں شاہد کا کردار بہت جداگانہ تھا، جس میں ان کی پرفارمنس بھی بہت عمدہ تھی۔
’’شکار‘‘ ہٹ ضرور ہوئی، لیکن گولڈن جوبلی سے کچھ دور رہی۔ 1975ء میں ان کی تین فلمیں بن بادل برسات، جسے زینت بیگم نے ڈاریکٹ کیا تھا۔ ’’تیرے میرے سپنے‘‘ جس کے ڈائریکٹر اقبال رضوی تھے اور تیسری فلم زینت تھی، جو ایس سلیمان کی زیر ہدایت بنی تھی۔ لیکن ان میں کوئی فلم ایسی نہ تھی کہ جس میں شاہد کی کردار نگاری اہمیت کی حامل رہی ہو۔ تاہم یہ تینوں فلمیں باکس آفس پر سپرہٹ کام یابی سے ہمکنار ہوئیں۔ 1976ء کی ریلیز ہدایت کار نذر شباب کی ’’شبانہ‘‘ میں وہ ایک بار پھر بھرپور منفی نوعیت کے کردار میں سامنے آئے۔ یہ ایک عیاش طبع امیر زادے کا کردار تھا۔ شبانہ نے باکس آفس پر دُھوم مچادی اور شان دار ڈائمنڈ جوبلی سے ہمکنار ہوئی۔ اس فلم سے انہیں پہلی اور آخری بار بہترین اداکار کا نگار ایوارڈ ملا۔
1977ء ان کی فنی زندگی میں خاص اہمیت کا حامل تھا کہ اس برس ان کی اداکاری سے آراستہ چار فلموں نے گولڈن جوبلی اور ایک فلم نے ڈائمنڈ جوبلی کا اعزاز اپنے نام کیا۔ گولڈن جوبلی فلموں میں ظفر شباب کی ’’بھروسہ‘‘ میں وہ مہمان تھے۔، حسن طارق کی ’’کالو‘‘ میں سیکنڈ ہیرو تھے۔ جب کہ شباب کیرانوی کی ’’شمع محبت‘‘ اور نذر شباب کی ’’سسرال‘‘ میں وہ فرسٹ ہیرو تھے۔ شمع محبت میں ان کی کردار نگاری معیاری تھی، لیکن ’’سسرال‘‘ میں وہ مکمل طور پر اوور ایکٹنگ کا شکار نظر آئے۔ ’’اف یہ بیویاں‘‘ ان کی کردار نگاری کے حوالے سے قابل تعریف تھی، لیکن جاندار میوزک، ایس سلیمان کا دل چسپ ٹریٹمنٹ اور نجمہ اور شبنم کی بہترین کردار نگاری کے سبب فلم نے بلاک بسٹر کام یابی حاصل کی اور ڈائمنڈ جوبلی منائی۔
شاہد کی کامیابیوں کا آخری سال 1979ء تھا کہ جب ان کی عمدہ کردار نگاری کی حامل فلموں خوشبو اور نیا انداز نے گولڈن جوبلی منائی۔ فلم ’’جوش‘‘ اور ’’کس نام سے پکاروں‘‘ گولڈن جوبلی سے کچھ دور رہیں، لیکن ان کی کردار نگاری کے اعتبار سے یہ قابل ذکر ضرور ہیں۔ اسی طرح ہدایت کار جان محمد کی ’’بہت خوب‘‘ 1978ء میں ریلیز ہوئی، جو شاہد کی فنی زندگی ایک ناقابل فراموش فلم تھی، جس میں وہ متنوع نوعیت کے متعدد کرداروں میں اپنی بہترین پرفارمنس کے ساتھ نظر آئے، جن میں ایک پولیس مین کا رول تھا، تو دوسرا ہیجڑے کا۔ تیسرا ایک بدمعاش کا کردار تھا۔
ان کرداروں میں واقعی شاہد نے کمال فن کے بہترین مظاہرے پیش کیے، لیکن افسوس کہ ان کی فنی زندگی کی یہ سب سےاعلیٰ اور بے داغ کردار نگاری کی حامل فلم باکس آفس پر رنگ نہ جماسکی۔ اور محض 30 ہفتے چل کر اتر گئی۔ 1980ء شاہد کے لیے بھیانک ناکامیوں کا سال تھا۔ اس سال ان کی 10 فلمیں منظر عام پر آئیں جن میں بیگم جان، آپ کی خاطر، فرزانہ، چھوٹے نواب، ہائے یہ شوہر، آزمائش، من موجی اور شیخ چلی مکمل طور پر ناکام رہیں۔ جب کہ ساتھی اور بدلتے موسم وہ فلمیں تھیں ، جو بشمکل ایوریج بزنس کرسکیں۔ یعنی 10 فلموں سے کسی ایک کا بھی ہٹ نہ ہونا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ فن کار عوام میں اپنی دل کشی کھو چکا ہے۔ پھر باقی ماندہ برسوں میں بھی ایسی کوئی فلم سامنے نہ آسکی کہ جسے یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ شاید کہ کارکردگی کی بدولت کام یاب ہوئی ہے۔
یُوں شاہد جس تیزی سے سلور اسکرین پر چھائے اسی تیزی سے اوجھل ہوگئے۔ محض 10 برسوں میں ان کی ہیروشپ تمام ہوگئی۔ حسن عسکری نے فلم ’’جذبہ‘‘ میں انہیں نہایت پاور فلم رول میں پیش کیا۔ سید نور نے محاظ اور ’’زیور‘‘ میں ان کے لیے جاندار کردار لکھے۔ لیکن شاہد فلم بینوں کی ازسرنو توجہ حاصل نہ کرسکے۔ گزشتہ چند برسوں میں جاوید شیخ کی ’’وجود‘‘، نسیم حیدر کی ’’جنون عشق‘‘ اور چند ایک پنجابی فلموں میں شاہد حمید کو پھر سے موقع دیا گیا۔ لیکن ’’ڈوب کر پھرمیری قسمت کا ستارہ نہ ملا‘‘ کے مصداق شاہد حمید کام یابی اور مقبولیت سے بہت دور رہے۔
تاہم ان کے فرزند کامران شاہد نے ان کا حال ہی میں ایک چینل کے لیے ایک طویل انٹرویو کیا، جس میں شاہد نے تمام اخلاقیات کو بالائے طارق رکھتے ہوئے اپنے سینئرز فن کاروں محمد علی، وحید مراد، ندیم، یوسف خان وغیرہ کے حوالے سے وہ تضحیک آمیز اور ناقابل یقین گفتگو کی کہ دیکھنے والوں کی نظر میں ان کا امیج مزید دھندلا گیا اور آج ان کی اس بہترین فلمی کارکردگی ’’جو انہوں نے ماضی کی بہت سی فلموں میں پیش کی‘‘ کو خراج تحسین پیش کرنے یا سراہنے کے بہ جائے ان کے اس متنازع انٹرویو کے سبب ان پر نہ صرف شدید تنقید کررہے ہیں، بلکہ ان سے بددل اور مایوس ہوگئے ہیں۔