چوہدری محمد ارشاد
سندھ دھرتی فطرت کی رنگینیوں سے مالا مال ہے۔ دریا، پہاڑ،سمندر،قدیم آثار دنیا کا ساتواں بڑا صحر، جنگلات، درخت اور پودے اس کا حسن بڑھانے میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ یہاں ہر قسم کی نباتات اگتی ہیں، جن میں سے کئی پودے طبی خواص کے بھی حامل ہوتے ہیں۔ یہاں ایسے پودے بھی پائے جاتے ہیں جو طبی خواص کےحامل ہونے کے ساتھ ہلاکت خیز بھی ہیں، جن میں ناگ پھنی، دھتورا، گل مداراور اکھ کا پودا شامل ہیں۔ یہ پودے اتنے زہریلے اکھ کا پودا خودرو ہوتا ہے اور گوناگوں خصوصیات کا حامل ہے۔ یہ پودا سندھ اور بلوچستان کے کوہستانی علاقوں، صحرائے تھرکے ریگزار، ، بنجر علاقوں، سڑکوں، ندی نالوں، کے کنارے عام طور سےدکھائی دیتا ہے۔
اس پودے کو سنسکرت زبان میں عرق، ٹول پھلی، مندار، پرتال،بھاتوک ،چھیل پھرنی، گجراتی میں نانو، انکاڑو، پنجابی میں آکھ، عربی میں اوکڑ، انگریزی میں کلو ٹروپس پروسیرا اور اردو میں گل مدار کہا جاتا ہے، لیکن جنوبی ایشیاء میں یہ پودا ’’اکھ‘‘ کے نام ہی سے معروف ہے۔ اس کی شاخیں جڑ سےنکل کر پھیلتی ہیں۔ اس پودے کا ہر جزو، تنا، پتے، پھول، شاخیں، بیج اور دودھ، انسان کے مختلف جسمانی عوارض، چہرے کی زیبائش، قدرتی نکھار اور گھریلو ٹوٹکوں میں زمانہ قدیم ہی سے استعمال ہو رہا ہے، جس کے سبب اسے ”طبیب پودا“ اور جدید میڈیکل سائنس میں ”فطری معالج“ کہا جاتا ہے۔
اس پودےکی دنیا بھر میں دو سو سے زائد اقسام پائی جاتی ہے، لیکن سندھ کے لوگ اس کی دو اقسام سے ہی واقف ہیں۔ ان میں سفید پھولوں والا پودا جسے ’’سیورتارک‘‘ جب کہ دوسری قسم سرخ پھول والے پودے کی ہے جس کا ’’رفتار‘‘ کے نام سے قدیم کتابوں اور اطباء کےنسخوں میں تذکرہ ملتا ہے۔ مگر سفید پھول دینے والے ’’اکھ‘‘ کو حکما اور اطباء زیادہ طبی خواص کا حامل قرار دیتے ہیں۔ شاید اس کی بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ یہ پودا نایاب ہے۔
ہندوستان میں ہی نہیں پاکستان خصوصاً سندھ میں آج بھی ہندو سفید پھولوں والے اکھ کے پرانے پودے کی جڑ کو اپنے گھروں میں سجاتے ہیں اور اس کی پوجا کرتے ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ اس کی جڑ گھر میں رکھنے سے ان پر دھن دولت کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ مصائب و آلام سے بھی ان کی حفاظت ہوتی ہے۔ سندھ میں عام طور پر پائےجانے والے اکھ کے پودے کی اونچائی 2فٹ سے15فٹ یا اسے بھی زائد ہو سکتی ہے۔
اکھ کا پودا تقریباً ایک میٹر کے قریب لمبا، پتے چوڑے اور موٹے اوربرگد کے پتوں کی مانندد کھائی دیتے ہیں۔ اس پودے کی ٹہنی ، پتہ یا پھول توڑنے سے سفید رنگ کا دودھ نکلتا ہے۔ اس میں سے نکلنے والا دودھ ذائقے میں انتہائی کڑوا اور خاصیت میں زہریلا ہوتا ہے۔ زیادہ ترطبی ماہرین کی رائے ہے کہ اس کے چند قطرے، کسی بھی ذی روح کے لیے جان لیوا ثابت ہو سکتے ہیں لیکن اس میں داد چنبل کا شافی علاج ہے۔ داد چنبل پرانا ہوگیا ہو اور کسی دوا سے بھی اچھا نہ ہورہا ہو، اس پر یہ دودھ لگایا جائے، اس کے لگانے سے کچھ تکلیف ضرور ہوگی لیکن داد یا چنبل صحیح ہوجائے گا۔
بواسیر کے مرض میں اس کا دودھ مسو ں پر لگانے سے ختم ہو جاتے ہیں،پرانے دمہ اور کھانسی کا بھی یہ موثر علاج ہے۔اس کی سب سے بڑی افادیت یہ ہے کہ سانپ یا بچھو کے کاٹے کی جگہ پر اگر اس کا دودھ لگایا جائے تو یہ ان جانوروں کے زہر کا تریاق ہے۔اس کے پتے بھی بہت سے امراض میں معالج کا کام کرتے ہیں۔اگر انہیں تلوں کے تیل سے چپڑ کر گرم کریں اور گنٹھیا کے مریض کے جوڑوں پر باندھیں، توچند بار کے باندھنے سے ہی سوجن اور درد ختم ہوجائے گا۔اس کا پتہ پک کر زرد ہوجائے تو اسے آگ پر سینکیں اور چٹکی سے مسل کر اس کانیم گرم رس کاایک قطرہ کان میں ٹپکائیں، کان کا درد دور ہوجائے گا۔ اکھ کا پھول چھوٹا اور نرگس کے پھول سے مشابہت رکھتا ہے۔
پھول کے درمیان میں لونگ کے سر کے مانند ایک چیز ہوتی ہےجسے’’ اکھ کی لونگ یا قرنفل مدار‘‘ کہا جاتاہے۔اس کا پھول معدے کو طاقت دیتا ہے، بھوک لگتی ہے اور بادی بلغم دور ہوتا ہے،اس سے مختلف اقسام کے چورن بھی بنائے جاتےہیں۔ یہ پودا ،اکھ کا ڈوڈا آم سے مشابہت رکھتا ہے۔ اس کے بیج چپٹے، سیاہی مائل، ارہر کی دال کے دانے کے برابر ہوتے ہیں۔ یہ پودا گرمی کی تپش کے دوران پروان چڑھتا ہے۔ اُس کے پتے اور پھول تر و تازہ نظر آتے ہیں۔ اس کے بیج کچھ اس طرح ہوتے ہیں کہ وہ ایک ہرے خول میں بند رہتے ہیں۔ جب وہ خول کھلتا ہے تو چھوٹے چھوٹےبالوں جیسے ریشے ہوا میں اڑتے پھرتے ہیں۔ انہیں بچے پکڑکر پھونک سے اڑا دیتے ہیں۔
ان بالوں کو اور بیج کو’’ اکھ کی بڑھیا‘‘ کہتے ہیں یعنی سفید بالوں والی بُڑھیا جو اڑتی پھرتی ہے۔اکھ کے پودے میں پھول گچھوں کی صورت میں ہوتے ہیں۔ پھول جب سوکھ جاتے ہیںتو اس کی جگہ پھل نما بیج بن جاتے ہیں، جو سوکھنے کے بعد از خود چٹخ جاتے ہیں اور اس کے اندر سے روئی کی مانند گالے نکلتے ہیں جو ہوا کے ساتھ ادھر، ادھر اڑنے لگتے ہیں۔ سندھ میں80ء کی دھائی کے دوران اطباء نے لوگوں میں معاشی بدحالی کو دور کرنے کا شعور بیدار کیا۔
انہوں نے دیہی عوام کو اپنی معاشی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے اکھ کا دودھ آیوروویدک، ایلوپیتھک اور ہومیوپیتھک ادویہ ساز اداروں کو سپلائی کرنے کی ترغیب دی۔ا ن اداروں سے انہیں دودھ کی ایک بوتل کے 2 ہزارسے ڈھائی ہزار روپے مل جاتے تھے۔ کچھ عشرے قبل تک سندھ کے میدانی و پہاڑی علاقوں اور جنگلات میں اس پودے کی بہتات تھی ، لیکن جب جنگلات اور پہاڑی علاقے صاف کرکے عمارتیں، مکانات، کارخانے، دکانیں اور مارکیٹوں کی تعمیر شروع ہوئی تو یہ پودے بھی ناپید ہوتے گئے۔
اب لوگ اس پودے کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں۔اس پودے کی افزائش انتہائی گرم موسم میں ہوتی ہے۔ جب سورج آگ برسا رہا ہو، دھوپ بدن کو جھلسا رہی ہو، تویہ پودا پھلتا پھولتا ہے جب کہ شدید سردی اور بارش کے موسم میں یہ مرجھانے لگتا ہے۔اس پودے کے پیلے پتوں میں دودھ نہیں ہوتا،مگر آیورویدک نسخوں میں لکھا ہے کہ ایسے مریض یا افراد جن کے پیروں میں جلن یا بدبو آتی ہو، بدن کی حدت میں مبتلا ہوں ،وہ اکھ کے زردپتے کو پیروں کے تلوئوں میں کسی دھاگے یا کپڑے سے باندھ لیں ۔ ایسےمریض یا افراد 4/3دن روزانہ یہ عمل کریں۔
اس پودے کے نیچے جتنی جگہ پر اس کا سایہ زمین پر ہو، اس زمین کی مٹی بادی کو دور کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اکھ کے پودے کے سائے سے، مٹی لے کر اسے کسی برتن میں گرم کر لیں اور اسے ایک چادر پرڈال کر دوسری چادر اس پر بچھا دیں ا ور کمر کے پرانے درد، میں مبتلا مریضوں کو اس چادر پر لٹادیں تو ایسے مریضوں کو درد سے چھٹکارا ملتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ پودا گنج پن، سوزش، خارش ، نزلہ، ہیضہ، بالوں کی مضبوطی و دیگر امراض کے لیے اکسیر ہے۔اس کےپتوں کی دھونی مچھروں کو بھگانے میں مددگار ہوتی ہے۔یہ بات ذہن نشین ہونا ضروری ہے کہ اکھ کےپودے کےہر حصے اور دودھ کے استعمال سے متعلق مکمل آگہی ہونا چاہئے،بہ صورت دیگر منفی نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔