سانگھڑ (نامہ نگار)1995میں سندھ میں گائوں جام نواز علی کو ضلع سانگھڑ کا تعلقہ قرار دیئے جانے کے بعد اس چھوٹے سے گائوں میں درجنوں ادارے قائم کئے گے جن میں سے ایک آغا خان اسپتال کراچی کی طرز کاجدید ترین اسپتال کا قیام بھی شامل تھا اس اسپتال کی قیام کے لیے متحدہ عرب امارات اس وقت کے حکمران شیخ زید بن سلطان النہیان اور حکومت سندھ نے فنڈس مہیا کرنے تھے جام صادق علی کی زندگی میں ساڑے چار ارب روپے کی خطیر رقم سے نہ صرف ہو بہو آغا خان ہستپال کراچی کی طرز کی شاندار عمارت کی تعمیر مکمل ہوئی بلکہ عمارت میں جدید ای سی پلانٹ بھی لگایا گیا۔ اسپتال میں تعمیر کئے گئے ڈاکٹروں کے بنگلے اور کواٹرز میں سے بیشتر کی چھتیں گر چکی ہیں اور ان بنگلوں اور کواٹرز میں علاقے کے کسانوں اور مزدوروں نے رہائش اختیار کر لی ہے مرکزی عمارت کی چھتوں کا پلستر اُکھڑنا شروع ہوگیا ہے جگہ جگہ اُگنے والی خود رو گھا س نے شاندا ر قطع ایراضی کو جنگل میں تبدیل کیا گیا اسپتال کا اے سی پلانٹ اور دیگر مشینری اب یہاں موجود نہیں ہے۔جام صادق علی کے پروگرام کے مطابق اس اسپتال میں عوام کو جدید شہروں کی سطح کی علاج کی سہولتیں حاصل ہونا تھی بلکہ مزید عطیات اور فنڈز کے ذریعے یہاں میڈیکل کالج بھی قائم کیا جا سکتا تھا ۔ علاقے کی عوام نے سندھ حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اسپتال کے لیے تعمیر کردہ ان عمارات کو مکمل ضائع ہونے سے بچایا جائے اور اسپتال کا باقی ماندہ کام مکمل کراکے یہاں عوام کے لئے علاج کی سہولتیں جاری کی جائیں۔