• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

ہم اپنے کالم میں لاہور کے صرف ان ریلوے اسٹیشنوں کا ذکر کر رہے ہیں جو کم از کم سو سے ڈیڑھ سو برس پرانے ہیں۔ جو تاریخی فنِ تعمیر کے ساتھ لاہور کا حسن بھی تھے۔ یہ وہ تاریخی ریلوےا سٹیشن ہیں جو لاہور کے خوبصورت دیہات میں ہیں۔ دیہات اب لاہور کے خوبصورت اور روایتی دیہاتی ماحول سے آزاد ہو چکے ہیں۔ کچے مکان ختم ہو گئے، رشتےکمزور جبکہ مکان مضبوط ہو گئے۔ کنویں کا پانی ختم ہو گیا۔ سرکاری نل کا پانی لاہور کے دیہات کا تاریخی، تہذیبی اور ثقافتی حسن اپنے ساتھ بہا لے گیا۔ ہم تاریخی ریلوے اسٹیشنز کی بات اس لئےبھی کر رہے ہیں کہ ہم ان قدیم ریلوے ا سٹیشنوں سے اپنی اسکول اور کالج کی زندگی میں کئی مرتبہ لطف اندوز ہوئے ہیں اورہم نے ان ریلوےا سٹیشنوں پر بیٹھے، ان ٹرینوں کے ڈبوں سے دھوتی اور کرتے کے لباس میں اترتے ہوئے معصوم (کبھی یہ چہرے معصوم تھے) دیہاتیوں کو اترتے اور چڑھتے ہوئے دیکھاہے۔ کسی نے سر پر کچھ رکھا ہوتا تھا،، کوئی اپنے بچوں کو لاہور شہر کا چڑیا گھر دکھا کر لا رہا ہوتا تھا۔

جلو پنڈ کے تاریخی ریلوے ا سٹیشن سے ہم جیابگا ریلوے سٹیشن کی طرف روانہ ہو ئے۔ کبھی وہاں جانے میں کافی وقت لگتا تھا۔ اب تو پکی سڑکوں کی وجہ سے ہم کچھ ہی دیر میں وہاں پہنچ گئے۔ راستے میں ہلوکی کا فلیگ اسٹیشن بھی دیکھا۔ دیکھ کر بڑا افسوس ہوا، فلیگ ا سٹیشن پر مسافر ٹرین صرف ایک منٹ کے لئے کھڑی ہوتی ہے۔ فلیگ اسٹیشن پر اسٹیشن ماسٹر اور دیگر عملہ ہوتا ہے۔ گارڈ کی باقاعدہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ جب تمام مسافر بیٹھ جائیں، تو وہ فلیگ اسٹیشن کی کھڑکی سے روانگی کے لئے ہری جھنڈی ہلائے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ لاہور میں کبھی کئی خوبصورت فلیگ اسٹیشن تھے، جو اب بند کر دیئے گئے اور یہ اب بھوت بنگلوں کا منظر پیش کرتے ہیں۔ ہم جیابگا ریلوے اسٹیشن پر جانے سے قبل ہلوکی کے فلیگ ریلوے اسٹیشن پر چلے گئے وہاں کبھی تمام آلات، ٹیلی کمیونیکیشن اور ٹرینوں کی آمد کے بارے میں اطلاع فراہم کرانے والی مشینری چالو حالت میں تھی۔ حالانکہ ہلوکی ریلوے ا سٹیشن سے ٹرینیں آج بھی پوری برق رفتاری سے گزرتی ہیں۔ کبھی اس فلیگ ا سٹیشن پر 24گھنٹے رونق ہوا کرتی تھی جو آج وہاںنہیں۔ دروازے، کھڑکیاں تک لوگ اتار کر لے گئے۔ جب یہ ہلوکی ریلوے اسٹیشن بند کیا جا رہا ہو گا تو یقینی بات ہے کہ ریلوے کے عملے نے لوگوں کو بتایا ہو گا۔ کچھ سامان ریلوے کے لوگ لے گئے اور کچھ سامان لوگوں نے چرا لیا حالانکہ اگر یہاں تمام آلات لگے رہتے اور کمروں کو سیل کر کے صرف چوکیدار کو یہاں رہنے دیا جاتا تو یہ فلیگ اسٹیشن آج بھی آباد ہوتا۔

بہرحال ہم جیابگا ریلوے ا سٹیشن پہنچے، کیا خوبصورت ریلوے اسٹیشن ہے۔ اس کی تاریخی عمارت کو نہایت بھونڈے انداز میں مرمت کر کے اوپر گرے سیمنٹ پھیر دیا گیاہے۔ ہم نے جس زمانے میں یہ عمارت دیکھی تھی، اس وقت یہ اینٹوں کی بڑی خوبصورت پیلی عمارت تھی۔

جیا بگا ریلوے ا سٹیشن پر جانے کے لئے کوئی مناسب راستہ نہیں، اگر آپ کو سامنے سے آنا ہے تو گاڑی وغیرہ سڑک پر لگا کر چار لائنیں کراس کر کے مرکزی عمارت تک آنا پڑتا ہے اور ایک لائن ا سٹیشن کے پیچھے کی طرف ہے جہاں مختلف ممالک سے کوئلہ آتا ہے اور جو ٹرکوں کے ذریعےمتعلقہ جگہوں پر بھیجاجاتا ہے۔ جیابگا ریلوے ا سٹیشن پکنک پوائنٹ کے حوالے سے بڑا خوبصورت مقام ہے۔ ہم جب جیابگا ریلوے اسٹیشن پر چالیس برس قبل گئےتھے تو ہمیں یاد ہے کہ لاہور ریلوے اسٹیشن سے غالباً دو/تین روپے کا ٹکٹ لیا تھا اور ٹرین کے ڈبوں میں دیہاتی سوار تھے۔

اس زمانے اور انگریزوں کے دور میں لاہور میں واقع تمام دیہات کا آپس میں رابطے کا سب سے آسان اور سستا ذریعہ ٹرین تھی اس زمانے میں کئی مسافر اور اسٹیشن ٹرینیں چلا کرتی تھیں۔ جیا بگا ریلوے اسٹیشن سے روزانہ دو سو کے قریب دیہاتی کام کاج کے لئے لاہور کے مختلف اسٹیشنوں پرجایا کرتے تھے۔جو دیہاتی اور شہری بابو مسافر ٹرینوں پر روزانہ سفر کرتے تھے، ان کا ماہانہ ریلوے سفری پاس بنا کرتا تھا، جس میں سہولت یہ تھی کہ سفری پاس پر ریلوے کرایہ یک طرفہ ہوتا تھا۔لاہور ا سٹیشن سے جیا بگا تک کا کرایہ صرف 7/6روپے تھا، جیابگا‘ دو بھائی تھے جنہوں نے انگریز دور میں یہ گائوں بسایا تھا۔جیابگا ریلوے اسٹیشن کا خوبصورت ٹکٹ گھر جہاں 2009ء تک لوگ قطار میں کھڑے ہو کر ٹکٹ خریدا کرتے تھے۔ آج اس کا تاریخی برآمدہ اپنے مسافر وں کی راہ تک رہا ہے۔

جب ہم اس تاریخی ریلوے ا سٹیشن کو دیکھنے گئے تھے، بہت رونق تھی جبکہ آج جب ہم چالیس برس بعد یہ اسٹیشن دیکھنے گئے تو اکیلے ہی تھے۔ ایک اسٹیشن ماسٹر بخاری صاحب جو ہمیں چار کمروں اور ایک مسجد پر مشتمل اس اسٹیشن کے بارے میں بتا رہے تھے۔ ایک کمرہ اسٹیشن ماسٹر کا ہے، ایک میں بے شمار بیٹریوں کے یو پی ایس اور ایک کمرے میں جنریٹر لگا ہوا تھا۔ اسٹیشن سے ذرا فاصلے پر کیبن روم تھا۔ کبھی یہاں اسٹیشن کے ساتھ اسٹیشن کے عملے کے لئے ایک چھوٹی سی کالونی تھی جس میں اسٹیشن ماسٹر کا گھر دیگر عملے حتیٰ کہ خاکروبوں کے گھر بھی تھے۔ آج ان کی باقیات بھی موجود نہیں۔ لوگ اس کالونی کے گھروں کی اینٹیں اور چھتیں تک اکھاڑ کر لے گئے ہیں۔ آپ کو حیرت ہو گی کہ جیابگا ریلوے اسٹیشن پر سال بھر میں چھ/سات سانپ ضرور نکل آتے تھے اور کبھی ان ریلوے اسٹیشنوں پر سانپ کے کاٹے کی دوا بھی ریلوے حکام رکھا کرتے تھے۔

(جاری ہے)

تازہ ترین