• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ کے ایک محقق محمد عمر چنڈ کی اس سلسلے میں لکھی گئی کتاب ’’حر تحریک‘‘ میں انگریز سامراج کی طرف سے حروں پر کئے گئے مظالم اور ردعمل میں حروں کی مثالی جدوجہد کی کافی تفصیلی داستان شائع کی گئی ہے۔ اس کالم میں‘ میں اس داستان کے کچھ حصے ’’جنگ‘‘ کے قارئین کیلئے پیش کررہا ہوں تاکہ پتہ چل سکے کہ سندھ سے تعلق رکھنے والے ان حروں نے انگریز سامراج کا کس جانفشانی سے مقابلہ کیا۔ ظاہر ہے اس تحریک میں حروں کے پیر پگارا کا بھی ایک لاثانی کردار تھا‘ ان میں خاص طور پر اس جنگ کے ہیرو پیر صبغت اللہ راشدی کی بہادری کی تو مثال ملنا مشکل ہے۔ اس کتاب میں لکھا گیا ہے کہ انگریز سامراج کی حکومت کے ایک سو سال کے دوران انگریزوں اور ان کے آلہ کاروں کا ہر دور کے پیر پگارا اور ان کے حر مریدوں کے ساتھ خاص عناد رہا جب انگریز سامراج نے دیکھا کہ یہ گروہ ان کے آگے سینہ تان کر چلتا ہے اور انگریز سامراج کی مرضی کے مطابق ان کے احکامات اس طرح نہیں مانتا جس طرح اس علاقے کے دوسرے گروہ مانتے ہیں تو انگریز سامراج نے اپنے آلہ کاروں کو احکامات دیئے کہ وہ حروں کے گروہ سے جو چاہیں وہ سلوک کریں مگر ان کو انگریز حکومت کے آگے جھکائیں۔ ان ہدایات کی روشنی میں ان اہلکاروں نے جب ان لوگوں سے بے حیائی اور زیادتی والا سلوک کیا تو ان لوگوں نے بھی اپنی عزت کا تحفظ کرنے کے لئے انگریز سامراج کے ان کارندوں کا مقابلہ کیا‘ اس کے بعد یہ تصادم بڑھتا گیا‘ سندھ کی اس وقت کی رسوم کے مطابق یہ غیور قوم اس رائے کی حامل تھی کہ ایک ’’بہادر مرد‘‘ کا یہ کام نہیں ہے کہ اپنی بے عزتی برداشت کرے اور ان کے آگے سرنڈر کرے‘ اس تصادم کے ابتدائی دنوں میں ہی انگریز سامراج کے کارندوں نے پیر پگارا کے مرید حروں کو پکڑ کر حراستی کیمپوں میں بند کرنے کا سلسلہ شروع کردیا تھا مگر بعد میں 1897ء سے 1921ء تک پیر پگارا سائیں شاہ مردان شاہ کے دور میں مزید کیمپس قائم کیے گئے‘ یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ سندھ میں حراستی کیمپ پہلے قائم ہوئیں‘ اس دور میں سندھ میں سانگھڑ‘ سنجھورو‘ جھول‘ کھان‘ گنگو‘ لکن‘ کنگ پٹی‘ سوراھ‘ بھڑی‘ جلالانی (سکرنڈ) اور دڑو (ضلع ٹھٹھہ) میں یہ کیمپس قائم کیے گئے۔ ان میں ایک رپورٹ کے مطابق سندھ کے 11تحصیلوں کے 151 دیہات کے 4879بالغ مرد اور عورتوں (نابالغ بچے ان کے علاوہ)کو لاکر ان کیمپوں میں قید کردیا گیا‘ یہ کیمپس کبھی زیادہ تو کبھی کم مگر پاکستان کے وجود میں آنے تک قائم رہے‘ ان کیمپوں کے علاوہ پیر صاحب کے جو بڑے حر تھے ان کو ملک سے باہر لے جایا گیا‘ کچھ حروں کو سرحد اور پنجاب میں قائم کیے گئے کیمپس میں بھی بھیجا گیا جبکہ کافی حروں کو دکھن‘ مہاراشٹر اور راجستھان کے علاقوں میں قائم کیمپس میں بھی بھیجا گیا جو وہاں کافی عرصے تک قید رہے۔

ایک اور رپورٹ کے مطابق تین اقسام کے بیرونی لوگوں کو لاکر حروں کے علاقوں میں آباد کیا گیا‘ ایک تو بلوچستان کے بگٹی قبیلے کے نواب شہباز خان کو حروں کے علاقے میں 4 ہزار ایکڑ زمین الاٹ کی گئی جو زیادہ تر ضلع سانگھڑ میں ہے جو حروں کا ایک بہت بڑا مرکز تھا‘ یہ زمین اس وجہ سے دی گئی کہ یہ نواب اپنے قبیلے کے لوگوں کو لاکر حروں کے اس علاقے میں آباد کرتے تاکہ وہ انگریز سامراج کی حمایت میں حروں کا مقابلہ کریں۔ اس رپورٹ کے مطابق بگٹی قبیلے کے اس نواب نے بلوچستان کے ایک سو گھروں کو سندھ میں لاکر حروں کے علاقے میں منتقل کیا اور یہاں بگٹیوں کا گائوں وجود میں آیا جسے ’’کوٹ نواب‘‘ کہا جاتا تھا۔ ان بگٹیوں کے علاوہ پنجاب کے مسلمان اور سکھ ریٹائرڈ فوجیوں کو بھی اس علاقے میں زمینیں الاٹ کرکے انہیں یہاں آباد کیا گیا‘ اس کے علاوہ سندھ کے ریٹائرڈ افسران کو حروں کے علاقے میں رہائش پذیر کیا گیا تاکہ وہ حروں کے ساتھ گھل مل کر ان کے بارے میں اطلاعات انگریز حکومت کو پہنچائیں۔ حروں کو قید کرنے کیلئے انگریز حکومت نے جو حراستی کیمپس قائم کیے ان کے اطراف میں بڑی تعداد میں کانٹے دار جھاڑیاں بچھائی جاتی تھیں تاکہ کوئی ان کیمپوں میں سے باہر نہ نکل سکے‘ ان کیمپوں میں لوگ اہل و عیال کے ساتھ رہتے تھے‘ مرد تو قید تھے ہی مگر عورتیں بھی ان کیمپوں میں بند ہوتی تھیں‘ یہ لوگ کئی سال اہل و عیال کے ساتھ ان کیمپوں میں بند رہے‘ مرد دن کو مزدوری کرتے تھے اور سورج اترنے کے بعد وہ کیمپوں میں اپنے گھروں کو لوٹ آتے تھے۔ جب پیر صاحب سکرنڈ اور کنگ بھٹی والی موری پر قائم حراستی کیمپ میں گئے تو عورتیں کیمپ سے باہر نکل آئیں اور پیر صاحب سے فریاد کرتے ہوئے بتایا کہ کیسے چھوٹے معصوم بچے بغیر کسی جرم و کسی تفتیش کے بغیر کسی عدالت میں بلائے جانے کے جنم دن سے ان کیمپوں میں قید ہیں اور ان کیمپوں میں بڑے ہورہے ہیں‘ ان خواتین نے پیر صاحب کو یہ بھی بتایا کہ کیسے خواتین بغیر کسی جرم کے ان کیمپوں میں زندگی گزار رہی ہیں اور بچوں کو بھی ان کیمپوں میں جنم دے رہی ہیں‘ یہ خواتین ان کیمپوں میں زندہ ہیں تو مرتی بھی یہیں ہیں‘ ان خواتین نے کہا کہ یہ کہاں کا انصاف ہے؟ ان خواتین‘ بچوں اور بوڑھوں نے انگریزوں کا کون سا قصور کیا ہے جو ان کو ان کیمپوں اور جیلوں میں ماورائے قانون بند کیا ہوا ہے۔ (جاری ہے)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین