میں سفر بھی ہوں ، مسافر بھی ہوں ، رستہ بھی ہوں
اپنے اُسلوب میں جائوں گا، جدھر جائوں گا
یہ ایک ایسی مسافت ہے جس کی صعوبتوں کو سمجھنے ،مسافر کی وحشتوں کو جاننے ، راستے کے دشت و جبل کوپار کرنے اوریہ جو اُسلوب ہے اُس کے پیچ و خم کو کھولنے کے لیے لکھنئو کے اُستادمول چند کی دُکان تک جانا پڑتا ہے جہاں آگ اور آہن کے درمیان پگھلتے ہوئے ایک طفلِ شیر خوار پر وجدان کے طلسماتی اُفق آشکار ہوئے تھے۔قرطاس و قلم سے بچپن ہی میں بچھڑ جانے کے باوجود حرف و صوت سے رشتہ بحال رکھنے اورپھراپنے عزم و ہمت سے علم و دانش کے ٹھنڈے میٹھے چشموں سے فیض یاب ہونے والے اس کردار کو آج ہم سب جاذب قریشی کے نام سے جانتے ہیں۔
جاذب قریشی کی زندگی گھُپ اندھیرے میں جلنے والے اس چراغ کی طرح ہے جسے پڑوسی کے چولہے سے آگ لینے کی حاجت نہیں۔یہ دیا توآپ اپنی تپش سے جلتا ہے ۔زرد پرچھائیوں اور زندہ اُجالوں کے درمیان آشوبِ سفرنے جاذب قریشی کو اپنے آپ میں ایک ایسا بے کنار موسم بنا دیا ہے جس میں دھنک کے رنگوں والی بارش ،روشنی اور خوشبو کی نئی تمثیلیں لکھتی ہے۔اِس موسم کا ہر موسم سچا موسم ہے۔پھولوں کے رنگ جا بہ جا بچھے ہیں اور تتلیاں اپنا عکس اُتارے جاتی ہیں۔
بے خواب صدی کی نصف مسافت نے جاذب قریشی کے سینے میں امکان کی آہٹ کو کچھ اور تیز کر دیا ہے اورآپ کی تخلیقی آواز میں کچھ اور بھی گداز پیدا ہو گیا ہے۔ایسا بھی نہیں کہ تارتار پوشاک میں دھوپ اور چھائوں کے پیوند نہ لگے ہوں۔گم شدہ دُکھ اپنی جانب پکارتے نہ ہوں اور لبوں پر جتنے تبسم ہیں ، سب پرائے نہ ہوںلیکن بقولِ فیض ’’دیکھ کہ آہن گر کی دُکاں میں۔تند ہیں شعلے ،سرخ ہے آہن۔کھلنے لگے قفلوں کے دہانے۔پھیلا ہر زنجیر کا دامن ‘‘۔
چراغوں کی طرح روشنی لکھنے اور جگنوئوں جیسا چراغاں کرنے والے جاذب قریشی بھی اسی آگ میں جلتے ہیں۔ قفلوں کے دہانے اپنے آپ پگھلتے ہیں اور تخلیق کے نت نئے موسم مہکتے ہیں۔
دُکھ کا اظہار بھی تو سہل نہیں
آنسوئوں میں لہو نہیں آیا
فن ِ موسیقی کی باریکیوں کو جاننے والے جانتے ہیں کہ ہر انسان کا اپنا ایک راگ ہوتا ہے ۔جو حزن و ملال کے لمحات میں فرحت کا سامان پیدا کر سکتا ہے۔اسی طرح انسانی جبلتوں کا علم رکھنے والے دعویٰ کرتے ہیں کہ ہر انسان میں کسی نہ کسی چرندپرند کی جبلت بھی پائی جاتی ہے۔لوک دانش بھی اس خیال سے متفق دکھائی دیتی ہے۔آپ دُور دراز علاقوں میں چلے جایے۔سینہ بہ سینہ چلنے والی کہاوتوں اور کہانیوں میں دیکھیے ۔ہر کردار کے ساتھ کسی نہ کسی چرندکا نام جڑا ہوا مل جائے گا۔ایک شاعر چونکہ عام انسانوں سے قدرے مختلف ہوتا ہے اور اس کی قوت ِ متخیلہ نے اُڑنا بھی سیکھ لیا ہے۔سو یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ ہر شاعر کی جبلت میں کوئی نہ کوئی پرندہ اُڑانیں بھرتا رہتا ہے۔
جاذب قریشی مجھے شکیب جلالی کے زخمی پرندے کی طرح لگتے ہیں۔ جو اپنی تصویر چٹان پر چھوڑ جاتا ہے اور پھر جمیل نقش کے کبوترکی طرح خوابوں اور خیالوں میں انگڑائیاں لینے لگتا ہے۔جاذب قریشی نے رساچغتائی کی طرح کبوتر بازی تو نہیں کی، کبوتر پروری ضرورکی ہے۔آپ کے ہاں کبوتر ایک استعارے، ایک علامت اور ایک ایسی پینٹنگ کے طور پر آیا ہے جو فرانسیسی انقلاب میںپیغام رسانی یامغل بادشاہوں کے ذوق کی تسکین کی بجائے مغربی ملکوںکے لمبی اُڑانوں والے کبوتروں سے مماثلت رکھتا ہے۔یہ کبوتر ٹولیوں کی شکل میں اُڑتے ہیں اور کھلی فضائوں کے کینوس پر انگڑائیاں پینٹ کرتے جاتے ہیں۔جاذب قریشی کے شعر دیکھئے۔
تری انگڑائی کا اُسلوب الگ ہے
کبوتر مل کے یوں اُڑتے نہیں ہیں
منڈیروں سے کبوتر اُڑ رہے ہیں
کہ سائے ہیں تری انگڑائیوں کے
دو کبوتر ہیں کہ پر جوڑ کے اُڑ جاتے ہیں
ایک بے ساختہ پن ہے تری انگڑائی بھی
جاذب قریشی کے ہاں شاعری اور مصوری جڑواں بہنوں کی طرح سرگوشیاں کرتی دکھائی دیتی ہیں۔جب وہ کہتے ہیں ’’تری آواز کے موسم ، تری خوشبو کے پرند‘‘تو لگتا ہے کئی ایک پرندے ایک ساتھ چہچہانے لگے ہوں۔یہ پرندے جاذب قریشی کے اندر بولتے ہیں اور ان کی گونج آپ کی غزلوں میں سنائی دیتی ہے۔شعر دیکھیے
رنگ اُڑتے رہے زخمی پرندوں کی طرح
دیر تک دیکھا تجھے اور مکمل دیکھا
میں نئی خواہشوں کا طائر ہوں
آندھیوں میں کوئی اُڑائے مجھے
وہ جو چڑیوں کا قفس تھا مجھ میں
کردیا ہے اُسے خالی میں نے
جاذب قریشی اپنی خودنوشت میں لکھتے ہیں۔’’ایک رات میںاپنے ابو کے پاس آنگن میں لیٹا ہوا تھااور میرے سامنے کمرے کے دروازے میںلالٹین جل رہی تھی۔ابو نے مجھ سے کہا ، لالٹین کے ہجے لگائو ۔جب میں نے صحیح ہجے لگا دیے تو انہوں نے میری پیشانی چوم لی تھی‘‘۔جاذب بھائی پچاس برسوں پر محیط آپ کی ادبی خدمات پر آج ایک بار پھر آپ کی پیشانی چومنے کو دل کرتاہے۔کیونکہ آپ کاسارا سفر بہت آبرومندانہ ہے۔
پائوں زخمی ہوئے سفر میں بہت
میں کہ بے آب رو نہیں آیا