کراچی میں صدر کی زیب اانساء اسٹریٹ میں جہاں جوتوں کے بڑے بڑے شورومز ہیں، کبھی کتابوں کی دکانیں ہوا کرتی تھیں۔علم و ادب کے خزانوںسے بھری ایک دکان’’ پاک امریکن ‘‘ تھی۔اس سے ذرا آگے اب جہاں ایٹیرم مال ہے ، وہاں کھلے پلاٹ میں لکڑی سے بنی فیض الاسلام کی ’’اسٹینڈرڈ بک شاپ ‘‘ تھی، جہاں ماسکو کے اردو مرکز سے شائع ہونے والی ہر کتاب دستیا ب ہوا کرتی تھی۔ سامنے گلی میں ایک ایرانی بزرگ انتہائی نادر و نایاب کتابوں کا خزینہ لیے بیٹھے تھے اور اب جہاں ریکس سینٹرایستادہ ہے وہاں ساسی بک شاپ واقع تھی۔اب ان میں سے کوئی بھی دکان صدر میں موجود نہیں ہے، بس ایک تھامس اینڈتھامس رہ گئی ہے جو ریگل چوک پر الکیٹرانکس کی دکانوں کی چکاچوند میں حرف و معنی کی روشنائی اس انداز میں بیچنے پر مجبور ہے کہ ن، م، راشد کی نظم ’’اندھا کباڑی‘‘ یاد آنے لگتی ہے۔
شہر کے گوشوں میں ہیں بکھرے ہوئے
پاشکستہ ، سربریدہ خواب
جن سے شہر والے بے خبر
خواب لے لو خواب
صبح ہوتے چوک میں جا کر لگاتا ہوں صدا
’’خواب اصلی ہیں کہ نقلی‘‘
یوں پرکھتے ہیں کہ جیسے ان سے بڑھ کر
خواب داں کوئی نہ ہو۔
خواب گر میں بھی نہیں
صورت گرِ ثانی ہوں میں
ہاں مگر میری معیشت کا سہارا خواب ہیں
شام ہو جاتی ہے
میں پھر سے لگاتا ہوں صدا
’’مفت لے لو مفت ، یہ سونے کے خواب۔۔۔‘‘
’’مفت‘‘ سن کر اور ڈر جاتے ہیں لوگ
اور چپکے سے سرک جاتے ہیں لوگ
’’دیکھنا یہ مفت‘‘ کہتا ہے کہیں دھوکا نہ ہو
ایسا کوئی شعبدہ پنہاں نہ ہو
گھر پہنچ کر ٹوٹ جائیں یا پگھل جائیں یہ خواب
بھک سے اُڑ جائیں یا ہم پہ کوئی سحر کر ڈالیں یہ خواب
جی نہیں کس کام کے ؟
ایسے کباڑی کے یہ خواب
ایسے نابینا کباڑی کے یہ خواب !
ن، م ، راشد نے یہ نظم اس وقت کہی تھی جب خوابوں سے بھری کتابیں خوش نما دکانوں کی زینت ہوا کرتی تھیں لیکن اب یہ عالم ہے کہ کتاب گھروںاور خواب گاہوں میں سجی کتابیں کباڑ خانوں کی نذر ہونے لگی ہیں۔لیکن نیرنگی ء وقت کے ساتھ کچھ علم دوست ایسے بھی ہیں جن کا چلن بالکل نہیں بدلا۔ پروفیسر سحر انصاری پہلے ہمیں کتابوں کی دکانوں پر ملا کرتے تھے،اب ہر اتوار کو ریگل کی سامنے والی گلی کے فٹ پاتھ پر پڑی پرانی کتابوں میں علم و دانش کے سچے موتی تلاش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ عقیل عباس جعفری بھی یہیں سے پرانی کتابوں کے تھیلے بھر کے لے جاتے ہیںاور مناسب وقت پر تاریخی حوالوں کے ساتھ اپنے پڑھنے والوں کو چونکاتے رہتے ہیں۔اب تو انہیں انعام الحق جاوید نے نیشنل بک فائونڈیشن کا ’’بک ایمبیسڈر ‘‘ بھی مقرر کر دیا ہے۔
’’خبر کرو میرے خرمن کے خوشہ چینوں کو‘‘
کتاب و قاری کا معاملہ بھی عجیب ہے۔جب کوئی کتاب کی تلاش میں نکلتا ہے توا یک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ کتابیں خود اُس کی تلاش میں نکل پڑتی ہیں۔اِدھر کوئی خیال یا کوئی اُلجھن آپ کے دل و دماغ میںکلبلانے لگی ،اُدھر اس موضوع پر کوئی کتاب یا کوئی جریدہ نظرنواز ہوا۔ لیکن اب لگتا ہے کہ کتاب و قاری کا یہ رشتہ بھی کچھ کمزور پڑنے لگا ہے۔اب کوئی خیال یا کوئی اُلجھن دامن گیر ہوتی ہے تو ہم کتب خانے کے بجائے ’’گوگل ‘‘ سے رجوع کرتے ہیںجہاں سلجھن کے بجائے کچھ اور الجھنوں میں الجھتے چلے جاتے ہیں اور اصل موضوع سے ہٹ کر کسی ایسے جزیرے میں جا نکلتے ہیں جس کے بارے میں ظفر اقبال نے کہا تھا۔
جزیرہ ء جہلا میں گھرا ہواہوں ظفر
نکل کے جائوں کہاں چارسوسمندر ہے
سمندر کے کنارے آباد کراچی نامی جزیرے میں وقت کے ساتھ جہاں کتابوں کی دکانیں معدوم ہوئی ہیں وہیں تاریخی لائبریریاں بھی عنقا ہوئیں۔فریئرر مارکیٹ لائبریری، خالق دینا ہال لائبریری، لیاقت ہال لائبریری، ڈینسو ہال لائبریری،غالب لائبریری ،علامہ اقبال لائبریری ، بابائے اُردو کتب خانہ،مولانا حسرت موہانی لائبریری اور سردار عبدالرب نشترلائبریری کن حالوں میں ہیں ، کوئی نہیں جانتا۔ایک لائبریری کراچی پریس کلب میں بھی موجود ہے جہاں کسی نے کسی بھی صحافی کو کبھی کتاب پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا۔البتہ جب سے صحافت قرطاس سے ٹیلی وژن اسکرین پر منتقل ہوئی ہے۔رنگی برنگی قمیضوں کے ساتھ چمکتے ہوئے جوتوں کی بہار آگئی ہے۔اکبر الہٰ آبادی بہت پہلے کہہ گئے تھے۔
بوٹ ڈاسن نے بنایا ، میں نے اک مضموں لکھا
ملک میں مضموں نہ پھیلا اور جوتا چل گیا
جوتے کے اس چلنمیں کتابیں بہت یاد آتی ہیں۔کوئی ہمیں بچھڑی ہوئی کتابوں سے ملا دے یا کوئی ایسا ناظم ہی لگا دے جو شہر کی لائبریریاںپھر سے بحال و فعال کروا دے۔