میں اس وقت رحیم یار خان پنجاب کے علاقے بھونگ شریف میں موجود ہوں جہاں گنیش مندر کی بحالی کیلئے منعقدہ تقریب میں شرکت کیلئے مجھے بطور مہمان خصوصی مدعو کیا گیا ہے، یہاں کچھ دن قبل ایک ایسا افسوسناک واقعہ پیش آیاتھا جس نے پوری دنیا کی توجہ ایک مرتبہ پھر پاکستان کی جانب مرکوز کردی تھی۔روایتی طور پر بھونگ شریف کا معاشرہ مذہبی ہم آہنگی اور برداشت و رواداری کا عملی نمونہ ہے، یہاںکے مقامی باشندے بشمول ہندواور مسلمان اپنے مذہبی عقائد پر کاربند رہتے ہوئے صدیوں سے ہنسی خوشی زندگی گزار رہے ہیں۔بھونگ شاہراہ پر واقع تاریخی بھونگ مسجد فن تعمیراور خطاطی کے لحاظ سے اپنی مثال آپ ہے، کہا جاتا ہے کہ اس مسجد کو مکمل ہونے میں پچاس برس سے زائد کا عرصہ لگا، یہاں بیک وقت دو ہزار نمازی نماز ادا کرسکتے ہیں، بھونگ شریف میں امام بارگاہ بھی واقع ہے، حضرت امام حسینؑ سے بے پناہ عقیدت کے باعث مقامی ہندو کمیونٹی جب یہاں سے گزرتی ہے تو احتراماََ علم کے نیچے سر جھکا لیتی ہے، عاشورہ کا دن ہندو کمیونٹی بھی عقیدت و احترام سے مناتی ہے۔ ہندو دھرم میں گنیش بھگوان کو بہت احترام کا درجہ حاصل ہے، شری گنیش کے ماننے والے سمجھداری سے انسانی زندگی کودرپیش رکاوٹیںدور کرنے پریقین رکھتے ہیں، ہر سال عموماََ اگست کے اختتام یا ستمبر کے آغاز میں دس روزہ گنیش چتورتھی تہوار منایا جاتا ہے۔ بھونگ شریف میں واقع گنیش مندر پر شدت پسندوں نے حملہ کرنے کیلئے یہ جواز پیش کیاکہ ایک آٹھ سالہ ہندو بچے نے وہاں ایک مدرسے میں مقدس مقام کی بے حرمتی کی ہے، اپنے بچوں کا خیال ذہن میں لاکر ایک لمحے کیلئے سوچیں کہ ایک آٹھ سالہ بچہ کیا واقعی ایسی جسارت کرسکتاہے؟ غلطی سے مدرسے میں داخل ہونے والےبچے نے ایساکیاتھا تو اسے درگذر بھی کیا جاسکتا تھا۔ﷲ کے آخری نبی ﷺکے زمانے میں جب ایک دیہاتی نے مسجد میں بے حرمتی کی تو آپ ﷺنے ناسمجھ شخص پر غصے کا اظہار نہیں کیا بلکہ پانی کا ڈول منگوا کرگندگی کو پانی سے بہا دیا،یوں ﷲ کے آخری نبی ﷺ نے رہتی دنیا تک کیلئے ایک روشن مثال قائم کردی کہ ناسمجھی اور غلطی کی بناء پر ایسی حرکت کرنے والے کو معاف کردیا جائے۔ آج میں سوچتا ہوں کہ ایک آٹھ سالہ نابالغ بچے کو تشدد کا نشانہ بنانے والوں کو رحمت العالمین ﷺکی تعلیمات کا ادراک کیو ں نہیں تھا؟ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ لکم دیناکم و لی دین یعنی تمہارے کیلئے تمہارا مذہب اور میرے لئے میرا مذہب۔ اسلام برداشت، تحمل ، رواداری اور مذہبی ہم آہنگی کا درس دیتے ہوئے یہ حکم دیتا ہے کہ تم کسی دوسرے مذہب کے خدا کو برا بھلا نہ کہو ورنہ ردعمل میں کہیں تمہارے خدا کو برا نہ کہہ دیا جائے۔ اتنے واضح احکامات ہونے کے باوجود توڑ پھوڑ نہایت افسوسناک سانحہ ہے ، میں نے ایسے نازک حالات میں ہرممکن کوشش کی ہے کہ متاثرہ علاقے میں خوف ہ ہراس کا شکار ہندو کمیونٹی کے احساسِ عدم تحفظ کو دور کرنے کیلئے ریاستی اداروں کو متحرک کیا جائے، میں خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں چیف جسٹس جناب گلزار احمد، وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل جاوید قمر باجوہ کا جنہوں نے مشکل کی اس گھڑی میں مظلوم ہندو کمیونٹی کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا، تمام سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی نمائندوں نے بھونگ شریف واقعے کے خلاف مذمتی قرارداد متفقہ طور پر منظور کرکے ثابت کیا کہ معاشرے میں مذہبی ہم آہنگی اور غیرمسلم اقلیتوں کی حفاظت کیلئے پوری پاکستانی قوم متحد ہے، پاکستانی میڈیا نے معاملے کی نزاکت سمجھتے ہوئے ذمہ داری کا ثبوت دیا، تاہم عالمی میڈیا بالخصوص بھارت کے ذرائع ابلاغ نے اس سانحہ کی آڑ میں پاکستان مخالف پروپیگنڈا تیز کردیا۔ پاکستان ہندوکونسل نے اپنے اعلیٰ سطحی اجلاس میں واضح کردیا تھا کہ گنیش مندر کا واقعہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے اور ہمیں اپنے ریاستی اداروں پر مکمل اعتماد ہے ، ہم نے فیصلہ کیا کہ گیارہ اگست کو ملک بھر میں اقلیتوں کا قومی دن منانے کیلئے مندروں ، گوردواروں اور دیگر مذہبی مقامات پر پاکستان کا قومی پرچم لہرایا جائے گا۔اقلیتوں کے قومی دن کے موقع پر متاثرہ گنیش مندر کی مختصر ترین وقت میں بحالی نے عالمی برادری کویہ پیغام دیا ہے کہ ریاست اپنی غیرمسلم آبادی کے حقوق کی حفاظت کیلئے اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہے۔ گنیش مندر میں منعقدہ تقریب میں ہندو مسلمان سمیت ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی ، ہم نے یہاں قومی پرچم لہراتے ہوئے گنیش پوجا کے بعد پاکستان کی ترقی و سربلندی کیلئے خصوصی پراتھنا بھی کی۔مجھے بہت خوشی ہوئی کہ بھونگ شریف کا ایک ہفتہ پرانا ماحول جس کو نظر لگ گئی تھی، آج دوبارہ لوٹ آیا ہے، تاہم میں سمجھتا ہوں کہ ایسے افسوسناک واقعات کی مستقبل میں مکمل روک تھام کیلئے تمام مذہبی رہنماؤں بشمول علمائے کرام، پنڈت، مہاراج اور بشپ کا بہت اہم کردارہے ، وہ معاشرے کی بھلائی کی خاطر افہام و تفہیم کو فروغ دیں، سمجھداری اور بردباری کا مظاہرہ کریں اور مذہبی ہم آہنگی کی صحیح تعلیمات کا پرچار کریں۔ آٹھ سالہ بچے کے حوالے سے اگر شروع میں ہی درست رویہ اختیار کرلیاجاتا تو حالات کبھی اس نہج پر نہ پہنچتے، آج خوف و ہراس کا شکار بچہ پولیس کی حفاظتی تحویل میں ہے جبکہ اس کے اہل خانہ خوف کے باعث نامعلوم مقام پرہیں، ضروری ہے کہ خدا کی زمین پر فساد پھیلانے والے شرپسند عناصر کو کڑی سزا دی جائے، دونوں کمیونٹی کے بڑے ایک دوسرے کو کھلے دل کے ساتھ گلے لگا کر ماضی کی تلخیوں کو خیرباد کہہ دیں۔رہے نام اللہ کا جوہر جگہ موجود ہے!