• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریک پاکستان اور علامہ شبیر احمد عثمانی

تحریر: محمد عمر توحیدی ۔۔۔اولڈہم
کسی بھی ملک قوم اور تہذیب کی بقا کا دارومدار اس کے نظریہ حیات پر ہوتاہے ،پاکستان کا وجود بھی ایک نظریے کے مرہون منت ہے ،نظریۂ پاکستان کو تحریک پاکستان میں وہی حیثیت حاصل ہے جو انسانی جسم میں ریڑھ کی ہڈی کو اور زندگی میں روح کو حاصل ہوتی ہے، روح نکل جانے کے بعد ’’ تنِ مُردہ ‘‘ کو مٹی کے نیچے دفن نہ کیا جائے تو اس میں ایسا تعفن پیدا ہو جاتا ہے جو دوسروں کا جینا بھی محال کردیتاہے، اس روح کی بالیدگی کے لیے مسلسل اور پیہم اقدامات کی ضرورت ہے، تاکہ پاکستان کا جسم بیماریوں سے پاک رہے اور اس میں جواں ہمتی و قوت موجود رہے۔ اس کا طریق کار یہ ہے کہ نوجوان نسل کو، جس کے ذہن سے تحریکِ پاکستان اور نظریۂ پاکستان کے تصورات محو ہوتے جا رہے ہیں۔۔۔ اپنی تاریخ سے آگاہ کیا جائے۔ ترقی پذیر قومیں اپنی نئی نسلوں کو اپنی تاریخ اور اپنے اسلاف کے کارناموں سے آگاہ کر کے ان کو اپنے شاندار ماضی اور اپنے اسلاف پر فخر کرنا سکھاتی ہیں، مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہ کنگا الٹی بہتی ہے۔درحقیقت ہم نے اپنی تاریخ کو اپنے خود ساختہ عقائد و نظریات پر مبنی قرار دے لیا ہے اور اس لئے آج ہماری نوجوان نسل پاکستان کی صحیح تاریخ اور اس کی خاطر اپنے اکابر کی دی گئی قربانیوں سے واقف ہی نہیں ہے۔ ہم نے تاریخ کو اپنی من مرضی کے مطابق گھڑ کے علمائے حق کے ایک خاص طبقہ کو بہ طور مثال پیش کرنے کی بجائےقابلِ طعن و تشنیع بنا دیا ہے،جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اگر تحریک آزادیٔ ہند و پاک کی تاریخ پر تعصب کی عینک اتار کر نظر ڈالی جائے تو روز روشن کی طرح واضح ہوگا کہ آج جن علما کو ہم حقارت سے دیکھتے اورر نظریۂ پاکستان کا مخالف قرار دیتے ہیں،ان کے اکابر نے حصولِ پاکستان میں بے پناہ قربانیاں دی ہیں اوران کا کردارہماری تاریخ کا بہت روشن باب ہے۔ ابھی ہم 75 واں یوم آزادی منانے جا رہے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ یوم آزادی کے اس موقع پر تاریخ کے دریچوں سے سچے نقوش کو آویزاں کیا جائے۔ آزادیٔ ہند کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ جمعیت علماء ہند اور مسلم لیگ نے مسلمانان ہند کی فلاح وبقا کے لیے دو الگ الگ فارمولے پیش کیے تھے،مسلم لیگ کا فارمولامسلمانوں کے لیے الگ ملک کا قیام تھا،جس کی اپنے تحفظات کی بنا پر جمعیت علماء ہند نے مخالفت کی۔جس پر مسلم لیگ کی طرف سے لوگوں میں یہ احساس پیدا کیا گیا کہ مطالبہ پاکستان کی مخالفت درحقیقت اسلام کی مخالفت ہے،مولانا شبیراحمد عثمانی پاکستان کے حامی علماء کے طبقے کے فرد فرید اور ان میں نمایاں حیثیت کے حامل عالم دین تھے،آپ کا شمار تحریک پاکستان کے عظیم المرتبت قائدین میں ہوتاہے،انہوں نے اپنی جہد وعمل سے تاریخ میں نئے ابواب کا اضافہ کیا اور نسل نو کی رہنمائی کےلیے اپنے حصے کی شمع جلا کر دنیا سے رخصت ہوئے،آپ دیوبند کے عثمانی خاندا ن کے چشم وچراغ اور تحریک آزادی ہند کے نام ور راہ نما،اسیر مالٹا،شیخ الہند مولانا محمود حسن کےارشد تلامذہ میں سے تھے،1908ء میں دارالعلوم دیوبند سے فارغ التحصیل ہوئے،اور دارالعلوم دیوبند سمیت کئی تعلیمی اداروں میں درس وتدریس کا کام کرتے رہے،آپ کو معقولات اور منقولات پر یکساں مہارت حاصل تھی۔گفتگو اور استدلال کا بے پناہ ملکہ رکھتے تھے۔تفسیر میں تفسیر عثمانی اور حدیث میں مسلم شریف کی عربی شرح فتح الملھم آپ کے بڑے علمی کارناموں میں سے ہے۔علمی اور تحقیقی مصروفیات کے ساتھ ساتھ آپ ملکی سیاسیات میں بھی دخیل رہے،آپ اپنے استاد مولانا محمود حسن کی سیاسی فکر کے امین تھے۔تحریک پاکستان کے زمانہ میں آپ نے محسوس کیا کہ جمعیت علماء ہند شیخ الہند کے سیاسی فکر سے ہٹ چکی ہے ،چناں چہ آپ نے (1946ء) میں’’ جمعیت علمائے اسلام‘‘ قائم کی،اور اس کے پلیٹ فارم سے مسلم لیگ اور پاکستان کی بھر پور حمایت کی، پورے ملک میں کانفرنسیں منعقد کر کے نظریہ پاکستان کوعلمی بنیاد فراہم کی اور تحریک پاکستان کےلیے عوام کو اٹھایا۔حضرت علامہ کی جد وجہد اور مولانا مفتی شفیع کی کوششوں سے سرحد کے عوام نے سرحدی گاندھی کے تسلط سے آزاد ہوکر ریفرنڈم میں پاکستان کا ساتھ دیا۔تحریک پاکستان کی جد و جہد کے ایک موقعے پر علامہ شبیر احمد عثمانی فرماتے ہیں: ’’ہندوستان میں جو سیاسی کش مکش اس وقت جاری ہے،میرے نزدیک اس سلسلے میں سب سے زیادہ قابلِ تنفر بلکہ اشتعال انگیز جھوٹ اور سب سے بڑی اہانت آمیز دیدہ و دلیری یہاں کے دس کروڑ فرزندانِ اسلام کی مستقل قومیت کا صاف انکار کر دیا جانا ہے۔ ہندوستان میں دس کروڑ مسلمان ایک مستقل قوم ہیں اس قوم کی وحدت اور شیرازہ بندی کے لیے ضروری ہے کہ اس کا کوئی مستقل مرکز ہو،جہاں سے اس کے قومی محرکات اور عزائم فروغ پا سکیں اور جہاں سے وہ مکمل آزادی اور مادی اقتدار کے ساتھ اپنے خدائی قانون کو بے روک ٹوک نافذ کر سکے بلکہ اس بے مثال قانونِ عدل و حکمت کا کوئی عملی نمونہ قائم کر کے دنیا کو وہ مشعلِ ہدایت دِکھا سکے،جس کی ہمیشہ سے زیادہ دنیا کو ضرورت ہے۔‘‘ علامہ شبیر احمد عثمانی کی مساعی اور رات دن جلسوں،کانفرنسوں کی بدولت علما کی ایک عظیم اکثریت ان کی ہم نوا ہو گئی اور مسلم لیگ کے جھنڈے تلے پاکستان کے لیے رات دن جدوجہد کی۔ قائد اعظم محمد علی جناح ؒنے جمعیت علمائے اسلام کی قیامِ پاکستان کے لیے دی گئی قربانیوں کا اس طرح اعتراف کیا کہ قیامِ پاکستان کے بعد سرکاری طور پر جھنڈا لہرانے کی اولین تقریب میں آپ کو اور مولانا ظفراحمد عثمانی کو آگے کیا۔ علمامشائخ اور پیران عظام کی موجودگی میں علامہ شبیر احمد عثمانی نے احتراماً تھوڑی ہچکچاہٹ محسوس کی تو قائد اعظم نے اس موقع پر فرمایا کہ یہ آپ کا ہی حق ہے ،چناں چہ کراچی میں آپ نے اور ڈھاکہ میں مولانا ظفراحمد عثمانی نے پاکستان کا جھنڈا لہرایا۔ یہی نہیں بلکہ قائد اعظم نے اپنا جنازہ پڑھانے کی وصیت بھی علامہ شبیراحمدعثمانی کے لیے کی۔ یہ بات ہر شخص جانتا ہے کہ جنازہ کی وصیت انسان اسی شخص کے لیے کرتا ہے کہ جس سے اسے بے حد انسیت و عقیدت ہو۔ قیام پاکستان کی جد و جہد میں حضرت علامہ کے ناقابل فراموش کردار اور قربانیوں کے لیے قائدِ اعظم کی اس وصیت سے بڑی گواہی اور کیا ہو سکتی ہے؟ مگر افسوس کہ آج تک ہم ان حقائق اور قائدِ اعظم کے اعترافات کے باوجود دوسروں کی رَٹی رَٹائی گردان پڑھتے چلے جا رہے ہیں۔اور بلا وجہ نفرتوں کو پال رہے ہیں اور قیامِ پاکستان کے اصل مجاہدین کو آج بھی لعن طعن کرنے سے باز نہیں آتے۔خدارا امتوں اور قوموں کی تباہی اور زوال سے سبق سیکھو اور اپنے دشمن کے خلاف ایک ہو جاؤ۔آپس میں محبتیں بانٹو نفرتوں کو دامن سے جھاڑ پھینکو کہ یہی قیامِ پاکستان کا اصل مقصد اور روحِ دین ہے کہ تم آپس میں بھائی بھائی بن کے رہو۔ اہل پاکستان کو 75واں یوم آزادی مبارک ہو۔
تازہ ترین