• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس وقت پوری دنیا کورونا کے مخمصے میں پھنسی ہوئی ہے، ہر طرف افرا تفری ہے،معاشرتی نظام درہم برہم ہوچکاہے ۔ہر طرف سے مختلف آرا سامنے آرہی ہیں ،طرح طرح کے تجربات سے عوام گزر رہے ہیں طرح طرح کی ادویات اور ویکسینز مارکیٹ میں آچکی ہیں ۔اس میں بھی معرکہ آرائیاں جاری ہیں، چین نے روس اور چین کی بنی ہوئی ویکسین لگوانے والوںکو اپنے ملک میں آنے جانے کی اجازت دی ہوئی ہے جبکہ امریکہ ،کینیڈا اور یورپی یورنین صرف امریکن، یو کے برانڈ کی حمایت کر دیتے ہیں ۔سعودیہ عرب اور خلیجی ممالک کبھی کسی برانڈ کی اجازت دیتے ہیں کبھی اس کی ممانعت کرتے ہیں۔فی الحال بغیر ویکسین والوں کے لئے صرف وارننگ آرہی ہیں ۔آئیے ایک نیاواقعہ آپ سے شیئر کروں پچھلے ماہ ہم کینیڈا کے شہر وینکوور تفریح کے لئے گئے تو وہاں بہت سے لوگ ماسک نہیں لگائے ہو ئے تھے ۔تمام ریسٹورنٹس کھلے تھے ،شراب خانوں میں ر ش تھا ،سنیما بھی کھلے ہوئے تھے ،کیسینوزمیں بھی پبلک بھری پڑی تھی ۔یہ کینیڈا کے 16صوبوں میں سے ایک صوبہ ہے جس کو البرٹا (ALBERTA)کہتے ہیں ۔یہاں پچھلے ماہ ایک کینیڈین شہری کا پولیس نے کورونا پابندی کی خلاف ورزی کرنے پر 1200ڈالرجرمانہ کر دیا، اس کو ٹکٹ دینا کہتے ہیں۔اس شہری نے البرٹا ہائی کورٹ میں کورونا کو چیلنج کر دیا کہ کورونا کوئی وبا نہیں ہے ۔حکومت صحت ثابت کر ے کورونا کہاں اور کیسے دریافت ہوا ، وہ کیوں ماسک لگائے اس سے خود اُس کی سانسیں گھٹتی ہیں ۔وہ 1200ڈالر دینے کے لئے تیار ہے اگر حکومت ثابت کرے کہ واقعی کورونا بھی کوئی بیماری ہے۔ ماسک لگانا، فاصلہ رکھنا وغیرہ یہ سب آزادی سلب کرنے کے برابر ہے ۔

البرٹا ہا ئی کورٹ نے صوبائی وزیر صحت اوروزارت صحت کے دیگرذمہ داروں کو طلب کر کے پوچھا کہ کیا آپ کے پاس کوئی ثبوت ہے۔کورونا کی تشخیص کیسے ہوئی ، عوام ماسک کیوں لگائیں ،ویکسی نیشن کیوں ضروری ہے وغیرہ وغیرہ۔ وزارت صحت کے ذمہ داروں نے عدالت کو بتایاکہ اس کے پاس کورونا کے ہونے یا نہ ہونے کا کوئی ثبوت نہیں۔البتہ عوام اس وائرس سے پوری دنیا میں متاثر ہو چکے ہیں اورتقریبا ہر ملک میں اموات ہو چکی ہیں ۔ اس وبا کی روک تھام کے لئے حکومت اور صوبائی وزارت یہ اقدام کررہی ہے تاکہ عوام کو وبا سے دور رکھا جائے ۔کافی دلائل سننے کے بعد عدالت نے اتمامِ حجت کے طور پر پوچھا آپ کے پاس کورونا نامی وائرس کا کوئی ثبوت ہے ،آپ اس کاثبوت دیں جس کے جواب میں وزارت صحت کے ذمہ دار کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیںکر سکے ۔عدالت نے اس شہری کا1200ڈالر کا ٹکٹ منسوخ کر کے صوبائی وزارت صحت اور مرکزی حکومت کو ماسک پہننے اور کورونا وائرس کے نام پر عوام کو خوف و ڈر میں مبتلا کرنے سے منع کر دیا اور آئندہ کورونا کے لفظ کے بجائے صرف وائرس کا لفظ استعمال کرنے کی ہدایت کی۔ میڈیا جو بڑی بڑی مافیائوں کے زیر اثر ہے اس فیصلے کو بہت معمولی پذیرائی دی اور مرکزی حکومت کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کر رہی ہے ۔البتہ صرف البرٹا میں یہ قانون نافذ ہے دیگر صوبوں میں ابھی تک کسی نے اس نا م نہاد کورونا کو چیلنج نہیں کیا۔

کچھ ہی دن پہلے نیو یارک میں 2بڑے اسپتالوں کے ذمہ داروں نے پریس کانفرنس کرکےبتایاکہ ہم پر دبائو ہے کہ ہروہ مریض جو کھانسی،نزلے اور بخار سے داخل ہو، اس کو کورونا کا مریض ڈکلیئر کیا جائے اور اس کی موت کوبھی کورونا سے لنک کیا جائے ۔اس پریس کانفرنس کو یوٹیوب سمیت بڑے بڑے ذرائع ابلاغ نے چند ہی گھنٹوں کے بعد ہٹا دیا، اس پر ان ڈاکٹروں نے خصوصی طور پر یوٹیوب پر حقیقت چھپانے کا کیس بھی کر دیا ہے ۔اس سے قبل 12یورپی یونین ممالک کے پروفیسروں نے اجتماعی پریس کانفرنس میں عوام کو کورونا کے اسکینڈل سے آگاہ کیا تھا ۔وہ بھی میڈیا نے عوام کی نظروں سے پوشیدہ رکھا۔20سال قبل بھی ایسی اطلاعات میڈیا پر آتی رہیں کہ ایک وائرس پوری دنیا میں پھیلے گا اور پھر اس کے بچائو کی ویکسین بنائی جائے گی۔کھربوں ڈالر کی کمائی ہوگی،عوام خوف وہراس کی زندگی گزاریں گے ۔پھر اس خوف کی وباکو دیگر ناموں سے ڈرایا جائے گا۔یعنی بخار ،نزلہ اور کھانسی سے پوری دنیا میں ہر سال کروڑوں انسان مرتے آئے ہیں۔ان سب کے لئے ایک نام یعنی کورونا سے منسوب کر کے پوری دنیا کو بے وقوف بنانے کا دھندا جاری رہے گا۔اس کے پیچھے کس کس کا ہاتھ ہے ۔ دولت مند اور ارب پتیوں کا نام آرہا ہے ۔کل ہی جرمنی کی وزارت صحت نے 8000سے زائد افراد جن کو ویکسین لگ چکی تھی کو دوبارہ طلب کر لیا ہے کیونکہ ایک نرس جو اس ویکسین کے استعمال کے خلاف اورکورونا کو نہیں مانتی وہ اس کی رکن تھی ۔ اس نے پولیس کے سامنےاقرار کیا کہ وہ صرف نمک کا ٹیکا (Saline)لگاتی رہی کیونکہ اس کے خیال میں یہ صرف عوام کے ساتھ دھوکہ ہے۔ قارئین جرمنی میں بھی ایک بہت بڑا گروپ ان ویکسینوں کے خلاف جلوس نکال چکا ہے ۔اس گروپ کو (FAR-RIGHT)کہا جاتا ہے ۔امریکہ اور آسٹریلیا کی بہت سے ریاستوں میں تو کورونا کی بندشوں سے تنگ آکر عوام سڑکوں پر بھی نکلے تھے۔جس سے حکومت نے پسپائی کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے ۔پاکستان میں بھی یہی لگ رہا ہے کہ جو بھی مریض نزلہ ، کھانسی اور بخار سے مرتا ہے اس کو کورونا میں شمار کیا جاتا ہے،خصوصاً سندھ میں تو یہ رواج بن گیا ہے۔امریکہ اور دوسرے ممالک میں یہی ہو رہا ہے کہ جس کا بھی انتقال ہوتا ہے اس کو کورونا ڈکلیئر کر دیتے ہیں ۔اسی طرح معروف اداکارہ دردانہ بٹ جو کافی عرصے سے کینسر میں مبتلا تھیں آخری وقت میں ان کو کورونا کا مریض ڈکلیئر کر کے ان کے انتقال کی خبر دی گئی ۔حالانکہ وینٹی لیٹر پرتو بہت سے مریض جاتے ہیں۔

تازہ ترین