• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نئے پاکستان میں آج کل مہنگائی کے علاوہ جن چیزوں کا چرچا ہے ان میں الیکٹرونک ووٹنگ مشین بھی شامل ہے۔ پاکستان نے ایک ایسی مشین تیار کرلی ہے جس کے ذریعے ووٹ کاسٹ کرنا آسان ہو گا اور بقول شخصے دھاندلی کا بھی کوئی شک نہیں رہے گا۔ انتخابات کے نتائج بھی جلد سامنے آجائیں گے۔ اس مشین پر کام تو موجودہ وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے دور میں جب وہ سائنس و ٹیکنالوجی کے وزیر تھے، شروع ہوا تھا مگر شبلی فراز کے دور میں مکمل ہوا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو مشین کے بارے میںبریف کیا گیا اور انہوں نے اس مشین پر خوشی کا اظہار کیا اور میڈیا کی وساطت سے پہنچنے والی خبروں کے مطابق آئندہ انتخابات میں اس مشین سے استفادہ حاصل کرنے کی ہدایت بھی کی۔

انتخابات کی شفافیت سب سے اہم فیکٹر ہے۔ ہمارے ہاں وتیرہ یہ ہے کہ ہارنے والی پارٹی کبھی نتائج کو قبول نہیں کرتی اور دھاندلی کی گردان شروع کر دیتی ہے۔ جو بھی پارٹی انتخابی میدان میں اترتی ہے اس کا مقصد حصول اقتدار ہوتا ہے اور وہ اپنے ان سنہری خوابوں کو پورا ہوتا ہوا دیکھتی ہے۔ مگر جب انتخابی نتائج اس کی خواہشات کے بر عکس آتے ہیں تو پھر حکومت وقت ، اداروں، افراد اور الیکشن کمیشن پر الزامات کی بھرمار شروع کر ہو جاتی ہے۔ پاکستان بننے کے بعد سے کسی ہارنے والی پارٹی نے نتائج کو تسلیم نہیں کیا۔ اسی الزام تراشی اور نتائج تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے ہم نے اپنا آدھا ملک گنوا دیا اور دنیا بھر میں رسوائی کا سامنا کیا۔

ذات ،برادری، لسانی تقسیم اور جغرافیائی حد بندی ہمیشہ سے ہماری سیاسی روایات کا محور رہی ہیں۔ شخصی پسند اور نا پسند پر ووٹ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ مجال ہے کہ آج تک کسی ووٹر نے پارٹی کا انتخابی منشور پڑھا ہو یہاں تک کہ میدان میں آنے والے امیدوار بھی انتخابی منشور سے نابلد ہوتے ہیں۔ علاقے کے وڈیرے و زمیندار اپنے مزارعوں و ہاریوں کو ہانک کر پولنگ اسٹیشن پر لاتے ہیںاور ووٹ ڈلوا کر ان سے لا تعلق ہو جاتے ہیں۔ ایسے ناخواندہ معاشرے میں الیکٹرونک مشین کا استعمال کیا گل کھلائے گا، اس کا اظہار اپوزیشن ارکان برملا کر رہے ہیں ۔گزشتہ انتخابات میں متعارف کرایا گیا آر ٹی ایس سسٹم جس طرح بیٹھ گیا اورجس طرح لوگوں کے شکوک و شبہات میں اضافہ ہوا، اس کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اپوزیشن ابھی تک اس کا رونا رو رہی ہے۔

واقفان ِحال جانتے ہیں کہ مشین سے وہی نتائج حاصل کیے جاتے ہیں جو اس مشین کو چلانے والے یا آپریٹ کرنے والے چاہتے ہیں۔ یعنی سب کچھ INPUTاور آئوٹ پٹ OUT PUTکا کھیل ہے۔ انتخابات میں اس طرح کے تجربات کرنے سے قبل ضروری ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز سے بات کی جائے اور ان کا اعتماد بحال کر کے آگے بڑھا جائے۔ اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہئے کہ ہم جیسے ناخواندہ معاشرے میں جہاں پر لوگ ابھی تک کورونا جیسی بیماری کو مذاق سمجھ رہے ہیں انتخابات کے لئے الیکٹرونک مشین کا استعمال کسی طرح بھی مناسب اور ناقابل قبول ہو گا۔ موجودہ سیاسی منظر نامے کے تناظر میں ہمیں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے۔ ہراس کام سے اجتناب کرنے کی ضرورت ہے جس سے انتخابات کی شفافیت مشکوک ہوتی ہو۔ تمام متعلقہ اداروں کا آئینی، اخلاقی اور قانونی فرض ہے کہ وہ شفاف انتخابات کے انعقاد کے لئے کام کریں تا کہ ترقی یافتہ قوموں کی طرح ہم بھی اقوام عالم میں سرخرو ہو سکیں ۔

الیکٹرونک مشین کے معاملے پر حکومت کو چاہئے کہ ایک مکمل سروے کروایا جائے اور اس کے مثبت اور منفی پہلوئوں پر غور کیا جائے، ووٹر کی تعلیمی قابلیت اور مشینوں کے بارے میں عادات کا جائزہ لیا جائے۔ ہمارے دیہات میں دور دراز علاقوں میں قائم پولنگ اسٹیشنز پر ان مشینوں کا استعمال کس طرح ممکن ہو گا جہاں پر کئی کئی گھنٹے بجلی دستیاب نہیں ہوتی؟ اس مشین کو ہینڈل کرنے کے لئے آئی ٹی کا علم رکھنے والا عملہ دستیاب ہو گا؟ موجودہ انتخابی مشینری میں اکثریت اسکولوں اور کالجوں کے عملے پر مشتمل ہوتی ہے جن میں سے اکثریت کمپیوٹر سے نابلد ہے۔

حکومت اس مسئلے کو انا کا مسئلہ نہ بنائے بلکہ بتدریج اس کے استعمال کو فروغ دے۔ اس کا استعمال شروع میں ضمنی انتخابات میں پائلٹ پروجیکٹ کے طور پر کرے۔ اس کی ورکنگ کو دیکھے نتائج کو جانچے اور اس میں بہتری لانے کی کوشش کرے۔ بتدریج کام کرنے سے لوگوں میں قبولیت کی شرح بہتر ہو گی۔ اس کے علاوہ بھی انتخابی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ امیدواروں کی تعلیمی قابلیت کی شرط مقرر کرنے کے بعد دوبارہ ردی کی ٹوکری کی نذر ہو گئی۔ سیاسی مصلحت کو قومی مفاد پر ترجیح نہیں دینی چاہئے۔ سیاستدانوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر بھی مقرر ہونی چاہئے۔ متناسب نمائندگی کی تجویز بھی زیر غور لائی جا سکتی ہے تاکہ انتخابی اخراجات میں کمی لائی جا سکے اور عوام کا جمہوریت پر یقین پختہ ہو سکے۔ جمہوری معاشرے کے قیام ہی میں ہماری بقا ہے جس کے لئے ہم سب کو مشترکہ کاوشیں کرنی ہوں گی ذاتی انا پر قومی مفاد کو ترجیح دینا ہو گی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین