کہنے کو تو شادی ایک ’’سوشل کنٹریکٹ‘‘ ہے، لیکن خیبر پختون خوا میں ہندو برادری سے تعلق رکھنے والی خواتین کے پاس شادی کی کوئی قانونی دستاویزات نہیں ہوتیں کہ جن میں وہ تمام شرائط درج ہوں، جن کے ذریعے وہ اپنے قانونی اور مالی حقوق حاصل کرسکیں۔ہر معاشرے میں طلاق ، جائیداد کی منتقلی اور وَراثت جیسے معاملات کے لیے سرکاری دستاویزی ثبوت کی ضرورت ہوتی ہے ، لیکن کے پی کے کی ہندو خواتین تاحا ل اس حق سے محروم ہیں۔ خیبرپختون خوا حکومت انسانی حقوق کے اس سنجیدہ مسئلے یعنی طلاق یا علیحدگی کی صورت میں ہندو خواتین کے قانونی اور مالی حقوق کے تحفّظ کے لیے وفاقی حکومت کےتشکیل دیئے گئے ’’ہندو میرج ایکٹ 2017ء‘‘ کے تحت قواعد وضع کرنے میں ناکام رہی ہے۔ جس کے باعث ہندو خواتین شادی کے معاملے میں عد م تحفّظ کے ساتھ دیگر کئی مسائل کابھی شکار ہیں۔ اس حوالے سے متاثرہ خواتین کی زندگی سے متعلق کہانیاں نذرِ قارئین ہیں۔
پچیس سالہ شہنیلہ تین بہنوں میں سب سے چھوٹی ہیں اور ان کا ایک بھائی ہے۔ شہنیلہ کا تعلق متوسط طبقے سے ہے۔ ایف اے کے بعد ہی ان کی شادی ہو گئی تھی، مگرشادی کے ایک سال کے اندر ہی سُسرال میں لڑائی جھگڑے شروع ہو گئے۔ اسی دوران ان کے ہاں بیٹے کی بھی پیدایش ہوئی، لیکن جھگڑے کم نہ ہوئے۔ بالآخر شنہیلہ ،بیٹے کو لے کر اپنے والدین کے گھر آگئیں، جہاں گزشتہ پانچ سال سےان کے بوڑھے اور معاشی طور پر کم زور والدین ان کا اور ان کے بیٹے کا تمام خرچہ اٹھانے پر مجبور ہیں۔ دوسری جانب، شہنیلہ کا خاوند اپنے بیٹے کی پرورش اور مالی ذمّے داریوں سے بالکل آزاد ہے کہ وہ جانتا ہے کہ مقامی قوانین کے مطابق شہنیلہ کے پاس طلاق لینے، علیحدگی اختیار کرنے اور بیٹے کے لیے نان نفقہ کے حصول کا کوئی قانونی راستہ موجود نہیں ۔
شہنیلہ ہی کی طرح کی کئی ہندو لڑکیاںاپنی شادی شدہ زندگی میں مسائل کا شکار ہونے، شوہر کے منشّیات وغیرہ کا عادی ہونے کے باوجودخاموش رہنے پر مجبور ہیں کہ ان کے پاس کوئی راستہ نہیں۔ شادی، طلاق اور خاندان کے دیگر معاملات عموماً مذہبی روایات سے منسلک ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں نافذ خاندانی معاملات کے قوانین مذہبی اقلیتوں پر نافذ نہیں ہوتے۔ ہندو برادری میں شادی کے معاملات کو قانونی دائرہ ٔکار میں لانے کے لیے پانچ سال قبل وفاقی حکومت نے قانون سازی کی تھی۔
تاہم، پانچ سال بعد بھی اس قانون کے نفاذ کے لیے رُولز آف بزنس اور پالیسی نہیں بن سکی، جس کے باعث درجنوں خواتین استحصالی کا شکار ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان کی رہائشی ، 23 سالہ سونا لی کو شادی کے دو سا ل بعد ہی شوہر نے بیٹے سمیت بے سہارا چھوڑ دیا۔ بھرّائی ہوئی آواز میں سونالی نے بتایاکہ ’’مَیں لوگوں کے گھروں میں کام کر کے اپنا اور اپنے بیٹے کاپیٹ پالتی ہوں۔ میرے شوہر نے شادی کے فورا ًبعد ہی مجھ پر جسمانی تشدّد شروع کردیا تھا اور سُسرال والوں نے بھی اس کا ساتھ دیا، اس کی وجہ یہ تھی کہ میرا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا اور مَیں جہیز میں قیمتی سامان لے کر نہیں گئی تھی ۔ کئی مرتبہ شوہر نے آدھی رات کو بھی مجھے مار پیٹ کرگھر سے باہر نکالنے کی کوشش کی، جب میرا صبر ختم ہوگیا ،تو مَیں اپنے والدین کے گھر آ گئی ۔ وہ تو میر ااور بچّے کا خرچہ تک نہیں اُٹھاتا، اِسی لیے مَیں نےلوگوں کے گھروں میں کام کاج شروع کر دیا ہے۔ میری علیحدگی کو دوسال ہو چُکے ہیں اور اس عرصے میں شوہر نےمجھےایک پیسابھی نہیں دیا۔
ہندو خواتین کو شادی کے دستاویزی ثبوت اور دیگر معاملات کے حل کے لیے قومی اسمبلی نے 26ستمبر 2015 ءکو متعلقہ بل منظور کیا تھا، جس کے دو سال بعد2 جنوری کوسینیٹ میں بھی یہ بِل متفقّہ طور پر ’’ ہندو میرج ایکٹ 2017 ء ‘ ‘کے نام سے منظور کرلیا گیا ۔اس قانون سے بنیادی طور پر ہندو خواتین کو ان کی شادی کا دستاویزی ثبوت لینے میں مدد ملے گی۔ یہ پاکستانی ہندوؤں کے لیے پہلا ذاتی قانون تھا، جسے پنجاب ، بلوچستان اور خیبر پختون خوا نے بھی اپنایا ۔
اس قانون کا تعلق شادی ، شادی کی رجسٹریشن ، علیحدگی اور دوبارہ شادی سے ہے۔ قانون میں ہندو لڑکوں، لڑکیوں کے لیے شادی کی کم سےکم عُمر 18سال مقررکی گئی ہے۔ قانون پاس ہونے کے بعد جبری یا زبردستی شادی جیسے مسائل کی حوصلہ شکنی ہو گی اور ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے مرد و خواتین کو قانونی دستاویز ’’شادی پراٹھ‘‘فراہم کیا جا سکے گا ، جو نکاح نامے ہی کی طرح ہوگا ۔ اس دستاویز کو پنڈت کے دستخط کے بعد سرکاری محکموں، جیسے نادرا میں جمع کروایا جائے گا۔ تاہم، مذکورہ قانون کے یہ تمام فوائد تب ہی حاصل ہوسکیں گے، جب قانون کے رُولز آف بزنس بنا ئے جائیں اور اسے باقاعدہ طور پر نافذ کیا جائے۔
پا کستان کے آئین میں اٹھارویں ترمیم کے بعد خیبر پختون خوا سمیت تمام صوبوں کو یہ اختیار حاصل ہےکہ وہ ا پنے صو بے کے حالات کے مطابق قانون سازی کر سکتے ہیں،جس کے بعد سندھ اسمبلی نے ہندو برادری کے لیے شادی سے متعلق قانون سازی کی اور’’ ہندو میرج ترمیمی ایکٹ 2018 ء‘‘ پاس کیا۔ پہلے بِل کے متن کے مطابق ہندو مذہب کی بیوہ خواتین کو شوہر کی وفات کے بعد دوسری شادی کا حق نہ تھا، لیکن ’’ہندو میرج ایکٹ 2018 ء‘‘ کے تحت اب بیوہ عورت کو دوسری شادی کا اختیار دیا گیا ہے۔
قانون یہ کہتا ہے کہ’’ ہندو عورت اگر اپنے شوہر کے ساتھ خوش نہیں ہے یا اگر وہ اس کی ضروریات پوری نہیں کرسکتا، تو بیوی اس سے علیحدگی اختیار کر سکتی ہے ۔اس کے علاوہ اگر عورت اور مرد چاہیں تو باہمی رضا مندی سے بھی علیحدہ ہوسکتے ہیں ۔‘‘ ہندو میرج بِل 2017ءکے مطابق اگر ہندو مرد اپنی پہلی بیوی کو بتائے بغیر دوسری شادی کرلے، تواسے 6ماہ کی سزا اور 5 ہزار روپےجرمانہ ادا کرنا ہوگا۔ علاوہ ازیں، علیحدگی کی صورت میں مرد کو اپنے بچّوں کا خرچہ ادا کرنا ہوگا ۔ تاہم، خیبر پختون خواحکومت نے ہندو میرج کے حوالے سے کسی قسم کی کوئی قانون سازی نہیں کی، بلکہ وفاقی قانون ہی کو صوبے میں نافذکر لیاہے۔
یہی وجہ ہے کہ رُولز کے نہ ہونے کے سبب 5سال گزرنے کے باوجود اس پر کوئی عمل درآ ٓمد نہیں ہو سکا۔’’قانون کا نفاذ نہ ہونے کے سبب ہندو خواتین کس طرح استحصال کا شکار ہوتی ہیں؟‘‘ہم نے یہ سوال پوچھا ،تو راجپوت ویلفیئر سوسائٹی کے جنرل سیکرٹری وِشال کا کہنا تھا کہ ’’ہمارے یہاں ہندو خواتین شادی کے معاملے میں غیر محفوظ ہونے کے باعث استحصالی رویّوںکا شکار ہو جاتی ہیں کہ ان کے پاس شادی بیاہ سے متعلق کسی قسم کی دستاویزات موجود نہیں ہوتیں۔ لہٰذا اختلافات کی صُور ت میں انہیںنان نفقے کی طرز پر کوئی مالی تحفّظ حاصل نہیں ہو پاتا۔
شوہر بھی اس حوالے سے لاپروا رہتا ہے کہ اسے کسی قسم کی سزا یا معاشی اخراجات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا اور اس وجہ سے اکثر لڑکیوں،ان کےبچّوں اور والدین ہی کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ کس بنیاد پر، کون سی دستاویز لے کر عدالت جائیں۔ اب وہ زمانہ توہےنہیں کہ جرگوں میں فیصلے ہوں، جب کہ عدالتوں میں بنا ثبوت کے فیصلے نہیں ہوتے۔ یہاں تک کہ شادی کے وقت باقاعدہ دستاویزات نہ بنوانے کی وجہ سےہندو لڑکیوں کو شوہر کے نام سے شناختی کارڈ بنوانے تک میں بھی بہت سے مسائل پیش آتے ہیں۔ سو، ہمارا مطالبہ ہے کہ اگر خیبر پختون خوا میں ہندو میرج ایکٹ نہیں بنایا جا تا، تو کم از کم وفاقی قانون کا نفاذ جلد از جلد کیا جائے، تا کہ ہندو خواتین کوتحفّظ حاصل ہو سکے اور جبری شادیوں کی بھی روک تھام ممکن ہو۔ ‘‘
اس حوالے سے کمیشن برائے وقارِ نسواں ،خیبر پختون خوا کی چیئرپرسن، ڈاکٹر رفعت سردار اور ڈائریکٹر ،آمنہ درّانی کا کہنا ہےکہ’’ ہندو خواتین کو شادی کے معاملات میں تحفّظ فراہم کرنے کے ضمن میں ہندو میرج ایکٹ پر عمل درآمد اور خیبر پختون خوا میں متعلقہ قانون سازی یا پھر رُولز آف بزنس بنانے کے لیے 2018ءمیں ایک کمیشن نے کام شروع کیا تھا۔ تنسیخِ شادی یا طلاق کے حوالے سے یہ نکتہ زیرِ غور تھا کہ قانوناً شوہر صرف ایک صُورت میں بیوی کو طلاق دے کر علیحدگی اختیار کر سکتا ہے کہ اگر وہ یہ ثابت کردے کہ اس کی بیوی بد کردار ہے اوراس کے دو گواہان بھی پیش کرے۔ لیکن چوں کہ یہ ایک متعصبا نہ شق تھی، تواس پر جب کمیشن نے ہندوبرادری کے مکتبۂ فکر سے مشاورت کی۔ جواباً ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے وہ قانون میں تبدیلی لانا چاہ رہے ہیں۔ مگر پھر تبدیلی کے عمل میں ہندو کمیونٹی ہی کی طرف سے مزاحمت کی گئی ۔ برادری کے لوگ اس حوالے سے زیادہ بات نہیں کرنا چاہتے تھےکہ یہ ان کامذہبی معاملہ تھا۔ ‘‘
ہندو برادری سے تعلق رکھنے والی سماجی کارکن اور کمیشن برائے وقار ِنسواں، خیبر پختون خوا کے ضلع پشاور کی ممبر ،مالاکماری کا اس سےمتعلق کہنا ہے کہ’’ ہندو میرج ایکٹ کےعدم نفاذ سے ہم مسلسل اذیّت کا شکار ہیں اور متعدّد تکالیف برداشت کر رہے ہیں ۔ ہماری شادیوں کی ر جسٹریشن کا کوئی قانونی طریقہ نہ ہونے کے کئی نقصانات ہیں۔ ‘‘مالا کماری نے مزید بتایا کہ ’’میرے والد ایف سی میں کلاس فور ملازم تھے۔ چوں کہ اُس وقت شادی شدہ اقلیتی ملازمین کو میرج الاؤنس دیا جاتا تھا، جس سے راشن وصول کیا جا سکتا تھا۔ جب کہ صرف مسیحی برادری ہی کی شادیاں رجسٹر ہوتی تھیں، تو مجبوراً غریب کلاس کےفور ملازمین راشن الاؤنس کے لیے چرچ سے میرج سرٹیفیکیٹ حاصل کر لیتے تھے۔
میرے والد کو بھی راشن کے حصول کے لیے خود کو مسیحی ظاہر کرنا پڑا۔حالاں کہ ہم پیدائشی اور خاندانی طور پر ہندو ہیں، لیکن میرے والد کے شناختی کارڈ اور میرج سرٹیفیکیٹ پر اُن کی شناخت مسیحی کی حیثیت سے ہے۔ اب ہم 20سال سے اپنے والد کا شناختی کارڈ درست کروانے کے لیے دھکّے کھا رہے ہیں، جو اپنے آپ میں ایک کوفت اور ذہنی اذیت ہے، مگر ہنوز ناکام ہیں۔ ہندو میرج ایکٹ نا فذ نہ ہونے یا اس کے رُولز آف بزنس نہ ہونے سےہماری برادری کوطلاق، شادی، بچّوں کی حوالگی، دوسری شادی اور شناختی کارڈز وغیرہ بنوانے سمیت ان گنت مسائل کا سامنا ہے۔‘‘
وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا کے مشیر برائے اقلیتی امور ،وزیر زادہ سے اس ضمن میں بات چیت کی گئی ، تو اُن کا کہنا تھا کہ ’’خیبر پختون خوا نے باقاعدہ مرکز کو تحریری اختیار دیا ہےکہ وہ جو بھی قانون سازی کرے، ہم اسی کی پیروی کریں گے اور اپنے صوبے پر لاگو کریں گے۔ اس وجہ سے ہم نے اپنا قانون بنانے کی ضرورت محسوس نہیں کی، جب کہ وفاق کے ’’قانون برائے ہندو ‘‘شادی پر عمل در آمد کرنے اور اسے نافذ کرنے کے لیے رُولز آف بزنس بنانے کی غرض سے حکومت نے ایک کمیٹی بھی بنائی ہے، جو ہندو مذہب کے احکامات اور ہدایات کے مطابق مشاورت اور تجاویز اکٹھی کر رہے ہیں۔ اس کمیٹی میں ہندو مہاراج پنڈت، غیر سرکاری سماجی تنظیموں کے نمایندے اور قانون دان شامل ہیں ، جیسے ہی ان کی طرف سے ہمیں مجوّزہ رُولز آف بزنس کی تفصیل ملے گی ،کابینہ سے منظور کر واکے اسے نافذ کر دیں گے۔‘‘
وزیر زادہ نے مزید کہا کہ ’’پالیسی اور رُولز آف بزنس پر کام کافی حد تک مکمل ہو چُکا ہےبلکہ تکمیل کے آخری مراحل میں ہے، جس سے ہندو خواتین کو کافی حد تک تحفّظ حاصل ہو جائے گا اور ان کے معاشرتی و معاشی حالات بھی بہتر ہوں گے ۔‘‘خیبر پختون خوا میں پریکٹسینگ ایڈووکیٹ، شہزاد بھٹی کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ’’ ایسا بھی ہوتا ہےکہ ہندو شادی سے متعلق قانون نہ ہو نے کے باعث گھر سے بھاگ کر شادی کرنے والے جوڑے مسلم فیملی لاز کا سہارا لے لیتےہیں، یعنی اپنی مرضی کی شادی کرنے کے لیے مذہب تبدیل کر لیتےہیں، کیوں کہ کوئی پنڈت یا پادری اس طرح شادی کروانے کا مجاز نہیں ہوتا۔
اسی طرح کا ایک واقعہ بنّوں میں پیش آیا تھا ،جب اٹک کی مسیحی لڑکی نے ہندو لڑکے سے شادی کے لیے مذہب تبدیل کیا اور پھر مسلم فیملی لاء کے تحت کورٹ میرج کر لی۔ اگر ہندو میرج ایکٹ کا نفاذ ہوجاتا ہے، تواقلیتی برادری کی شادیوں کی رجسٹریشن ہو سکے گی اور نوجوان لڑکے لڑکیوں کوا اپنی مرضی کی شادی کے لیے مذہب کی تبدیلی کا سہارا نہیں لینا پڑے گا، جو بعد ازاں کئی مسائل اور غلط فہمیوں کا سبب بنتے ہیں۔‘‘
رتن ناتھ ہشت نگری مندر کے پنڈت سے موضوع کی مناسبت سے بات چیت کی گئی تو اُن کا کہنا تھا کہ ’’ ہندو مذہب میں بھی فرقے ہیں، جیسے برہمن شرما، راجپوت، ذات کھتری، شودر، بالیمک وغیرہ ۔ برہمن فرقے میں طلاق کاکوئی تصوّر نہیں کہ جس لڑکی سے شادی ہو، زندگی بھر اسی کے ساتھ رہنا ہوتا ہے۔ تاہم، ہندو مذہب کے بعض دوسرے فرقوں میں یہ معاملات چل رہے ہیں جن میں طلاق اور دوسری، تیسری شادیاں بھی ہو رہی ہیں۔ ہندو میرج ایکٹ کے نفاذ یا شادی بیاہ سے متعلق قانون سازی پر ہمیں اعتراض نہیں ،لیکن فیصلے انصاف کے تحت ہی ہونے چاہئیں۔
امیر، غریب کا کوئی فرق نہ ہو اور ساری قانون سازی ہمارے مذہبی احکامات کے مطابق ہو۔‘‘’’ہندو میرج ایکٹ 2017 ء‘‘کے حوالے سے ان کا کہناہے کہ ’’اس وفاقی قانون کے رُولز بن جانے اور طریقۂ کار وضع ہو جا نے سے فیصلے عدالت میں ہوں گے، جرگہ سسٹم ختم ہو جائے گا۔ اس طرح لوگوں کے پاس مختلف آپشنز آ جا ئیں گے۔ مگر قوی اُمید ہے، کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں ہو گی ۔اور جن فرقوں میں طلاق یا دوسری شادی کی مذہبی طور پر اجازت ہے، وہ اپنے اختلافات کے دوران نان نفقے کی طرح کے معاملات بھی طے کر سکیں گے۔ پاکستان ہماری دھرتی ماں ہے کہ ہم نے یہیں جنم لیا اور ہمیں یقین ہے کہ ہمارے مذہبی احکامات کے مطابق قانون سازی ہی سے ہندو خواتین کو مکمل تحفّظ مل پائے گا اور کسی بھی فریق کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہوگی۔‘‘