Bruce Riedelکا شمار امریکہ کے ممتاز ترین عسکری ماہرین میں ہوتا ہے۔ 30سال تک سی آئی اے سے وابستہ رہے، Brookings Institutionکے سینئر فیلو اور ڈائریکٹر ہیں، جارج ڈبلیو بش اور باراک اوباما سمیت امریکہ کے چار صدور کے مشیر برائے جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ رہ چکے ہیں، وہ اپنی تحقیقی تصنیف What We Won, America's Secret War in Afghanistan 1979-89 میں لکھتے ہیں کہ 2012میں ان کو خود ’’را‘‘ کے دو افسروں نے بتایا کہ اوجڑی کیمپ کو ’’را‘‘ نے تباہ کیا تھا تاکہ آئی ایس آئی کو جہاد کشمیر کی پشت پناہی کی سزا دی جائے۔ اِنہی یادداشتوں میں Bruce Riedelنے یہ بھی لکھا کہ ’’امریکہ کو جنیوا معاہدہ پر دستخط کرانے کی جلدی اس لئے بھی تھی کہ اگر افغانستان میں جنرل ضیاء الحق اور جنرل اختر عبدالرحمٰن کی مرضی کی افغان حکومت قائم ہو گئی تو اِن دونوں جرنیلوں کا اگلا محاذ مقبوضہ کشمیر ہوگا‘‘۔ بروس رائیڈل نے مزید بھی کچھ ایسے شواہد دیے ہیں جن سے منکشف ہوتا ہے کہ اُس زمانہ میں جب 1988میں افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف افغان حریت پسندوں کی فتح سے حوصلہ پا کر کشمیر میں کشمیری حریت پسندوں کی تحریک میں جو تیزی آ گئی تھی، اس سے بھارت کتنا حواس باختہ ہو چکا تھا۔حقیقتاً سوویت یونین کے خلاف افغانیوں کی جدوجہد آزادی کی کامیابی نے کشمیریوں کو بھی تازہ ولولہ بخشا تھا۔ جنرل اختر عبدالرحمٰن، جنہوں نے سوویت یونین کیخلاف افغان مجاہدین کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کیا تھا، اُنکی کشمیر اور اہلِ کشمیر سے وابستگی بہت پرانی تھی۔ اُنکی سوچ یہ تھی کہ کشمیری حریت پسند بھی افغان حریت پسندوں کی طرز پر جدوجہد کریں اور ان کی یہ سوچ قائداعظم کے اس حکم سے مطابقت رکھتی تھی جس میں انہوں نے اپنے آخری ایام میں فوج کے اُس وقت کے انگریز کمانڈر جنرل گریسی کو کشمیریوں کی براہ راست مدد کرنے اور انکو بھارت کے پنجہ استبداد سے نجات دلانے کے احکامات صادر کیے تھے۔فوجی زندگی میں کشمیر اُن کی پہلی محبت تھا۔ سیکنڈ لیفٹیننٹ کے عہدے پر ترقی پانے کے کچھ ہی عرصہ بعد کوہالہ کے پل پر ان کی ڈیوٹی لگائی گئی، جہاں انہیں سرحد پار ڈوگرہ فوج کی چوکی کی مانیٹرنگ کرنا تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کشمیر میں جنگ آزادی کا آغاز ہو چکا تھا اور ایبٹ آباد اور مری کے راستے حریت پسندوں کے لشکر رات کی تاریکی میں کشمیر پہنچ رہے تھے۔ انگریز کمانڈر انچیف اور بریگیڈئر ہیڈ کوارٹر کے انگریز افسر کی طرف سے حکم تھا کہ قبائلیوں کو کشمیر میں داخل نہ ہونے دیا جائے۔ نوجوان سیکنڈ لیفٹیننٹ اختر کی سوچ مگر یہ تھی کہ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کے اس نازک موڑ پر مظلوم کشمیریوں کی مدد پاکستان پر واجب ہو چکی ہے۔ اس ضمن میں بانی پاکستان قائداعظم کی واضح ہدایات بھی مسلمان نوجوان افسروں کے علم میں تھیں۔ لہٰذا انگریز افسروں کے احکامات کے باوجود اختر عبدالرحمٰن نے اپنے زیر نگرانی علاقہ میں کشمیری مجاہدین کو ہر طرح سے سہولت فراہم کی۔ 1948ء میں کشمیر کے محاذ پر اختر عبدالرحمٰن کی پہلی کامیابی ’’پانڈو مشن‘‘ تھا۔ پانڈو ٹیکری کی اونچائی 10ہزار فٹ کے لگ بھگ تھی۔ دشمن کی نفری بہت زیادہ تھی۔ اختر عبدالرحمٰن ٹیکری کے عقب میں جا پہنچے اور دشمن پر اچانک حملہ کر دیا۔ یہ لڑائی مسلسل چوبیس گھنٹے تک جاری رہی۔ اِس دوران یہ افواہ پھیل گئی کہ اختر عبدالرحمٰن شہید ہو گئے ہیں۔ لڑائی ختم ہوئی تو پانڈو ٹیکری دشمن کی لاشوں سے اٹ چکی تھی اور 10ہزار فٹ کی بلندی پر پاکستان کا پرچم لہرا رہا تھا۔ 17اگست 1988ءکو شہادت سے تقریباً ایک مہینے پہلے جنرل اختر عبدالرحمٰن نے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف کمیٹی کی حیثیت سے بلوچ سینٹر ایبٹ آباد کا دورہ کیا تو اپنی کشمیر مشن کی یادوں کو اس طرح تازہ کیا: ’’پانڈو ٹیکری کو میں نے فتح کیا۔ یہ حملہ بالکل مختلف قسم کا تھا۔ بلوچ ایف ڈی ایل بٹالین تھی۔ ہم نے عقب سے حملہ کیا۔ چوبیس گھنٹے لڑائی چلتی رہی۔ آج پانڈو ٹیکری ہمارے پاس ہے۔ کچھ عرصہ بعد 163بریگیڈ کا سکھ کمانڈر مجھے برطانیہ میں ملا اور اس معرکے میں شامل میرے جوانوں کی مہارت اور جرات کی بہت تعریف کی۔ میں بلوچ رجمنٹ کی کارکردگی کا چشم دید گواہ ہوں اور اسکو سلام پیش کرتا ہوں‘‘۔ آزاد کشمیر میں 1973ء سے 1974ءتک انفنٹری بریگیڈ اور 1974ءسے 1975ء تک انفنٹری ڈویژن کی کمان کا دور بھی اختر عبدالرحمٰن کی فوجی زندگی کا یادگار دور ہے۔ اس عرصہ میں انہوں نے آزاد کشمیر کے دفاع اور جنگ کی صورت میں مقبوضہ کشمیر کی طرف برق رفتاری سے پیش قدمی کی حکمت عملی پر کام کیا۔ اپنے زیر کمان علاقے کی ایک ایک انچ زمین کا پیدل جائزہ لیا۔ اُن کی زیر کمان پورا بریگیڈ دشمن کیلئے آہنی دیوار بنا ہوا تھا اور مختصر ترین وقت میں دشمن کو سبق سکھانے کیلئے ہر وقت تیار رہتا تھا۔قدرت نے جنرل اختر کی قسمت میں اپنے جنگی جوہر دکھانے کیلئے جہاد افغانستان کا محاذ لکھ رکھا تھا مگر آج مغرب کے عسکری ماہرین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ افغانستان میں سوویت یونین کی شکست کے نتیجہ میں مقبوضہ کشمیر میں جنگ آزادی کو مہمیز ملی بلکہ یہ مسئلہ عالمی توجہ کا مرکز بن گیا۔ اس پس منظر میں یہ سمجھنا مشکل نہیں رہتا کشمیر کی جدوجہد آزادی اور کشمیری حریت پسندوں کا راستہ روکنے کیلئے ہی ایک سازش کے تحت اوجڑی کیمپ کو دھماکہ سے اڑایا گیا، جنیوا معاہدہ پر پاکستان سے دستخط کرائے گئے اور اسکے بعد 17اگست 1988ءکو جنرل ضیاء الحق اور جنرل اختر عبدالرحمٰن کو شہید کرکے کشمیر کی جدوجہد آزادی کے مستقبل پر بہت کاری ضرب لگائی گئی۔ اس میں شک نہیں کہ اگر جنرل ضیاء الحق اور جنرل اختر عبدالرحمٰن کو کچھ اور مہلت مل جاتی تو کشمیر کی جدوجہد آزادی آج اپنی منزل مقصود تک پہنچ چکی ہوتی اور شاید قائداعظم کا کشمیر کو پاکستان کا حصہ بنانے کا خواب پورا ہو چکا ہوتا اورWhat We Won میں Bruce Riedelنے یہ جو لکھا ہے کہ ’’آج اس مفروضہ پر بات کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ اگر جنرل ضیاء الحق اور جنرل اختر عبدالرحمٰن زندہرہتے تو اس کے بعد کی اس خطہ کی تاریخ کتنی مختلف ہو سکتی تھی‘‘ وہ صرف مفروضہ نہ رہتا بلکہ حقیقت کا روپ دھار چکا ہوتا۔