• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
رمضان المبارک کا پہلاجمعہ‘ مسجد نمازیوں سے کچھا کھچ بھری تھی‘ عالی مرتبت خطیب کا وعظ جاری تھا‘ روزہ کی فضیلت و اہمیت پر ایمان افروز گفتگو۔ روزہ خوروں کے لئے سخت ترین وعید اور دردناک انجام کا ذکر‘ میرے ساتھ بیٹھا ایک خوش شکل شخص سنتا جاتا اور روتا جاتا۔ میں نے سوچا زُہد و تقویٰ اور خشیت کے آنسو ہوں گے۔ نماز ختم ہوئی تو مسجد کمیٹی کی چندہ مہم شروع ہونے سے پہلے وہ شخص کھڑا ہو گیا‘ رقت بھری آواز آئی‘ روزہ دارو‘ تمہاری بھوک اختیاری ہے مگر میرا فاقہ اضطراری ہے‘ کوئی ہے جو میرے بھوکے بچوں کے لئے طعام کا بندوبست کر کے جنت خرید لے… ایک آدھ جملہ ہی مکمل ہوا تھا کہ اس حاجت مند کی آواز غرور تقویٰ کا شکار نیکو کاروں کی لعن طعن میں دب گئی۔ کسی نے حقارت سے کہا‘ شرم نہیں آتی اچھا خاصا صحت مند ہو کر ہاتھ پھیلاتا ہے‘ کہیں سے آواز آئی مسجد کا ہی لحاظ کر لو‘ اللہ کے گھر کا تقدس پامال نہ کرو‘ خطیب مسجد نے گرجدار آواز میں کہا‘ تم نے نوٹس بورڈ پر پڑھا نہیں کہ یہاں کسی قسم کی اپیل کرنا منع ہے‘ باہر جا کر مانگو… وہ شخص مسجد کے باہر فقیروں کے جھرمٹ میں کھڑا ہو گیا۔ ایک شخص نے اس کی ہتھیلی پر 20 روپے کا نوٹ رکھتے ہوئے نصیحت کی‘ برخوردار! مسجد کے آداب ملحوظ خاطر رکھا کرو… میں نے اس کی خاموش نگاہوں کا تعاقب کیا تو یوں لگا جیسے کہہ رہی ہوں او عقل کے اندھو! بھوک تہذیب کے آداب بھُلا دیتی ہے… بھیک دینے والوں کی تو کوئی کمی نہ تھی لیکن کسی کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ مانگنے والوں کو اپنے قیمتی وقت میں سے چند لمحے عنایت کر کے ان کی داستان غم و الم ہی سن لے ۔ ہم تو جذبہٴ ایمانی سے سرشار ہو کر روزہ رکھتے ہیں‘ جنت کے لالچ میں دن بھر بھوکے پیاسے رہتے ہیں مگر افلاس کے مارے وہ لوگ جو سال بھر فاقے کرنے پر مجبور رہیں ان کی روزہ کشائی اور حاجت روائی کون کرے گا؟
میرے ملک میں اعلائے کلمة اللہ کی جدوجہد کرنے والے بہت ہیں بارود والے بھی ہیں اور درود والے بھی ‘یہاں تک کہ بم بارود کے مقابلے میں دم والوں کی بھی کوئی کمی نہیں۔ تحریکیں‘ جماعتیں ‘سپاہ اور لشکر اس غم میں گھلے جا رہے ہیں کہ کیسے ہر انسان کو جہنم کا ایندھن بننے سے بچا لیا جائے مگر دوزخ کی آگ سے ڈرانے والے پیٹ کی آگ کو کیوں بھول جاتے ہیں‘ یہ بات سمجھ نہیں آتی۔ دوسرا عشرہ شروع ہوتے ہی افطار پارٹیوں کا سلسلہ شروع ہو جائے گا دنیا داروں کی طرح دیندار لوگ بھی معاشرے کے چیدہ چیدہ بااثر لوگوں کو مدعو کریں گے اور انواع و اقسام کے کھانوں سے تواضع کی جائے گی۔ میں دیوانہ اس وقت کا منتظر ہوں جب منصورہ میں جماعت اسلامی کے امیر منور حسن کی جانب سے افطار ڈنر ہو اور ملتان روڈ کی جھگیوں میں مقیم بھوکوں ننگوں کو مدعو کیا جائے۔ میں یہ خواب دیکھتا ہوں کہ مرکز القادسیہ لاہور میں پُرتکلف عشائیے کا اہتمام ہو اور اس میں پردیسیوں اور مزدوروں کو کھاناکھلایا جائے جو اپنی راتیں فٹ پاتھ پر بسر کرتے ہیں۔ علامہ ساجد میر‘ ابتسام الٰہی ظہیر‘ ثروت اعجاز قادری‘ مولانا فضل الرحمن‘ سمیع الحق اور دیگر مذہبی رہنما ”اسلامی انقلاب“ کی جدوجہد ترک کر کے ایک مہینہ بھوک و ننگ کے خلاف جہاد کے لئے وقف کر دیں۔
دعوت الی اللہ کی پُرامن اور بے ضرر جدوجہد میں دو جماعتیں سب سے آگے ہیں۔ رائے ونڈ لاہور کی تبلیغی جماعت جس کے امیر تو حاجی عبدالوہاب ہیں مگر عوامی حلقوں میں مولانا طارق جمیل زیادہ معروف ہیں۔ دعوت و تبلیغ کے کام میں دوسرا نام مولانا الیاس قادری کی دعوت اسلامی کا ہے۔ نہایت خلوص‘ بردباری اور استقامت کے ساتھ لوگوں کو راہ راست پر لانے کے لئے کوشاں ان داعیان اسلام کے کئی اوصاف قابل تعریف ہیں مثلاً یہ کوئی اختلافی بات نہیں کرتے‘ مسلکی بحث نہیں چھیڑتے‘ طنزو استہزاء پر بدمزہ ہوتے ہیں نہ اپنے کام سے باز آتے ہیں۔ یہاں تک کہ گالیاں سن کر بھی طیش میں نہیں آتے اور دعائیں دیتے رہتے ہیں۔ اللہ سے سب کچھ ہونے اور مخلوق سے کچھ نہ ہونے کا یقین پیدا کرنے کی جستجو میں مگن ان مبلغین اسلام کو صرف ایک ہی فکر کھائے جاتی ہے کہ کسی طرح دنیا کی لذتوں میں بھٹکے ہوئے لوگ اپنی آخرت سنوارنے کے لئے راہ راست پر آ جائیں۔ ان کی دل آویز گفتگو ذکر واذکار کی فضیلت سے معمور ‘حورو غلمان اور بہشت کی دیگر نعمتوں سے بھرپور ہوتی ہیں۔ فیضان مدینہ کراچی اور تبلیغی مرکز رائے ونڈ سے مختلف ٹیمیں تشکیل پاتی ہیں جو ملک بھر میں دعوت و تبلیغ کا پیغام لے کر جاتی ہیں مگر میں گناہ گار اس خواب پریشان میں الجھا رہتا ہوں کہ وہ ملک جہاں 60 فیصد افراد غربت کی لکیر سے نیچے حشرات الارض کی طرح زندگی گزار رہے ہوں یعنی 18کروڑ میں سے تقریباً10 کروڑ افراد یومیہ 200 روپے یا ماہانہ 6000روپے کمانے سے قاصر ہوں وہاں تہذیب کے آداب سکھانے اور خوف خدا دلانے کے لئے تبلیغی وفود تشکیل دینے کی ضرورت ہے؟؟ جب میں کسی مسجد میں مدرس کو یہ کہتے سنتا ہوں کہ تمہارا پڑوسی‘ تمہارا ہمسایہ نماز نہیں پڑھتا‘ روزہ نہیں رکھتا اور تم اسے خواب غفلت سے جگانے کے لئے آگے نہیں بڑھتے تو تم سے باز پرس ہوگی‘ تو میرے دل و دماغ کی کشمکش اور بڑھ جاتی ہے اور سوچتا ہوں مسلمانوں کا وہ رب کس قدر بااختیار اور طاقتور ہے جس نے روزہ رکھنے کا حکم دیا ہے اس کی خوشنودی کا تو اس قدر خیال ہے کہ پیاس سے گلہ چٹخ جاتا ہے‘ ہونٹ خشک پتوں کی طرح سوکھتے جاتے ہیں مگر کوئی مسلمان پانی کی ایک بوند تک حلق سے نہیں اُتارتا لیکن مسلمانوں کا وہ خدا کس قدر بے اختیار اور کمزور ہے جس نے مسلمانوں کو انسانیت کا درس دیتے ہوئے بھوکوں کو کھانا کھلانے اور ضرورت مندوں کی حاجتیں پوری کرنے کا حکم دیا ہے یا الٰہی‘ مسلمان تو ایک رب کو ماننے والے ہیں پھر یہ تضاد کیوں؟
وارثان ممبر و محراب سے نماز کی تلقین‘ روزے کی تکرار اور ذکر و اذکار کا اصرار سنتا ہوں تو مجھے راولپنڈی کے گاوٴں بچہ کلاں کے وہ 500 محنت کش یاد آتے ہیں جو غربت سے تنگ آ کر اپنے گردے بیچ چکے ہیں۔ واعظان قوم کی نصیحت آموز باتیں تو اب بھی دل لبھاتی ہیں مگر لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجئے۔ نور بشر کی بحث میں الجھتے علماء کے دلائل سُنتا ہوں تو مجھے فیصل آباد کا مزدور محمد قاسم یاد آ جاتا ہے جس نے گزشتہ ماہ فاقوں سے تنگ آ کر اپنے پانچ بچوں اور بیوی کو قتل کر کے خود کشی کر لی۔ گاہے خیال آتا ہے کہ اس ملک کی نصف آبادی کو ایک وقت کا کھانا میسر نہیں پھر خبر ملتی ہے کہ لاہور میں کئی ہزار بچیاں غربت سے تنگ آ کر جسم فروشی کے اڈوں پر جا پہنچی ہیں۔ ایسے میں واعظ سے رسم و راہ کرنے کے بجائے فیض کے دل فگار اشعار یاد آتے ہیں
جا بجا بکتے ہوئے کوچہ و بازار میں جسم
خاک میں تھڑے ہوئے خون میں نہلائے ہوئے
لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجئے
مارٹن لوتھر کنگ نے کہا تھا iI Have a dream میرا بھی ایک خواب ہے، میں جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھتا ہوں کہ کسی روز باریش داعیان اسلام کے قافلے جوق در جوق نکلیں‘ حاجت مندوں اور غریبوں کے دروازوں پر دستک دیں اور کہیں‘ اللہ کے بندو ہمارامال و اسباب لے لو اور بدلے میں جنت دے دو۔ میرا ایک خواب ہے ‘جمعہ کے خطبہ میں واعظان قوم کے انداز گفتگو سے یہ درد جھلک رہا ہو کہ تمہارے قرب و جوار میں کوئی غریب بھوکا سو گیا‘ کسی بچے کو دودھ نہ ملا توتمہارا روزہ بے کار ہے‘ تمہاری تراویح کسی کام کی نہیں۔ کراچی کے فیضان مدینہ مرکز سے ایسے افراد کی تشکیل ہو جو خاران ‘ لسبیلہ‘ سبی‘ روجھان اور کشمور جا کر پانی کے کنویں کھدوائیں‘ میڈیکل کیمپ لگائیں۔ رائے ونڈ کے تبلیغی مرکز سے حاجت روائی و مشکل کشائی کے لئے قافلے ترتیب دیئے جائیں۔ منصورہ اور مرکز القادسیہ والے بھوک و ننگ ختم کرنے میں تمام فلاحی اداروں اور این جی اوز پر سبقت لے جائیں،کیا یہ خواب کبھی پُورا ہوگا؟؟
تازہ ترین