• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرے اکثر قریبی دوست مجھے اکھڑ مزاج آدمی سمجھتے ہیں، اُن کا کہنا ہے کہ میں جاری زمانے کی مستعمل ہو چکی روایات کے مطابق نہیں چلتا۔ زندگی گزارنے کے جو گُر ہمارا پاکستانی معاشرہ سکھا اور عملی طور پر بتا رہا ہے، میں اُس حساب کتاب کو کیوں نہیں مانتا، میں کیوں اس حقیقت کو نہیں سمجھنا چاہتا کہ اگر میں معاشرے کے حساب یا اس کے طے کئے گئے پیمانے کے مطابق نہیں چلوں گا تو زندگی کی دوڑ میں کہیں پیچھے رہ جائوں گا۔ زمانے کے رنگ میں خود کو رنگ لینے والے میرے یہ کرم فرما مجھے بتاتے ہیں کہ تمہارے لئے قطعاً ضروری نہیں ہے کہ تمہارے حساب سے جو چیز غلط ہے اُس کے ناقد بنو، میڈیا پر شور مچاؤ، کالم لکھو یا نجی محفلوں میں اخلاقیات کے ڈونگرے پیٹو، اُن کا ماننا ہے کہ چپ رہنے اور جی حضوری کی پالیسی میں جان کی امان بھی ہے اور معاشی معاملات بھی خوش اسلوبی سے رواں رہتے ہیں۔ میں جب ’’ضمیر‘‘ کی بات کرتا ہوں تو مجھے میرا کچن بند ہونے کے تصور سے ڈراتے ہیں، میں جب اُنہیں خدا کے رازق ہونے کی دلیل دیتا ہوں کہ زندگی و موت، جزا و سزا، عزت و ذلت، دولت و شہرت تو اسی کے ہاتھ میں ہے، تو زچ ہو کر یہ دوست مجھے پھر اکھڑ مزاج، ضدی ہونے کا طعنہ دے کر ہوا کے رخ کو سمجھنے کی تلقین کرتے ہیں اور کتابوں میں بتائی گئی سچائیوں سے نکال کر حقیقی زندگی کو جان کر چلنے کی نصیحت کرتے ہیں۔ اِس کا مطلب تو یہ ہوا کہ معاشرے میں جو بھی غلط ملط ہو رہا ہے اس پر آنکھیں موند لی جائیں اور وہی لکھا یا بولا جائے جو معاشرہ یا اُس پر اثر انداز ہونے والی قوتیں پڑھا لکھا اور سمجھا رہی ہیں؟ جب میرا استفسار اور سوال پھر بھی وہیں رہتا ہے کہ کیا اللہ کے بنائے گئے اصول اور مہذب انسانی دنیا کے بنائے ضوابط بےمعنی ہیں؟ کیا اُن کی کوئی وقعت نہیں؟ کیا فقط مفاداتی فلسفہ کے مطابق زندگی گزارنا ہی دانشمندی ہے؟ کیا ہم وقتی ثمرات حاصل کرنے کے لئے انسانی دنیا کیلئے تشکیل کر دہ تمام اخلاقی تقاضے بھی بھلا دیں؟ اس قسم کی میری جرح سے میرے یہ دوست سخت ناراض اور سیخ پا ہو کر کہتے ہیں کہ بھاڑ میں جائو، جو جی میں آئو کرو، ہماری بلا سے!

چلیں، ایک روز کیلئے میں اپنے اُن دوستوں کی بات پر سرتسلیم خم کر دیتا ہوں تو مجھے کیا کرنا ہوگا؟ مثلاً مجھے لکھنا ہوگا کہ پاکستان میں سب ہرا ہی ہرا ہے، شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ پر پانی پی رہے ہیں، معاشرے میں امیر و غریب کی کوئی خلیج نہیں ہے، ملک میں رہنے والا ہر شہری خواہ وہ کسی طبقے سے بھی تعلق رکھتا ہو اس کی عزت و مال محفوظ ہے، ریاست حقیقی معنوں میں ماں کے جیسی ہے، مسلمان ہو یا غیرمسلم یا کسی بھی گروہ، عقیدے یا مسلک سے تعلق رکھنے والا ہو اسے ایک ہی نظر سے دیکھا جاتا ہے، قانون و انصاف فراہم کرنے والے ملکی ادارے بلا رنگ و نسل یا بغیر کسی کمزور یا طاقتور کی تخصیص کے صرف انصاف فراہم کر رہے ہیں، ملک میں ہر پانچ سال بعد منصفانہ انتخابات ہوتے ہیں، ووٹ کو عزت ملتی ہے اور عوام کے حقیقی نمائندے اقتدار میں آکر عوام کی خدمت کو اپنا اولین فرض سمجھ کر قوم کی بھلائی کے کاموں میں مصروف ہو جاتے ہیں، ریاستی ادارے اپنی اپنی آئینی حدود میں رہ کر اپنا کام کر رہے ہیں۔

اگر اوپر ذکر کئے گئے اپنے دوستوں کے مفاداتی فلسفے کے فوائد پر نظر رکھوں اور ’’ضمیر‘‘ کو تھپکی دوں تو پھر مجھے یہ بھی لکھنا ہو گا کہ ہم زندہ قوم ہیں، ہم جدید دنیا کے ساتھ قدم بہ قدچل رہے ہیں ہم ان تمام اخلاقی تقاضوں کے معیارات پر پورا اترتے ہیں جنہیں اپنا کر تہذیب یافتہ قومیں تعمیروترقی اور انسانی فلاح وبہبود کی زریں مثالیں قائم کر چکی ہیں،مجھے لکھنا ہو گا کہ ہم زندہ انسانوں کی طرح مردہ انسانوں کی بھی توقیر کرتے ہیں روز مرہ کا ہمارا معاشرہ اور ہمارے قبرستان اس بات کے گواہ ہیں کہ قبروں کے درمیان کتنا فاصلہ ہے ہمارے شہریوں کی یہ آخری آرام گاہیں کس قدر صاف ستھری ہیںیہاں ہر طرف سبزہ اور پھولوں کی کیاریاں ہیں، مجھے لکھنا ہو گا کہ یہاں کوئی جرم نہیں ہوتا یہاں نہ مردے کا کفن چوری ہوتا ہے نہ مردہ جسم سے کوئی بدکاری کا مرتکب ہوتا ہے۔مجھے سوشل میڈیا اور ریگولر میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے اس بیانیے کو غلط ثابت کرنا ہوگا کہ پاکستان کے طول عرض میں دونمبر جعلی ادویات کا دھندہ سرعام جاری ہے اور زندگی بچانے والی مہنگی ادویات سے لیکر اسپرین تک کے اصلی ہونے کی کوئی گارنٹی نہیں، مجھے یہ بتانا ہو گا کہ یہاں دودھ، کھانے پینے کی اشیاء، پینے کا صاف پانی سب اصلی اور وافر مقدار میں موجود ہیں، یہاں گائے، بکرے اور مرغی کاتازہ و حلال گوشت بکتا ہے ایسا کوئی چانس ہی نہیں کہ کوئی گدھوں، کتوں اور مردہ جانوروں کا گوشت بیچ سکے۔ حکومتی ادارے سختی سے ان چیزوں کو چیک اور کڑی نظر رکھتے ہیں، مجھے یہ تاثر بھی دور کرنا ہو گا کہ پاکستان میں آئے روز ریپ ہوتے ہیں، چھوٹے بچوں کے ساتھ بدفعلی اور قتل معمول کی بات ہے مجھے بتانا ہو گا کہ ایسا کچھ بھی نہیں یہ واویلا بعض سازشی میڈیا ہائوسز کی طرف سے کیا جاتا ہے ،مجھے لکھنا ہو گا کہ پاکستان میں جی ڈی پی کی شرح مسلسل بڑھ رہی ہے فی کس آمدنی بھی ترقی یافتہ ملکوں کے مقابلے پہ آ چکی ہےچنانچہ مجھے یہ سب کہنا اور لکھنا ہوگا تو کہیں جاکر میں میرے غمخواروں اور خیر خواہوں کے ’’حساب‘‘ کے مطابق زندگی گزارنے کے قابل ہو سکوں گا۔

اور ہاں ! مجھے یہ دہائی بھی دینا ہو گی کہ پاکستان میں انسانوں کے روپ میںفرشتوں کی ایسی حکومت تشکیل پا چکی ہے جو ہر قسم کے عیوب سے پاک ہے نہ اس حکومت میں شامل کوئی وزیر، مشیر کرپٹ ہے اور نہ الزام زدہ بلکہ ان سے پہلے والوں میں سب برائیاں تھیں لیکن ان کے برعکس آج کی پوری کی پوری حکومت کے زعما خوش گفتار ہیں، باتمیز ہیں، با اخلاق اور انتہائی تہذیب یافتہ ہیں اور عوام کے ساتھ ہمدردیوں کا احساس ان سب میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہے ۔لہٰذا اگر یہی سب کچھ کہہ، بتا اور لکھ کر میں اس معاشرے سے اپنے لئے خوشحالی کے ثمرات حاصل کر سکتا ہوں تو سوری، میرے ہم نفس وہم نوائو میں اس دو نمبری کیلئے تیار نہیں ہوں میں اکھڑ مزاج ہی بھلا۔بقول شکیل بدایونی ؎

میرے ہم نفس میرے ہم

نوا مجھے دوست بن کے دغا نہ دے

میں ہوں درد عشق سے جاں بہ لب

مجھے زندگی کی دعا نہ دے

تازہ ترین