اسلام آباد(نمائندہ جنگ)قائم مقام چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے پریس ایسو سی ایشن آف سپریم کورٹ کی بعض حکومتی اداروں کی جانب سے ملک بھر میں صحافیوں کو ہراساں کرنے کیخلاف دائر آئینی د رخواست کی جمعہ کے روز کی سماعت کے حوالے سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل پر مشتمل دو رکنی بنچ کی جانب سے جاری حکمنامہ میں تبدیلی کرتے ہوئے سماعت کیلئے 5رکنی لارجر بنچ تشکیل دیدیا ہے جوکہ جمعرات 26اگست کی بجائے پیر23 اگست کو کیس کی سماعت کریگا۔
5 رکنی لارجر بنچ قائم مقام چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس قاضی محمد امین احمد اور جسٹس محمد علی مظہر پر مشتمل ہوگا، اس حوالے سے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کردیا گیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ لارجر بنچ مرکزی کیس کی سماعت سے قبل آئین کے آرٹیکل(3) 184کے دائرہ کار کا جائزہ لے گا۔
یادرہے کہ اس بنچ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس جمال خان مندو خیل شامل نہیں ہیں، یہ بھی یاد رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندو خیل پر مشتمل دو رکنی بینچ نے جمعہ 20اگست کو درخواست کی سماعت کے دوران صحافیوں کو ہراساں کرنے کے معاملے میں سیکرٹری داخلہ، سیکرٹری اطلاعات و نشریات ، سیکرٹری وزارت انسانی حقوق ،ڈی جی ایف آئی اے اور آئی جی اسلام آباد کو نوٹس جاری کر تے ہوئے آئندہ سماعت پر رپورٹوں سمیت ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم جاری کیا تھا۔
عدالت نے مختلف اوقات میں صحافیوں پر ہونے والے حملوں کی تفصیلات اور اس ضمن میں دائر مقدمات پر پیش رفت کی رپورٹ بھی طلب کر رکھی ہے جبکہ متعلقہ حکام کو سیف سٹی کیمروں کی فوٹیج اورپراجیکٹ کے اخراجات پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔
عدالت نے کیس کی مزید سماعت 26 اگست تک ملتوی کرتے ہوئے پریس کونسل آف پاکستان ، سی پی این ای،اے پی این ایس، پی بی اے اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے علاوہ اٹارنی جنرل پاکستان، چاروں صوبوں کے ایڈوکیٹ جنرل صاحبان اور ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد کو نوٹسز جاری کر رکھے ہیں جبکہ وزارت اطلاعات سے گزشتہ ایک سال کے دوران میڈیا کے اداروں کو جاری کئے گئے۔
اشتہارات کی تفصیلات بھی طلب کر لی ہیں۔ وزارت مذہبی امور کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب مانگا گیا ہے کہ اس وزارت نے ملک میں سچ کے فروغ کیلئے اب تک کیا اقدامات کیے ہیں؟
عدالت نے تمام مسول علیان کو آئندہ سماعت تک تحریری جواب جمع کرانے کی ہدایت بھی کی ہے جبکہ درخواست کو آئین کے آرٹیکل 184/3کے تحت قابل سماعت قرار دیتے ہوئے آبزرویشن دی تھی کہ عدلیہ تمام شہریوں کے حقوق کی محافظ ہے۔
صحافیوں کو ہراساں کرنا بنیادی انسانی حقوق اور عوامی مفاد کا مسئلہ ہے، عدالت نے اپنے آرڈر میں قرار دیا تھا کہ صحافیوں کو ہراساں کرنا آئین کے آرٹیکل گیارہ، تیرہ، چودہ، اٹھارہ،انیس، انیس اے، تیئس، چوبیس اور پچیس کی بھی خلاف ورزی ہے۔