• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ کا کالم ”تنہائی، خاموشی اور تبدیلی“ نظر سے گزرا۔ کاش! آپ تمام حقائق کا حقیقی احاطہ فرماتے۔ اگر آپ کا پاکستان کی سفارتی اور سیاسی تنہائی کا استدلال تسلیم بھی کرلیا جائے تو یہ بھی فرما دیتے کہ وہ کون سا سنہری دور تھا جب پاکستان اس میدان میں تنہا نہیں تھا؟ کیا وطنِ عزیز صرف اور صرف امریکہ کے سفارتی ضابطوں اور اطوار کے زیر سایہ رہتے ہوئے امریکی مفادات کا پاسدار بن کر ہی اقوام عالم میں بلند ہوسکتا ہے۔ کیا دنیا اسی سیاسی متاع کو قبول کرے گی؟ بلاول کی امریکہ یاترا کی دھونس ہماری قوم کے منہ پر زور دار طمانچہ ہے۔ قوم کو باور کرایا جارہا ہے کہ بلاول بھٹو امریکی مردہ گھوڑے پر سوار ہو کر ایوان اقتدار کی طرف دوڑا چلا آرہا ہے، روک سکو تو روک لو۔ ان شااللہ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ خدارا !خان دشمنی میں ملکی مفادات کو مت بھولیں۔ امریکہ اس خطے سے جس ہزیمت سے بھاگا اس سے لطف اندوز ہوں، اس کی واپسی کاانتظار مت کریں کیونکہ آپ کودوبارہ امریکہ کو خطے سے نکالنے کے لئے بہت تردد کرنا پڑے گا۔ ویسے بلاول کی امریکہ یاترا سے خوش ہونے پر میں مخمصے کا شکار ہو گیا ہوں۔ آپ پی پی پی کے لئے گداز خیال ہیں یا ضیاءکے روحانی بچوں کے لئے؟ کسی بھی گستاخی کے لئے پیشگی معافی کا خواستگار، خرم رشید۔

یہ میرے دیرینہ دوست، کل کے جیالے، آج خان اعظم کے متوالے کا گزشتہ کالم پر تبصرہ ہے جو میں نے من و عن اس کالم کا حصہ بنانا اس لئے ضروری سمجھا کہ افغانستان کی صورت حال کے تناظر میں حالات نے اچانک جس تیزی سے کروٹ بدلی ہے ، اس کی مزید وضاحت کر دی جائے کہ میں بغض عمران کا شکار ہوں نہ ہی (ن) لیگ، پیپلزپارٹی کے کسی سیاسی ایجنڈے کا حصہ۔ اپنی سوچ ،سیاسی وابستگی اور اظہار رائے کی محدود آزادی کی حدود میں رہ کر جتنا ممکن ہودیانت داری سے حالات اور واقعات کا تجزیہ پیش کرنا ہے۔ اختلافِ رائے کی بنیاد پر تفرقہ پھیلانا یاکسی کے احساسات کومجروح کرنا میرا مقصد ہرگز نہیں ۔ ”تنہائی، خاموشی اور تبدیلی“ ملک کے داخلی، خارجی حالات، افغانستان میں اچانک رونما ہونے والی تبدیلی کے تناظر میں ایک رائے ہے کہ جس ملک کے سیاسی نظام میں سیاسی جماعتوں کا کردار محدود کر دیا جائے انہیں قومی و بین الاقوامی معاملات میں اعتماد میں نہ لیا جائے اورحکومتی کارکردگی دونوں محاذوں پر کمزور دکھائی دے تو پھر متبادل سیاسی مہروں کو ہاتھ میں رکھنا مجبوری بن جاتا ہے۔ آپ قیام پاکستان سے لے کر اب تک کی سیاست میں طاقت ور قوتوں کے کردار کو کیسے نظر انداز کرسکتے ہیں اور کس طرح اس سچائی سے منہ موڑ سکتے ہیں کہ یہاں حکومتوں کے بننے ٹوٹنے کے عمل میں بین الاقوامی حالات اور ہماری اپنی خواہشات اثر انداز ہوتی ہیں؟ جہاد افغانستان سے قبل ضیاءالحق کا مارشل لاء، ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی، بے نظیر بھٹو کی شہادت، نوازشریف کی تین حکومتوں کو بنانے گرانے اور خان اعظم کو اقتدار میں لانے تک تمام عوامل کا بغور جائزہ لیں تو سپر پاورز کے اس قبرستان میں ایک اجتماعی قبر ہمارے سیاست دانوں کی بھی ہے۔ اس کی واحد وجہ یہی ہے کہ ہر سیاسی جماعت کی اعلیٰ قیادت دنیا سے جھوٹے سچے وعدے کرکے اقتدار میں آئی جس کا نتیجہ یہی نکلاکہ ہر آنے والا دور سیاسی و معاشی لحاظ سے پہلے سے بھی زیادہ بد تر ثابت ہوا اور سیاسی جماعتوں کو انتقام کی بھینٹ چڑھا کر اس حد تک محدود کر دیا گیا کہ اب یہ صورت حال ہے کہ کوئی غریب، کسان، ہاری، مزدور پارلیمنٹ تو دور کی بات کسی سیاسی جماعت میں اپنا معمولی کردار بھی ادا نہیں کرسکتا۔ خان اعظم کروڑوں دلوں کی دھڑکن تھے اور اب بھی ہیں لیکن کیا وہ اکیلے اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر سوار ہو کر خطے میں تیزی سے رونما ہونے والی تبدیلیوں سے نبرد آزما ہوسکیں گے۔ لیڈر کی زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ اس کی شخصیت کے پوشیدہ پہلوؤں حتیّٰٰ کہ مستقبل کے ارادوں کو ظاہر کر دیتا ہے۔ غیر ذمہ دارانہ الفاظ کی بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے اسی لئے کہتے ہیں کہ پہلے تولو پھر بولو لیکن یہ بات خان اعظم کو کون سمجھائے کہ بین الاقوامی سیاست کے تقاضے کچھ اور ہوتے ہیں۔ یہ کوئی انتخابی مہم کا جلسہ نہیں کہ آپ کنٹینر پر کھڑے ہو کر عوام کے دلوں گرمانے کے لئے جذباتی نعرے لگائیں۔ ایسے وعدے، دعوے کریں جنہیں پورا کرنا آپ کے بس کی بات نہ ہو، لیڈر کی زبان سے نکلے الفاظ تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں۔ سفارت کاری میں ان الفاظ کی اہمیت کو کبھی نظرانداز نہیں کیا جاتا۔ انہی الفاظ کی بنیاد پر اقوام عالم میں رشتے ناطے بنتے ٹوٹتے ہیں۔ کامیاب لیڈرکبھی یکطرفہ سوچ نہیں رکھتا۔ افغانستان میں طالبان کی پُراسرار کامیابی کو دنیا اسی نظر سے پرکھ رہی ہے اور مستقبل کے فیصلے انہی تجزیوں کی بنیاد پر کئے جائیں گے۔ سپر پاورز کے قبرستان میں امریکہ کی تدفین کے بعد یہی کہنا مناسب ہے کہ جہاں بجتی ہے شہنائی وہاں ماتم بھی ہوتے ہیں۔ مملکت خداداد پاکستان میں ایسے لوگوں کی کمی نہیںجو اس اچانک غیر معمولی کامیابی کو فتح قرار دےکر جشن منا رہے ہیں اور دوسری طرف رائے عامہ کا ایک وسیع حلقہ اس حیران کن تبدیلی پر منہ میں انگلیاں دبائے سوچ رہا ہے کہ اب کیا ہوگا؟ ایسے میں اگر خان اعظم یہ کہہ دیں ”افغانستان میں غلامی کی زنجیریں توڑ دی گئیں“ تو شکست کے زخم چاٹنے والوں کے دلوں پر کیا گزرے گی اور اس بیان کے کیااثرات مرتب ہوں گے؟ اگر یہی انداز کوئی دوسرا سیاسی رہنما اختیارکرتا اور طالبان کی کامیابی کی حمایت کرتا تو کیا ہوتا؟ جب آپ کا ایک ایک بال آئی ایم ایف، ورلڈ بینک،غیر ملکی قرضوں، امریکی امداد میں جکڑا ہو اور آپ کے دور حکومت میں یہ بوجھ مزید بڑھ گیا ہو اوردوسری طرف امریکہ اور اس کے اتحادی عالمی مالیاتی ادارے افغانستان کے اثاثے منجمد کرکے طرح طرح کی پابندیاں لگائیں اور اس ”شکست“ کے پیچھے ہمارے ہاتھ تلاش کئے جا رہے ہوں تو غور طلب سوال یہ ہے کہ دنیا اب ہمارے بارے میں ہر فیصلہ افغانستان میں ہمارے کردار کو دیکھ کر کرے گی ، ایسے میں احتیاط لازم، گریٹ گیم ابھی آن ہے۔

تازہ ترین