ڈاکٹر یاسمین شیخ
انسانی جِلد جسم کا ایک اہم عضو ہے، جسے اس اعتبار سے سب سے بڑا عضو قرار دیا جاتا ہے کہ اس نے جسم کو سَر سے پائوں تک ڈھانپ رکھا ہوتا ہے۔اس میں بال ،ناخن وغیرہ سب شامل ہیں،جب کہ جسم کے وزن کا16فی صد حصّہ صرف جِلد پر مشتمل ہوتا ہے۔ جِلد کے دو حصّے ہیں، جنہیں طبّی اصطلاح میں اوپری تہہ اور نچلی تہہ کہا جاتا ہے۔ اوپری تہہ مختلف اقسام کے خلیات سے مِل کر بنتی ہے، جس میں رنگ بنانے والےمیلانوسائٹس(Melanocytes) بھی شامل ہیں۔ ہاتھ اور پائوں کی جِلد کی اوپری تہہ قدرے موٹی ہوتی ہے، کیوں کہ قدرت نے اِسے چوٹ، رگڑ یا دبائو برداشت کرنے کی صلاحیت عطا کر رکھی ہے۔
اس کے برعکس آنکھ کےپپوٹے(Eyelids)کی اوپری جِلد سب سے پتلی ہوتی ہے۔ جِلد کی نچلی تہہ میں ریشے، خلیے، بال کے اجزاء، بال کی جَڑیں، خون کی نالیاں، لمفاوی نالیاں، اعصابی نسیں(جن سے درد، گرمی، سردی وغیرہ کا احساس ہوتا ہے)، پسینے اور چکنائی کے غدود واقع ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ جِلد، جسم کو ہر قسم کی چوٹ، جراثیم، موسمی اثرات وغیرہ سے بچانے، بذریعہ پسینہ پانی اور نمکیات کا توازن برقرار رکھنے اور فاسد مادّے خارج کرنے جیسے امور بھی انجام دیتی ہے۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ انسانی جِلد کو ’’دوسرا گُردہ‘‘بھی کہا جاتا ہے۔کیوں کہ گرمیوں میں کئی گلاس پانی پینے کے باوجود پیشاب بہت کم آتا ہے، لیکن جسم پسینے سے شرابور ہوجاتا ہے۔اس کے برعکس سردیوں میں پانی کم پیا جاتا ہے،لیکن بار بار پیشاب کی حاجت محسوس ہوتی ہے اور جِلد بھی بالکل خشک رہتی ہے۔ گویا گرمیوں میں گُردہ آرام کرتا ہے اور سردیوں میں جِلد۔جِلد،وٹامن ڈی بنانے کے عمل میں معاون ثابت ہوتی ہے، تو جذباتی کیفیات کے اظہار کا بھی ذریعہ ہے۔ مثلاً خوف سے رونگٹے کھڑے ہوجانا، رنگت پیلی پڑ جانا اور غصّے کی کیفیت میں لال بھبھوکا ہوجانا وغیرہ۔
بچپن میں جِلد بے حد نرم اور جوانی میں اپنے جوبن پر ہوتی ہے، البتہ بعض افراد کے لیے کیل مہاسے مسائل کا باعث بن جاتے ہیں۔ جوں جوں عُمر بڑھتی ہے، خصوصاً چالیس سال کے بعد مَرد و عورت دونوں ہی کی جِلد پر بڑھتی عُمر کے اثرات ظاہر ہونے لگتے ہیں، مگر خواتین کی جِلد زیادہ متاثر ہوتی ہے، جس کی وجہ ماہ واری کا رفتہ رفتہ کم ہو کر ختم ہوجانا ہے۔ اصل میں جسم میں ہارمونز کا توازن متاثر ہوجانےکے نتیجے میں جِلد میں گرمی محسوس ہوتی ہے، چہرہ اچانک سُرخ ہوجاتا ہے، جس کے اثرات جِلدپر ظاہر ہوتے ہیں۔ بعض اوقات ٹھوڑی اور اوپری ہونٹ پر بال نمودار ہوجاتے ہیں، جب کہ سَر اور داڑھی کے بھی اکّا دکّا بال سفید ہونے لگتے ہیں۔
جِلد کی اوپری تہہ پتلی ہوسکتی ہے، چہرے کے مسامات واضح ہوسکتے ہیں، جب کہ نچلی تہہ میں موجود ریشے بعض تبدیلیوں کی بنا پر جِلد میں ڈھیلا پَن پیدا کردیتے ہیں، لہٰذا پیشانی، ہونٹ کے گرد اور آنکھوں کے نیچے نہ صرف باریک لکیریں نمودار ہوجاتی ہیں، بلکہ ہاتھ کی پشت کی جِلد بھی پتلی اور ڈھیلی نظر آنے لگتی ہے۔ اس کے بعد جوں جوں وقت گزرتا ہے، جِلد کے دیگر مسائل ظاہر ہونے لگتے ہیں۔ مثلاً بعض اوقات خون کی باریک نالیاں واضح نظر آتی ہیں،تو کبھی ان کے اندر ٹوٹ پھوٹ سے خودبخود جسم پر نیلے یا سُرخی مائل دھبّے پڑجاتے ہیں۔
جو بعد میں وقت کے ساتھ غائب بھی ہوجاتے ہیں۔اس کے علاوہ کہیں کہیں لال رنگ کے اُبھرے ہوئے تل نُما دانے دکھائی دیتے ہیں، جن میں کوئی تکلیف ہوتی ہے، نہ ہی یہ کسی تشویش کا باعث بنتے ہیں، البتہ پیٹھ، بازو یا چہرے پر اکّا دکّا سیاہ، برائون چکنے مسّے جیسے اُبھار ظاہر ہوسکتے ہیں، جن میں کبھی کبھار خارش محسوس ہوتی ہے، لیکن یہ بھی نقصان دہ نہیں۔ہاں اگر جسم کے کُھلے حصّوں پر ہوں، تو ذرا بدنما دکھائی دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ بڑھتی عُمر میں گردن اور بازو کے اوپری حصّے میں بغل کے قریب جِلد کے چھوٹے چھوٹے نرم ڈوری جیسے ٹیگ لٹک جاتے ہیں، خصوصاً فربہ افراد میں یہ جِلد کی رگڑ سے ہوجاتے ہیں۔
اگرچہ یہ بھی کسی قسم کے طبّی مسئلے کا باعث نہیں بنتے، لیکن اگر سائز میں بڑے ہوں، تو پھر ان کا علاج ضروری ہے۔ بعض اوقات آنکھوں کے پپوٹوں پر پیلے رنگ کے اُبھار بن جاتے ہیں، جو آنکھ بند کرنے پر زیادہ واضح دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی وجہ جِلد کی نچلی تہہ میں چکنائی سے بَھرپور خلیات کا کہیں کہیں جمع ہوجانا ہے۔چہرے پر بھی پیلے رنگ کے دانے، گٹھلی یا اُبھار نمودار ہوسکتے ہیں، جو کسی طبّی تکلیف کا سبب نہیں بنتے، مگر دیکھنے میں اچھے نہیں لگتے۔ البتہ یہ علامت ظاہر ہونے پر بہتر تو یہی ہے کہ متاثرہ افراد خون میں چکنائی کا ٹیسٹ لازماً کروالیں، تاکہ خدانخواستہ اگر دِل کا کوئی عارضہ لاحق ہو، تو بروقت علاج ہوسکے۔
نیز، ادویہ کے استعمال اور کھانے میں احتیاط برت کر جِلد میں موجود چکنائی کو مزید جمع ہونے سے روکا جاسکے۔ وقت کےساتھ سَر کے بال بھی کم ہوجاتے ہیں، خاص طور پر مَردوں کے سَر کے سامنے یا پیچھے کی جانب سے بال کم ہوتے ہوتے بالکل ہی غائب ہونے لگتے ہیں، البتہ خواتین میں بالوں کی تعداد کم ضرور ہوتی ہے، لیکن گنج پَن نہیں ہوتا۔ علاوہ اس کے کہ بالوں کا کوئی ایسا مرض لاحق ہو، جس سے سَر سے لے کر پورے جسم حتیٰ کہ بھووں تک کے بال جَھڑ جائیں۔
چوں کہ عُمر بڑھنے کے ساتھ جِلد پتلی ہوکر خشک رہنے لگتی ہے، توجسم پر خشکی جیسے باریک چھلکے بھی ظاہر ہوسکتے ہیں۔ اگر بروقت جِلد کو تیل یا ویزلین لگالیں، تو بیرونی چکنائی جِلد کو طراوٹ بخشتی ہے اور خارش نہیں ہوتی۔ وگرنہ بزرگ خواتین یا مَرد اتنا کُھجاتے ہیں کہ خون تک نکل آتا ہے۔ پھر عُمر میں اضافہ، دانتوں کے مسائل کو بھی جنم دیتا ہے۔ عموماً عُمر رسیدہ افراد چند ایک دانت ٹوٹ جانے کے باعث ضرورت کے مطابق کھا نہیں پاتے، تو زیادہ تر کا ہاضمہ کم زور ہوجاتا ہے یا پھر خون کی کمی بھی واقع ہوسکتی ہے۔ واضح رہے، خون کی کمی سے بھی جِلد پر خارش ہوتی ہے۔
لہٰذا بہتر یہی ہے کہ معالج کے مشورے سے خون کا ٹیسٹ کروالیا جائے، تاکہ خون کی کمی کی صُورت میں علاج ممکن ہوسکے۔ عارضۂ گُردہ لاحق ہونے کی صُورت میں یورک ایسڈ بڑھ جاتا ہے، جو بعض کیسز میں جِلدی خارش کا سبب بنتا ہے۔ اسی طرح ڈائی لیسسز کے مریضوں کو جب ڈائی لیسسز کے لیے لایا جاتا ہے، تو ان میں سے کئی مریض ایسے بھی ہوتے ہیں، جن کے جسم میں پیدا ہونے والے بعض اجزاء جو گُردوں سے خارج نہیں ہوپاتے، دانوں کی شکل میں اُبھر آتے ہیں۔
ان دانوں میں شدید خارش ہوتی ہے، لیکن جوں ہی ڈائی لیسسز کا عمل انجام پاتا ہے، فاسد مادّے خون سے نکال دیئے جاتے ہیں، خارش بھی ماند پڑجاتی ہے۔اس کے علاوہ ہیپاٹائٹس بی اور سی کے مریضوں کو بھی خارش کی شکایت لاحق ہوسکتی ہے۔ بسا اوقات جو مریض اپنےمرض سے لاعلم ہوتا ہے۔ بس، اُسے وقفے وقفے سے پتّی اُچھلتی ہے یا بیٹھے بٹھائے خارش شروع ہوجاتی ہے۔ آئے دِن اینٹی الرجی ادویہ استعمال کی جاتی ہیں، مگر افاقہ نہیں ہوتا۔ مگر جب ٹیسٹ کروایا جاتا ہے، تو درست مرض کی تشخیص ہوپاتی ہے۔ اور پھر درست علاج کے باعث خارش کی تکلیف بھی معدوم ہوجاتی ہے۔
ڈھلتی عُمر کا ایک اور مسئلہ بالوں کا سفید ہوجانا بھی ہے۔ بالوں کا رنگ سفید ہوجانے سے عمومی خُوب صُورتی متاثر ہوتی ہے، جب کہ عُمر رسیدہ ہونے کا تاثر بھی پیدا ہوتا ہے۔ عُمر چاہے40سال ہی کیوں نہ ہو، بزرگ تصوّر کیے جانے کا خیال سوہانِ روح بن جاتا ہے، لہٰذا بال رنگنے ہی پڑتے ہیں۔ مگر جب تک بال رنگنے کے لیے استعمال کیے جانے والے کیمیکل کے اثرات جِلد برداشت کرسکتی ہے، تب تک کوئی طبّی مسئلہ جنم نہیں لیتا، لیکن متعدّد افراد بعد میں الرجی کا شکار ہوجاتے ہیں۔
ان میں سَر، پیشانی، گردن پر جلن کے ساتھ سُرخی مائل پانی بَھرے دانے نکل آتے ہیں، جو علاج سے ٹھیک ہو بھی جاتے ہیں، لیکن دوبارہ بال رنگنے پر وہی مسئلہ درپیش آتا ہے۔ اس مسئلے کے شکار افراد رنگ کا استعمال ترک کرکے منہدی کے پتّے پیس کر لگائیں، تو بال سُرخی مائل ہوجائیں گے اور خارش سے بھی نجات مل جائے گی۔ اس کے علاوہ جو افراد دھوپ میں کام کرتے ہیں مثلاً کسان، ملّاح، کھلاڑی، چرواہے وغیرہ، ان کی جِلد میں وقت سے قبل تبدیلیاں ظاہر ہونے لگتے ہیں۔
علاوہ ازیں، جِلد کا سرطان لاحق ہونے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں، خاص طور پر ٹھنڈے علاقوں میں یہ مسئلہ زیادہ جنم لیتا ہے۔ جِلدی سرطان کی دو اقسام ہیں۔ پہلی قسم Basal cell carcinoma کہلاتی ہے،جس کی شروعات ایک معمولی سے دانے سے ہوتی ہے،جو بتدریج پھیل کر کھال، ہڈی، گوشت تک میں سرایت کرجاتا ہے۔ دوسری قسم Squamous cell carcinoma ہے، جو تیزی سے پھیل کر جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔
جِلد ایک انتہائی اہم عضو ہے، جس کا عُمر کے ہر حصّے میں خیال رکھنا چاہیے، اس کی تکالیف اور تبدیلیوں پر دھیان بھی دینا چاہیے۔ جِلد کی کسی بھی قسم کی تکلیف نظرانداز نہ کریں کہ بعض اوقات اس پر پڑنے والا ایک معمولی سا سیاہ یا سفید دھبّا کسی بھی فرد کو معاشرے میں اچھوت بنا دیتا ہے۔ جِلد کی اہمیت کا اندازہ سورۃ النساء کی آیت نمبر56 سے لگا سکتے ہیں کہ سزا کے لیے جِلد سے زیادہ اہم عضو کوئی نہیں، ’’بے شک جن لوگوں نے ہماری آیتوں کا انکار کیا، انہیں ہم آگ میں ڈال دیں گے، جس وقت ان کی کھالیں جل جائیں گی، تو ہم ان کو اور کھالیں بدل دیں گے، تاکہ عذاب چکھتے رہیں، بے شک اللہ زبردست حکمت والا ہے۔‘‘ (مضمون نگار، معروف ماہرِ امراضِ جِلد ہیں اور انکل سریا اسپتال میں خدمات انجام دے رہی ہیں)