• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمّد احمد غزالی

ایک شخص بصرہ کی گلی سے گزر رہا تھا کہ اچانک اوپر سے پانی کے چند قطرے اُس پر آگرے، جس پراُس نے بلند آواز میں کہا ’’کہیں یہ پانی ناپاک تو نہیں ہے؟‘‘ بالا خانے سے عجز و انکسار میں ڈوبی آواز آئی،’’ بھائی! اِسے دھو ڈالو، یہ ایک گناہ گار شخص کے آنسو ہیں۔‘‘اللہ کی محبّت اور اُس کی ناراضی کے خوف سے آنسو بہانے والے یہ شخص،جلیل القدر تابعی، حضرت امام حسن بصریؒ تھے۔

خاندان، پیدائش

میسان کی جنگ میں مسلمان سپاہیوں کو جو قیدی ہاتھ لگے، اُن میں موسیٰ راعی (بعض مؤرخین نے اُن کا نام یسار لکھا ہے) اور ایک خاتون، خیرہ بھی تھے۔ موسیٰ راعی،معروف صحابیؓ،حضرت زید بن ثابت انصاریؓ اور خیرہ ،اُمّ المومنین، حضرت اُمّ ِ سلمہؓ کے سُپرد ہوئیں۔ بعدازاں، اِن دونوں کو آزاد کردیا گیا اور پھر دونوں نے آپس میں شادی کرلی۔ اُن ہی کے بطن سے 21ھ، 642ء میں مدینہ منوّرہ میں حسن بصریؒ پیدا ہوئے۔ 

گویا اُن کے والدین آزاد کردہ غلام تھے۔یہ حضرت عُمر فاروقؓ کا دَورِ خلافت تھا۔نومولود کو اُن کی خدمت میں لایا گیا، تو اُنھوں نے اُس کے منہ میں کھجور چبا کر ڈالی اور دُعا فرمائی ’’ اے اللہ! اِسے دین کے علم کا ماہر اور لوگوں میں محبوب بنا۔‘‘اور پھر دنیا نے اِس دُعا کی قبولیت اپنی آنکھوں سے دیکھ لی۔ نیز، حضرت عُمر فاروقؓ نے یہ بھی فرمایا،’’ یہ تو بہت خُوب صُورت بچّہ ہے، اِس لیے اِس کا نام حسن رکھو۔‘‘

اُم المومنینؓ رضاعی ماں

آپ کی والدہ، جو اُمّ المؤمنین، حضرت اُمِّ سلمہؓ کی کنیز تھیں، کسی کام میں مصروف ہوتیں اور آپؒ رونے لگتے، تو اُمُّ المؤمنینؓ آپؒ کو چُپ کروانے کے لیے اپنی گود میں لے لیتیں اور اپنا دودھ پلا دیا کرتیں۔ آپؒ کے لیے یہ دُعا بھی کیا کرتیں،”اے اللہ! حسن کو مخلوق کا رہنما بنا دے۔‘‘ یوں آپؒ نے حضرت اُمّ ِ سلمہؓ کے بابرکت ہاتھوں میں رسول اللہﷺ کے گھر میں پرورش پائی۔ لوگ کہا کرتے تھے کہ’’حضرت حسن بصریؒ سے علوم و معارف کے جو دریا سے پُھوٹے ہیں، وہ درحقیقت اُسی دودھ کا فیض ہے۔‘‘

بچپن کی یادیں

اِس خوش نصیب بچّے کو امہات المومنینؓ کے گھروں میں آنے جانے کا موقع ملتا رہتا۔ حضرت حسن بصریؒ فرمایا کرتے تھے،’’ بچپن میں ازواجِ مطہراتؓ کے گھروں میں میرے آنے جانے اور کھیل کود سے چہل پہل رہتی۔ بعض اوقات مَیں اُچھلتا کودتا گھروں کی چھتوں پر چڑھ جاتا۔‘‘ اِس طرح اُن کی تربیت امہات المومنینؓ کے گھروں کی پاکیزہ فضاؤں میں ہوئی۔ دس برس کی عُمر میں قرآنِ پاک حفظ کرلیا تھا۔14 برس کے ہوئے تو والدین کے ساتھ بصرہ منتقل ہوگئے۔

آپؒ بہت وجیہہ اور حسین وجمیل تھے۔ جسم مضبوط اور متوازن تھا۔ سر پر گھنے بال بہت خُوب صُورت لگتے۔ عمامہ باندھتے اور اُس پر چھوٹی سی سبز چادر اوڑھے رکھتے۔ ہلکی مونچھیں رکھا رکھتے تھے۔ حضرت شعبیؒ نے بصرہ جانے والے ایک شخص سے کہا،’’ اہلِ بصرہ میں تم جس شخص کو سب سے زیادہ خُوب رُو اور صاحبِ جلال پاؤ، تو جان لو کہ وہی حضرت حَسن بصریؒ ہیں۔‘‘

صحابۂ کرامؓ کی صحبت

گو کہ آپؒ مدینہ منوّرہ میں قیام کے دَوران کم عُمر تھے، مگر اس کے باوجود صحابۂ کرامؓ کی مجالس میں شریک ہونے لگے تھے۔مسجدِ نبویؐ میں نماز ادا کرتے، جہاں دیگر صحابہ کرامؓ بھی موجود ہوتے تھے۔ آپؒ نے حضرت عثمانؓ کی امامت میں ادا کی گئی نمازِ جمعہ اور اُن کے خطبے کا بھی ذکر کیا ہے۔ خواجہ فرید الدّین عطارؒ نے’’ تذکرۃ الاولیاء‘‘ میں لکھا ہے کہ خواجہ حسن بصریؒ نے ایک سو بیس صحابۂ کرامؓ کی زیارت کی، جن میں ستّر بدری صحابہؓ تھے۔22 برس کے ہوئے، تو جہاد میں شامل ہوگئے اور دس برس تک مختلف محاذوں پر اسلامی لشکر میں شامل ہوکر دادِ شجاعت لیتے رہے۔مؤرخین نے کابل کی جنگ میں آپؒ کی بہادری کا خاص طور پر ذکر کیا ہے۔یہاں تک کہ کئی ایک نے تو انھیں عرب کے نام وَر بہادروں میں شمار کیا ہے۔ اِس دس سالہ جہاد میں اُنھیں بہت سے صحابۂ کرامؓ کی صحبت بھی میسّر آئی، جو اِن لشکروں میں شامل تھے اور اِسی دوران اُنھوں نے علوم و معارف کے اسباق حاصل کیے۔کچھ عرصے تک والیٔ خراسان کے منشی کے طور پر بھی کام کیا، بصرہ کے قاضی بھی مقرّر ہوئے، مگر جلد ہی اِن امور سے الگ ہوگئے۔

مجلسِ وعظ

جہاد سے واپس آئے، تو عوام کی حالت دیکھ کر آپؒ کا دل کڑھتا، لہٰذا اُنھیں دینی تعلیمات سے آگاہ رکھنے اور تقویٰ و پرہیزگاری کا درس دینے کے لیے ہفتے میں ایک دن وعظ کا سلسلہ شروع کیا۔ چوں کہ آپؒ عالم باعمل، فقیہ، علمِ حدیث کے ماہر، صوفی، مجاہد، مدرّس اور فصیح اللسّان تھے، اِس لیے آپؒ کی مجلسِ وعظ نے بہت جلد شہرت حاصل کرلی، جس میں بڑی تعداد میں لوگ شریک ہوتے، جن میں بڑے بڑے علماء اور حبیب عجمیؒ اور رابعہ بصریؒ جیسے اہل اللہ بھی شامل تھے۔

آپؒ سے ایک شخص نے پوچھا،’’ یاشیخ! مسلمانی کیا ہے اور مسلمان کون ہیں؟‘‘آپؒ نے جواب دیا،’’ مسلمانی کتابوں میں ہے اور مسلمان زیرِ خاک ہیں۔‘‘ کسی نے کہا’’ ہمارے قلوب سوئے ہوئے ہیں کہ آپؒ کی باتوں کا ہم پر کوئی اثر نہیں ہوتا، ہم کیا کریں؟‘‘ فرمایا،’’کاش! تمہارے دل سوئے ہوتے، کیوں کہ سوئے ہوئے کو جھنجوڑ کر جگایا جا سکتا ہے۔ تمہارے قلوب تو مر گئے ہیں، جو جھنجوڑ نے پر بھی بیدار نہیں ہوتے۔‘‘ ایک شخص نے دریافت کیا کہ’’ حُسنِ اخلاق کیا ہے؟‘‘تو آپؒ نے فرمایا،’’ سخاوت ، درگزر اور برداشت کرنا ۔‘‘آپؒ فرمایا کرتے،’’ آدمی کی مروّت اُس کی زبان کی سچّائی، اپنے بھائیوں کا بوجھ اُٹھانا، اہلِ زمانہ کے لیے بھلائی عام کرنا اور اپنے پڑوسیوں کو تکلیف دینے سے رُکنا ہے۔‘‘

فرمایا،’’ جن میں چار چیزیں ہوتی ہیں،اللہ تعالیٰ اُنھیں جنّت میں داخل فرماتا ہے اور اپنی رحمت اُن پر عام کردیتا ہے، والدین کے ساتھ نیکی، اپنے مملوک( ملازم) کے ساتھ نرمی، یتیم کی کفالت اور کم زور کی مدد۔‘‘ایک شخص آپؒ کی مجلس میں آیا اور خشک سالی کی شکایت کی۔ آپؒ نے اُسے استغفار کی تلقین کی۔ کچھ دیر بعد دوسرا شخص آیا۔اُس نے بے اولادی کی شکایت کی۔آپؒ نے اُسے بھی استغفار کی تلقین کی۔کچھ دیر بعد ایک اور شخص آیا، جس نے فقر و فاقے اور تنگ دستی کی شکایت کی۔آپؒ نے اُسے بھی استغفار کی تلقین کی۔ کسی نے اظہارِ تعجب کیا کہ سب کے الگ الگ مسائل، مگر جواب ایک ہی؟

تو امام حسن بصریؒ نے فرمایا’’کیا تم نے قرآنِ پاک کی یہ آیات نہیں پڑھیں، ترجمہ:’’ چناں چہ مَیں نے اُن سے کہا(یعنی حضرت نوحؑ نے اپنی قوم سے)کہ اپنے پروردگار سے مغفرت مانگو، یقین جانو، وہ بہت بخشنے والا ہے،وہ تم پر آسمان سے خوب بارشیں برسائے گا اور تمہارے مال اور اولاد میں ترقّی دے گا اور تمہاری خاطر نہریں مہیا کردے گا۔( سورۂ نوح)۔‘‘ فرماتے تھے، ’’بھیڑ، بکریاں انسانوں سے زیادہ باخبر ہوتی ہیں کہ چرواہے کی ایک آواز پر چَرنا چھوڑ دیتی ہیں اور انسان اپنی خواہشات کی خاطر احکامِ الٰہی کی بھی پروا نہیں کرتا‘‘، ’’بُروں کی صحبت سے بچو ، کیوں کہ صحبتِ بد نیک لوگوں سے دُور کردیتی ہے‘‘، ’’تقویٰ کے تین مدارج ہیں۔ اوّل : غیض و غضب میں بھی سچّی بات کہنا، دوم : ان اشیا سے احتراز کرنا، جن سے اللہ تعالیٰ نے اجتناب کا حکم دیا ہے، سوم : احکامِ الٰہی پر راضی ہونا‘‘، ’’اگر تم دیکھنا چاہتے ہوکہ تمہارے بعد دنیا کی کیا کیفیت ہوگی، تو یہ دیکھ لو کہ دوسرے لوگوں کے جانے کے بعد کیا نوعیت رہی‘‘،’’ہائے افسوس اے انسان ! کیا تجھ میں اﷲ تعالیٰ سے جنگ کی طاقت ہے؟ 

کیوں کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتا ہے، حقیقت میں وہ اللہ تعالیٰ سے جنگ کرتا ہے‘‘،’’بلاشبہ اہل تقویٰ کی چند علامتیں ہیں، جن سے وہ پہچانے جاتے ہیں ، سچّی بات کرنا ، عہد و پیمان پورا کرنا، صلۂ رحمی، کم زوروں پر رحم، فخر و غرور نہ کرنا، نیکی کو عام کرنا، حُسنِ اخلاق سے پیش آنا‘‘،’’اے انسان! اﷲ کی حرام کردہ اشیاء سے رُک جا، تو عابد ہوجائے گا، اپنے مقدر پر راضی ہوجا تو غنی ہوجائے گا، اپنے قرب و جوار میں رہنے والوں سے حُسنِ سلوک کر تو مومن ہوجائے گا، لوگوں کے لیے وہی پسند کر، جو اپنے لیے کرتا ہے، تو عادل بن جائے گا، کم ہنسا کر، کیوں کہ یہ دل کو مُردہ کردیتا ہے۔‘‘ 

ایک شخص نے آپؒ کی غیبت کی، تو معلوم ہونے پر تازہ کھجوروں سے بھرا ایک تھال تحفے کے طور پر اُس کے پاس اِس پیغام کے ساتھ بھجوایا،’’سُنا ہے تم نے اپنی نیکیاں میرے نامۂ اعمال میں منتقل کردی ہیں۔‘‘کسی نے کہا’’ آپ ؒوعظ میں لوگوں کی اِس کثرت پر خوش تو ہوتے ہوں گے؟‘‘ فرمایا،’’ کثرت پر تو خوش نہیں ہوتا، ہاں اگر کوئی سوختۂ محبّتِ الٰہی ہوتا ہے، تو مجھے خوشی ہوتی ہے۔‘‘

انکسارو گریہ

آپؒ کی شخصیت کا ایک نمایاں پہلو عاجزی و کثرتِ گریہ تھی۔ اپنے دَور کے بڑے عالم، فقیہہ اور عبادت گزار ہونے کے باوجود دِکھاوے سے کوسوں دُور تھے۔ ہمیشہ باوضو رہتے۔ کثرت سے روزے رکھتے۔ اللہ کی محبّت اور اُس کی ناراضی کے خوف سے اِتنا روتے کہ آنکھوں میں گڑھے پڑ گئے۔ مزاج میں بہت زیادہ انکسار تھا۔سب سے نہایت عزّت واحترام سے پیش آتے اور سب کو خود سے افضل سمجھتے۔ ایک بار کافی عرصے تک شہر میں بارش نہ ہوئی، تو لوگ دُعا کے لیے آپؒ کے پاس آئے، جس پر آپؒ نے فرمایا،’’ سب سے گناہ گار شخص کو شہر سے نکال دو، تو شاید بارش ہوجائے۔‘‘ لوگوں نے پوچھا،’’شیخ! وہ کون شخص ہے؟‘‘ روتے ہوئے فرمایا،’’حسن بصری۔‘‘

تفسیرِ قرطبی میں ہے کہ آپؒ بہت کم ہنسا کرتے تھے۔ امامِ غزالیؒ نے’’ احیاء العلوم‘‘ میں لکھا ہے کہ’’ حضرت حسن بصریؒ ہر وقت ایسے سہمے رہتے، جیسے اُنہیں سزائے موت سُنادی گئی ہو۔“اِس قدر عاجزی اور انکساری کے باوجود کبھی سچ کے اظہار سے گریز نہیں کیا، کلمۂ حق کہنے کی بنا پر حجّاج بن یوسف سے یہاں تک تعلقات خراب ہوئے کہ آپؒ کو 9 برس تک رُوپوشی کی زندگی گزارنا پڑی۔

سلاسلِ تصوّف کے امام

سلسلہ عالیہ نقش بندیہ کے علاوہ طریقت کے باقی تمام سلاسل کی آپؒ ہی کے ذریعے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے نسبت ہے۔ اہلِ علم میں اِس امر پر اختلاف ہے کہ آپؒ کی حضرت علی المرتضیٰؓ سے ملاقات ہوئی یا نہیں؟ کئی ایک کا کہنا ہے کہ آپؒ کبھی بھی اُن سے نہیں ملے، لیکن بہت سے علماء کے مطابق آپؒ نہ صرف یہ کہ حضرت علی المرتضیٰ ؓکی زیارت سے مشرّف ہوئے، بلکہ اُن سے فیض بھی حاصل کیا۔ 

بعض کتب میں یہ واقعہ درج ہے کہ جب حضرت سیّدنا علی المرتضیٰؓ بصرہ تشریف لائے، تو تمام افراد کو وعظ کرنے سے روک دیا تاکہ عوام تک درست دینی تعلیمات ہی پہنچائی جاسکیں، تاہم صرف حضرت حسن بصریؒ کو وعظ کا سلسلہ جاری رکھنے کی اجازت دی گئی۔ اِس موقعے پر معلومات کے لیے حضرت علیؓ حلیہ بدل کر آپؒ کی مجلسِ وعظ میں شریک ہوئے اور جب واپس جانے لگے، تو حضرت حسن بصریؒ نے اُنھیں پہچان لیا اور اُن سے مصافحے اور ملاقات کی سعادت حاصل کی۔

علمی مقام

ہر دَور کے علماء نے امام حسن بصریؒ کو تفسیر، حدیث، فقہ اور طریقت میں امام تسلیم کیا ہے۔ بلال بن ابی بردہؒ فرمایا کرتے تھے’’ مَیں نے حسن بصریؒ سے زیادہ کسی کو صحابۂ کرامؓ سے مشابہ نہیں پایا۔‘‘ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے ایک مسئلہ پوچھا گیا، تو آپ ؓ نےفرمایا،’’ ”حسن “ (بصری )سے پوچھو۔‘‘ حضرت امام محمد غزالیؒ کا ارشادِ گرامی ہے’’ امام حسن بصریؒ فصاحت و بلاغت کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز تھے۔ اُن کی زبان سے حکمت کے پھول جَھڑتے تھے۔‘‘ طبقات ابنِ سعد میں اُنھیں یوں خراجِ عقیدت پیش کیا گیاہے’’ امام حسن بصریؒ ایک اونچے درجے کے عالم، جامع کمالات، فقیہہ، عابد، زاہد، کثیر العلم اور حسین وجمیل تھے۔‘‘ آپؒ کی فقہی اور تفسیری خدمات پر عربی زبان میں بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں، جن میں سے کئی ایک کا اردو میں بھی ترجمہ ہوچکا ہے۔ واضح رہے، آپؒ کا تحریر کردہ صرف ایک مختصرسا رسالہ ہی دست یاب ہے۔

کرامات

آپؒ کی اصل کرامت تو یہی ہے کہ ہزار ہا افراد کو علم و تقویٰ کی راہ دِکھائی، مگر آپؒ سے کئی دیگر کرامات بھی منسوب ہیں۔ آپؒ حج کے لیے روانہ ہوئے، تو راہ میں ساتھیوں کو شدّت سے پیاس لگی۔ ایک کنویں پر نظر پڑی، لیکن وہاں کوئی رسّی تھی اور نہ ڈول۔جب آپؒ کو معلوم ہوا، تو فرمایا،’’ جب مَیں نماز میں مشغول ہو جاؤں، تو تم پانی پی لینا۔‘‘

آپ ؒنماز کے لیے کھڑے ہوئے، تو کنویں سے پانی اُبل پڑا اور سب لوگوں نے پانی پیا، جب کہ ایک شخص نے کچھ پانی ایک برتن میں رکھ لیا، جس پر کنواں ایک دَم پرانی حالت میں آگیا۔آپ ؒنے فرمایا،’’ تم نے اللہ پر اعتماد نہیں کیا، یہ اُسی کا نتیجہ ہے؟‘‘معروف کتاب’’تذکرۃ الاولیاء‘‘ میں اِسی سفر کی یہ کرامت بھی درج ہے کہ آپ ؒنے لوگوں کو راستے میں سے کچھ کھجوریں اُٹھا کر دیں، جن کی گٹھلیاں سونے کی تھیں۔ لوگوں نے وہ گٹھلیاں بیچ کر کھانے پینے کا سامان خریدا اور صدقہ بھی کیا۔

اولاد

آپؒ کی ازدواجی زندگی اور اولاد سے متعلق زیادہ مواد دست یاب نہیں، تاہم کئی مقامات پر آپؒ کے لیے ابو محمّد، ابو سعید، ابو النصر اور ابو علی کی کنیت استعمال ہوئی ہے، جس سے پتا چلتا ہے کہ آپؒ کے کئی صاحب زادے تھے۔آپ ؒکے دو بھائیوں کا بھی تذکرہ ملتا ہے، جن میں حضرت سعید عالمِ حدیث اور حضرت عمّار ممتاز صوفی تھے۔

وصال

آپؒ کا وصال یکم رجب 110 ہجری کو 89 برس کی عُمر میں بصرہ میں ہوا، وہیں آج بھی آپؒ کا مزار مرجعِ خلائق ہے۔بعض نے تاریخِ وفات 4 محرم الحرام، 111 ہجری، 8 اپریل 729ء بھی تحریر کی ہے۔ تعبیرِ رویاء کے امام، حضرت محمّد بن سیرینؒ کو کسی نے کہا’’ مَیں نے خواب دیکھا کہ ایک پرندے نے مسجد سے سب سے بہترین کنکری لے لی‘‘ تو حضرت ابنِ سیرینؒ نے فرمایا،’’ اگر تمہارا خواب سچّا ہے، تو یہ حضرت حسن بصریؓ کی موت ہے، کیوں کہ وہی ہمارے درمیان مسجد میں سب سے بہتر ہیں۔‘‘ چند دن بعد ہی آپؒ کے انتقال کی خبر آگئی۔ نمازِ جمعہ کے بعد آپؒ کی نمازِ جنازہ پڑھائی گئی، تو پورا بصرہ اُمڈ آیا۔کہا جاتا ہے کہ بصرہ میں یہ پہلا موقع تھا، جب جامع مسجد میں عصر کی نماز نہیں پڑھی گئی، کیوں کہ تمام لوگ جنازے کے ساتھ چلے گئے تھے اور نماز پڑھنے کے لیے مسجد میں کوئی شخص نہیں تھا۔

تازہ ترین