• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وکلاء سیکٹر بنانے کیلئے سپریم کورٹ جج کمیٹی کا سربراہ بن سکتا ہے؟

اسلام آباد (انصار عباسی) اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی جانب سے حال ہی میں اسلام آباد کے سیکٹر ایف 14؍ اور ایف 15؍ میں ججوں کو پلاٹس کی الاٹمنٹ معطل کرنے کے فیصلے سے حوصلہ پا کر مقامی زمین مالکان نے پیر کو اسی عدالت میں ایک درخواست دائر کی ہے جس میں سپریم کورٹ کے جج کے ماتحت قائم کردہ لینڈ سپروائزری کمیٹی تشکیل دیے جانے کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا ہے، یہ کمیٹی اسلام آباد کے نئے سیکٹر میں سینئر وکلاء کیلئے زمین کے پرسکون حصول میں معاونت فراہم کرنے کیلئے قائم کی گئی تھی۔ موضع موہرین کے زمین مالکان ناراض ہیں کہ سپریم کورٹ کے جج کی زیر قیادت قائم کی گئی لینڈ سپروائزری کمیٹی نے سیکشن 4؍ نافذ کر دیا ہے اور اب مارکیٹ کے نرخوں کے مقابلے میں بہت کم نرخوں پر مقصد کیلئے زمین حاصل کی جا رہی ہے۔ زمین مالکان نے عدالت میں اس کمیٹی کے قانونی ہونے کو چیلنج کیا ہے اور ساتھ ہی مطالبہ کیا ہے کہ ان کی زمینوں کے نرخ بڑھائے جائیں۔ اس درخواست (احسن امتیاز بھٹی بنام فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہائوسنگ اتھارٹی اور دیگر) میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کا کوئی بھی جج ایگزیکٹو کو ہدایت جاری نہیں کر سکتا ماسوائے جوڈیشل آرڈر کے۔ سپریم کورٹ کے کسی بھی معزز جج کی جانب سے کمیٹی چیئرمین کی حیثیت سے جاری کردہ کوئی بھی حکم غیر قانونی قرار دیا جائے۔ دی نیوز میں حال ہی میں لینڈ سپروائزری کمیٹی کے قیام کے حوالے سے خبر شائع ہوئی تھی، یہ کمیٹی سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کیلئے فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہائوسنگ اتھارٹی کی جانب سے پارک روڈ اسلام آباد سائٹ پر قائم کی جانے والی ہائوسنگ اسکیم کے ترقیاتی کام کی نگرانی کیلئے قائم کی گئی ہے۔ ایف جی ای ایچ اے کے 13ویں ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس میں کمیٹی کی کے وضع کردہ ایکشن پلان کے تحت سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اس بات کو یقینی بنائے گی کہ مختلف عدالتوں میں مذکورہ زمین کے حوالے سے زیر التوا تمام مقدمات زمین مالکان واپس لیں گے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن ایف جی ای ایچ اے کی مدد کرے گی تاکہ زمین کے حوالے سے باقی ماندہ اقدامات کیے جا سکیں۔ لینڈ سپروائزری کمیٹی نے تجویز پیش کی ہے کہ یہ اسکیم مختلف مراحل میں جاری کی جائے جس میں سے فیز ون 4100؍ کنال پر مشتمل ہوگا اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے ارکان کیلئے مختص ہوگا۔ سپریم کورٹ بار ایسوس ایشن موضع موہرین میں 4100؍ کنال زمین کے حصول میں ایف جی ای ایچ اے کی مدد کرے گی اور سائٹ تک رسائی کیلئے 90؍ کنال پر مشتمل 150؍ فٹ چوڑی سڑک بنائی جائے گی جو موضع تما سے گزرے گی جس کے بعد ایف جی ای ایچ اے ترقیاتی کام شروع کرے گی۔ تاہم، اس صورتحال نے ان موضعوں کے زمین مالکان کو پریشان کر دیا ہے جو شکایت کر رہے ہیں کہ ہائوسنگ اسکیم کی تعمیر کیلئے جو زمین حاصل کی جا رہی ہے ان کے نرخ بہت کم لگائے جا رہے ہیں۔ ان کا اصرار ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے پہلے ہی اپنے فیصلے میں ہدایت دیدی ہے کہ زمین مارکیٹ کے نرخوں پر حاصل کی جائے۔ لینڈ سپروائزری کمیٹی نے ایف جی ای ایچ اے کو ہدایت کی ہے کہ سیکشن چار نافذ کرکے موضع موہرین میں مزید زمین حاصل کی جائے تاکہ زمین کی قلت کو پورا کیا جا سکے۔ گزشتہ جمعہ کو چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے اسلام آباد کی عدلیہ کو سیکٹر ایف 14؍ اور ایف 15؍ میں دیے گئے پلاٹس کی الاٹمنٹ معطل کر دی اور قرار دیا کہ زمین دینا مفاد کے تضاد کے زمرے میں آتا ہے۔ چیف جسٹس تھلا سیدان اور جھنگی سیدان کے گائوں میں پراپرٹی مالکان کی دائر کردہ پٹیشن کی سماعت کر رہے تھے۔ سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے کہا یہ بات سامنے آئی ہے کہ فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہائوسنگ اتھارٹی (ایف جی ای ایچ اے) نے حال ہی میں سیکٹر ایف 14؍ اور ایف 15؍میں پلاٹس کی قرعہ اندازی کی ہے اور فہرست میں تقریباً اسلام آباد کی ہر ضلعی عدالت کے جج کا نام آیا ہے، جن لوگوں کو متاثرہ زمین مالکان کی شکایت کا ازالہ کرنا چاہئے انہیں ہی فائدہ پہنچایا گیا ہے۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ بادی النظر میں اس صورتحال سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ کہیں یہ مفاد کا تضاد تو نہیں کیونکہ جن لوگوں کو فائدہ پہنچایا گیا ہے انہیں موجودہ مارکیٹ ریٹ سے کم نرخوں پر پلاٹس الاٹ کیے گئے ہیں اور اسلئے فائدہ اٹھانے والے کو مالی فائدہ ہوگا۔

تازہ ترین