اسلام آباد (طارق بٹ) سپریم کورٹ ازخود دائرہ اختیار کا فیصلہ کرے گی، کیا یہ طاقت پاکستان کے چیف جسٹس کے علاوہ دوسرے جج استعمال کر سکتے ہیں؟ سپریم کورٹ اپنے ازخود دائرہ اختیار کی درخواست کے بارے میں فیصلہ کرنے جا رہی ہے اور آیا یہ طاقت پاکستان کے چیف جسٹس کے علاوہ دوسرے جج استعمال کر سکتے ہیں۔روایت یہ رہی ہے کہ کوئی بھی بینچ چیف جسٹس کو عوامی اہمیت کے کسی بھی معاملے کی ازخود دائرہ اختیار کے لیے سفارش کر سکتا ہے۔ لیکن یہ اختیار اعلیٰ ترین جج کے پاس ہے۔ سپریم کورٹ ازخود دائرہ اختیار کو حرکت میں لانے کے لیے وضاحت بھی فراہم کرے گی۔ یہ سوال اس وقت پیدا ہوا جب قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس جمال خان مندوخیل پر مشتمل دو رکنی بینچ نے 20 اگست کو پانچ صحافیوں کی جانب سے دائر درخواست پر ازخود نوٹس لیا تھا۔ اس کا تعلق وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی جانب سے دو میڈیا کے افراد کو ہراساں کرنے سے تھا۔ ججوں کے اس پینل کی جانب سے مختلف حکومتی عہدیداروں کو جاری کردہ سمن کو قائم مقام چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے معطل کردیا۔ پینل اس طریقے کا بھی جائزہ لے گا کہ ازخود نوٹس عدالتی طریقہ کار کے مطابق نہیں لیا گیا۔ پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن سمیت پریمیئر بار باڈیز کا دیرینہ مطالبہ رہا ہے کہ ازخود اختیارات کو کنٹرول کیا جائے تاکہ انہیں کثرت سے نہ کیا جائے۔ وہ اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ اپیل کا حق متاثرہ فریق کو بڑے بینچ کے سامنے دیا جانا چاہیے۔