(دوسری اور آخری قسط)
ون یونٹ کے نفاذ سے دوسرے صوبوں کو کیا نقصانات پہنچے، وہ ہم یہاں زیربحث نہیں لا رہے لیکن صوبہ سندھ پر اس کے اطلاق سے بہت سے معاشی، معاشرتی مسائل پیدا ہوئے جن کے نتیجے میں آج تک سندھ نہ سنبھل پایا ہے۔ جغرافیائی، تاریخی، ثقافتی اور لسانی جداگانہ حیثیت ختم کرکے اسے اضلاع اور ڈویژن میں تقسیم کردیا گیا۔
ہر قوم کی میراث اور قیمتی سرمایہ اس کی زبان اور ادب ہوتا ہے۔ اس سے پہلے کسی بھی بیرونی حملہ آور یا فاتح بشمول انگریزوں نے اسے ختم نہ کیا بلکہ انگریزوں نے تو سندھی زبان کی حروف تہجی کو بنانے اور ادب کی ترویج کیلئے کام کئے لیکن ون یونٹ کے بعد مغربی پاکستان کی حکومت نے اسکولوں میں سندھی زبان کو ذریعہ تعلیم ختم کرکے اردو کو رائج کردیا جو کہ ’’یونیسکو‘‘ کے اصولوں کے برخلاف فیصلہ تھا جس میں میٹرک تک مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے کی اہمیت پر زور اور ترجیح دی گئی تھی۔
سندھی مادری زبان کو اسکولوں سے ختم کرنے اور اردو کو ذریعہ تعلیم بنانے پر سندھ میں سخت احتجاج شروع ہوگیا جس کے نتیجے میں پھر حکومت نے عارضی طور پر یہ حکم نامہ جاری کیا کہ سندھی (فی الحال) بارہویں جماعت تک ذریعہ تعلیم رہے گی اور اردو کو لازمی قرار دینے کی مدت میں ایک سال کا اضافہ کیا گیا۔کراچی کے میڈیکل اور انجینئرنگ کالج کے دروازے پورے مغربی پاکستان کیلئے کھل گئے اور سندھ سے آنے والے شاگردوں کیلئے 20؍فیصد سیٹیں رہ گئیں۔
سندھ میں اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں قائم ہونا بند ہوگئیں۔ ترقیاتی بجٹ مغربی پاکستان کیلئے تو بڑھا لیکن سندھ کو اس کا حصہ نہیں مل سکا۔ 1951ء میں شروع کیا گیا گڈو بیراج کا منصوبہ 1971ء تک بھی مکمل نہ ہوپایا ،خاص طور پر آبپاشی کے منصوبے پایہ تکمیل تک نہ پہنچ پائے۔ ون یونٹ بننے کے بعد 1955ء میں سندھ کے وزیراعلیٰ ایوب کھوڑو نے سندھ حکومت کی طرف سے مغربی پاکستان کی مرکزی حکومت کو حاتم طائی بن کر 24؍کروڑ روپے دیئے تھے۔ یہ گڈو بیراج اور سندھ یونیورسٹی کے نئے کیمپس جامشورو کیلئے رکھے گئے تھے۔
ایوب کھوڑو اپنی اس ’’سخاوت‘‘ کیلئے بھی سندھیوں کے غیض و غضب کا نشانہ بنے رہے اور ون یونٹ کی حمایت کرنے اور مغربی پاکستان کی حمایت کرنے پر سندھ کی سیاسی تاریخ میں ایک سخت گیر منتظم اور اچھی سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے کے باوجود وہ ایک ’’غدار‘‘ کے طور پر یاد کئے جاتے ہیں (گو کہ اس کے بعد سندھ سے تعلق رکھنے والے کئی سیاستدان جن میں اردو بولنے والے بھی شامل ہیں، کرسی حاصل کرنے میں کبھی کا ایوب کھوڑو کا ریکارڈ توڑ چکے ہیں) ایوب کھوڑو کی بیٹی ڈاکٹر حمیدہ کھوڑو نے سیاسی اور تاریخی حقائق پر تحقیق کی روشنی میں ایک کتاب لکھی تا کہ والد کی ساکھ کو بحال کرپائیں لیکن اس کے بعد بھی ایوب کھوڑو کے دامن سے سندھ سے بے وفائی کرنے کا داغ نہیں مٹ سکا۔
ون یونٹ بننے کے بعد قومی یکجہتی تو کیا آنی تھی، اس کے بجائے صوبائیت کے پودے نے جڑیں مضبوط کرنی شروع کردیں، اس لئے کہ یہ کسی صورت پاکستان کے تمام علاقوں کو یکساں انصاف دینے میں ناکام رہا بلکہ اس کے ذریعے پنجاب کی بالادستی کو استحکام ملا، بنگالیوں کے احساس محرومی میں اضافہ ہوا ، اس نئے نظام کے تحت ان کی اکثریت کو کمی یا برابری میں تبدیل کیا گیا۔
بنگالی عوام میں بھی یہ احساس عام ہوگیا کہ ان کے لیڈروں نے ان کے ساتھ غداری کی ہے اور اس طرح مشرقی پاکستان میں بھی قومی یکجہتی کے بجائے بنگالی قومیت اور علیحدگی پسندی کے خیالات ابھرنا شروع ہوگئے۔ ان کا ثبوت اگرتلہ سازش کیس اور مجیب الرحمٰن کے چھ نکات میں دیکھا جاسکتا ہے، جس میں اس نے فیڈریشن کے بجائے کنفیڈریشن کی مانگ کی تھی۔ آگے چل کر یہی نکات مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی وجہ بنے۔
صوبہ سندھ میں ون یونٹ کے اطلاق سے بہت سے معاشی، معاشرتی مسائل پیدا ہوئے جن کے نتیجے میں آج تک سندھ نہ سنبھل پایا ہے،اس کے بننے کے بعد قومی یکجہتی تو کیا آنی تھی، اس کے بجائے صوبائیت کے پودے نے جڑیں مضبوط کرنی شروع کردیں، اس لئے کہ یہ کسی صورت پاکستان کے تمام علاقوں کو یکساں انصاف دینے میں ناکام رہا ٭ون یونٹ کے دوران حکومت کا زیادہ تر نظام بیوروکریسی (نوکر شاہی) کے تحت ہی چلایا گیا
ون یونٹ کے دوران حکومت کا زیادہ تر نظام بیوروکریسی (نوکر شاہی) کے تحت ہی چلایا گیا جس میں پندرہ سالوں میں صرف دو سندھی سیکرٹریز کی تعیناتی ہوئی۔ ڈویژنل سطح پر سندھ میں 1950ء سے 1970ء تک کوئی سندھی ڈی سی نہیں رکھا گیا۔ پولیس میں 80؍فیصد ایس پی سطح کے افسران غیر سندھی رہے۔ ان حالات میں انصاف کہاں ہوسکتا؟ دارالحکومت کراچی سے اسلام آباد جانے کے بعد تو سندھ کے لوگ رل گئے۔ ہر چھوٹے بڑے کام کیلئے اسلام آباد یا لاہور کے دھکے کھانے پڑتے تھے۔ نوکریاں تو بے شمار تھیں لیکن دینے والے حکام کی نظر ان پرپڑتی ہی نہیں تھی۔
قیام پاکستان کے 74؍سال کے اس سفر کو جب مختصر کریں تو سیاست کی گتھیوں کو سلجھا کر قارئین کیلئے آسان بنا کر پیش کرنا بڑا ہی دشوار گزار مرحلہ بن جاتا ہے،پھر بھی جو واقعات اور کردار سندھ کی سیاست پر اثرانداز ہوتے رہے ہیں، وہ تو زیربحث آئیں گے۔ ان میں تین کردار آئیں گے جن کی پالیسیز کی وجہ سے سندھ کی سیاست میں تبدیلیاں واقع ہوتی چلی گئیں۔ ان میں ایک کردار اسکندر مرزا کا ہے جو ایک پاکستانی اور بنگالی جنرل، بزنس مین اور سول سرونٹ تھے۔ 1956ء میں پاکستان کے پہلے صدر منتخب ہوئے اور 1958ء میں اس وقت تک اس عہدے پر رہے جب تک اپنے مقرر کردہ فوجی کمانڈر جنرل ایوب خان نےانہیں معطل نہ کردیا۔
اسکندر مرزا 1946ء میں برٹش انڈیا میں وزارت دفاع میں جوائنٹ سیکرٹری بنے۔ یہاں سے ان کی ترقی کا سفر شروع ہوا۔ 1947ء میں لیاقت علی خان کے زمانے میں سیکرٹری دفاع بنے۔ 1954ء میں مشرقی پاکستان(سابق) میں اپنے آبائی صوبے کے گورنر بنے۔ بوگرہ حکومت میں وزیر داخلہ اور بالآخر جب اپنی شاطرانہ چالوں سے گورنر جنرل غلام محمد کو چلتا کیا تو اس کے صلے میں پاکستان کی صدارت ان کے حصے میں آئی۔
1951ء میں شروع کیا گیا گڈو بیراج کا منصوبہ 1971ء تک بھی مکمل نہ ہوپایا ،خاص طور پر آبپاشی کے منصوبے پایہ تکمیل تک نہ پہنچ پا
ان کے دور میں عدم استحکام رہا۔ سول انتظامیہ میں ان کا عمل دخل بہت زیادہ اور غیر آئینی نظر آتا ہے کہ محض دو سال کے عرصے میں چار وزیراعظم فارغ کئے ۔ اسکندر مرزا کو جب اپنے دوبارہ صدر منتخب ہونے میں دشواری کا احساس ہوا تو اپنی حکومت جو اس وقت کے وزیراعظم فیروز خان نون کے ماتحت چل رہی تھی، فوجی کمانڈر جنرل ایوب خان کی مدد سے آئین معطل کرکے 8؍اکتوبر 1958ء میں پاکستان میں پہلا مارشل لا نافذ کردیا۔
صدر پاکستان نے اس سلسلے میں جو فرمان جاری کیا، اس کے خاص نکات تھے۔
(الف) 23؍مارچ 1956ء کا آئین منسوخ کیا جاتا ہے۔
(ب)مرکزی اور صوبائی حکومتیں فوری طور پر ڈسمس کی جارہی ہیں۔
(پ)قومی پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیاں توڑ دی جائیں گی۔
(د)تمام سیاسی پارٹیاں ختم کردی جائیں گی۔
(ح)جب تک کوئی متبادل انتظام نہیں ہوتا، تب تک پاکستان مارشل لا کے تحت چلے گا۔ میں پاک افواج کے کمانڈر انچیف جنرل محمد ایوب خان کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کررہا ہوں اور تمام مسلح افواج ان کی کمان میں دیتا ہوں۔
مارشل لا نافذ ہونے کے پہلے فرمان کے ساتھ ہی پورے ملک میں سنسرشپ بھی عائد کردی اور فوج نے ایسے تمام مراکز کو اپنی تحویل میں لے لیا جن کے ذریعے کوئی بھی پیغام رسانی ہوسکتی تھی۔ اخبارات کو کہہ دیا گیا وہ صرف وہی خبریں چھاپیں گے جو حکومت یا ان کے مقرر کردہ آفیسر جاری کریں گے۔
جنرل ایوب خان کو ملک کے حساس ادارے کے سربراہ کی حیثیت سے اس انتظام کے متعلق بہت کچھ معلوم تھا، جس پوزیشن میں وہ اس وقت تھے تو آنے والے واقعات کے متعلق کوئی پیش گوئی کرنا کچھ ایسا مشکل کام بھی نہیں تھا۔ اس کے علاوہ غلام محمد اور اسکندر مرزا جیسے لوگوں کے ساتھ کام کرتے کرتے وہ بہت سے معاملات کو جان چکے تھے لہٰذا 1958ء کے کے مارشل لا ءکے نفاذ سے پہلے ہی دل کے کسی گوشے میں اقتدار کی خواہش رکھنا یا اس میں شامل ہونا، کوئی عجیب بات نہیں لگتی اور ان کے ذہن میں ایک خاکہ ضرور موجود ہوگا کہ اگر اس قسم کی کوئی صورتحال سامنے آجائے تو انہیں کیا کچھ کرنا ہوگا۔
اسکندر مرزا کے دور میں عدم استحکام رہا۔ سول انتظامیہ میں ان کا عمل دخل بہت زیادہ اور غیر آئینی نظر آتا ہے کہ محض دو سال کے عرصے میں چار وزیراعظم فارغ کئے ۔ اسکندر مرزا کو جب اپنے دوبارہ صدر منتخب ہونے میں دشواری کا احساس ہوا تو اپنی حکومت، جو اس وقت کے وزیراعظم فیروز خان نون کے ماتحت چل رہی تھی، فوجی کمانڈر جنرل ایوب خان کی مدد سے آئین معطل کرکے 8؍اکتوبر 1958ء کو پاکستان میں پہلا مارشل لا نافذ کردیا
چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد جنرل ایوب خان کے سامنے دو مقاصد اور ایک پلان تھا جس کے تحت وہ انتہائی احتیاط کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتے تھے۔ اول ہر صورت اسکندر مرزا سے جان چھڑانا اور دوئم سیاستدانوں کی طرف سے کسی مخالفت یا مزاحمت کا سامنا کرنا۔ اسکندر مرزا کی چالاکیوں اور چالبازی سے جنرل ایوب خان واقف تھے لہٰذا انہوں نے اپنے ماتحتوں کو ان کی سرگرمیوں کی نگرانی پر مامور کردیا جنہوں نے 15؍اکتوبر کو کچھ ایسی رپورٹیں دیں جس کے مطابق اسکندر مرزا کوئی متوازی گروپ بنانے کی کوشش میں تھے، اسی اثناء میں ایوب خان نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس منیر حسین سے بھی کچھ مشورے کرکے (غالباً ان کے مشورے سے) 24؍اکتوبر کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور سپریم کمانڈر کے عہدوں کے علاوہ خود کو وزیراعظم کا عہدہ بھی دے دیا اور ساتھ ہی 12؍وزیروں کی ایک وزراتی کونسل مقرر کی جس میں آٹھ شہری (Civilians) اور چار فوجی جرنیل شامل تھے۔
ان شہریوں میں ایک نوجوان قانون دان ذوالفقار علی بھٹو بھی تھے جن کا تعارف ان سے اسکندر مرزا نے کروایا تھا۔ اس طرح ایوب خان اپنی کابینہ میں سویلین کو شامل کرکے عام لوگوں کو یہ تاثر دینا چاہتے تھے کہ وہ اس ’’انقلاب‘‘ میں شہریوں کی شرکت ضروری سمجھتے ہیں لیکن اب ایوب خان کیلئے اسکندر مرزا کو ہٹانا ضروری ہوگیا تھا لہٰذا انہوں نے انہیں راستے سے ہٹا دیا۔
ایوب خان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد ون یونٹ اورعام انتخابات کی تاربخ کا اعلان بھی کردیا۔ ’’ون یونٹ کا اعلان بھی ایک صدارتی فرمان سے ہوا اور اختتام بھی صدارتی فرمان سے ہوا۔ ساتھ ہی انتخابی فہرستوں کی تیاری کا حکم بھی دیا گیا اور انتخابات کی تاریخ 10؍اکتوبر 1970ء مقرر کردی گئی۔اس اعلان کے ساتھ ہی ملک میں سوئی ہوئی سیاسی سرگرمیاں بحال ہوگئیں، گوشہ نشین سیاستدان اور کارکن میدان میں آگئے۔ مشرقی پاکستان میں مجیب الرحمٰن اپنے چھ نکات کے ایجنڈے کے ساتھ میدان میں تھے اور مغربی پاکستان میں بھٹو ،روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے کے ساتھ لوگوں کی توجہ حاصل کرچکے تھے۔
انتخابی نتائج میں مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ نے 62؍نشستیں حاصل کیں اور مغربی پاکستان میں پاکستان پیپلزپارٹی نے 119؍نشستیں جیتیں۔ ووٹنگ کا رجحان دونوں صوبوں کے درمیان عدم اعتمادی کا بڑا مظہر ہے۔
16؍دسمبر 1971ء پاکستان کی تاریخ کا وہ سیاہ دن ہے جب ملک کے دو ٹکڑے ہوگئے۔مکتی باہنی کے حملوں میں سیکڑوں نہیں ہزاروں زندگیاں ختم ہوئیں۔ مشرقی پاکستان، بنگلہ دیش بن گیا۔ مغربی پاکستان میں پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت بنی۔ 70ء کی دہائی میں پیپلزپارٹی نے ملک پر کامیاب حکمرانی کی۔ 1973ء میں ملک کو آئین دیا اور ملک کو جمہوریت کی راہ پر گامزن کیا اور اسے سوشلسٹ ڈیموکریٹک حکومت بنانے کی کوشش کی۔ قادیانیوں کو کافر قرار دیا گیا۔ اسلامی سربراہ کانفرنس کا انعقاد ہوا۔
سندھ میں پیپلزپارٹی نے حکومت بنائی اور7؍جولائی 1972ء کو سندھ اسمبلی سے سندھی زبان کو سندھ کی سرکاری زبان بنانے کا بل پاس کیا۔ دوسرے دن ’’جنگ‘‘ اخبار میں رئیس امروہوی کے ایک مصرعہ ’’اردو کا جنازہ ہے بڑی دھوم سے نکلے‘‘ عنوان سے پوری رپورٹ شائع کی جس سے کراچی سمیت پورے صوبے میں زبان کے معاملے پر فسادات پھوٹ پڑے۔ ان خونریز ہنگاموں کے بعد وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بڑی تگ و دو اور گفت و شنید کے بعد سندھی کے ساتھ اردو کو بھی صوبے کی سرکاری زبان بنا دیا۔
صوبہ سندھ کی سیاست نے بھٹو کی پھانسی اور ضیاء الحق کے ملک پر قبضے کرنے کے بعد نیا رخ اختیار کرلیا۔ جی ایم سید کی جئے سندھ موومنٹ ایک قوم پرست پارٹی کے طور پر ابھری۔ پیپلز پارٹی بھٹو کی پھانسی کے بعد معتوب رہی۔ اس دوران ضیاء الحق کی آشیرواد سے ’’مہاجر قومی موومنٹ‘‘ کی بنیاد ڈالی گئی۔ الطاف حسین اس کے بانی تھے۔ اس کا مقصد مہاجروں کو ایک علیحدہ شناخت دینے کی کوشش تھی۔
مہاجروں کے حقوق کے تحفظ پر بننے والی یہ پارٹی نے بہت ہی کم عرصے میں سندھ کے شہروں کراچی، میرپورخاص اور سکھر میں اپنی جگہ بنالی۔ الطاف حسین کا اپنی پارٹی اور صوبے کے لوگوں میں خوف تھا۔ اتنی عوامی طاقت رکھنے اور مختلف حکومتوں میں حصہ دار بننے، کراچی شہر کی میئر شپ لینے کے باوجود ایم کیوایم اپنے انتخابی حلقوں میں کوئی قابل ذکر کارنامے انجام نہیں دے پائی۔ 1990ء تک جو بھی حکومت، سندھ میں آئی، اس سے اپنا حصہ طلب کرتی رہی اور وفاقی حکومت میں بھی پورٹس اور شپنگ اور اوورسیز پاکستانیوں جیسی وزارتیں حاصل کرتی رہی۔ سندھ حکومت میں بھی تعلیم، صحت، ثقافت اور اطلاعات جیسے ڈپارٹمنٹ ان کو ملتے رہے لیکن کارکردگی کوئی خاص نہیں تھی۔
صوبہ سندھ میں کوئی بھی حکومت آئی، یہ اس کے حصہ دار بنے لیکن صوبے کی ترقی کسی کے بھی پیش نظر نہیں رہی۔
کوشش کی گئی کہ اسے لسانی سیاست کے بجائے قومی دھارے میں لایا جائےیوں وہ مرحلہ وار ختم ہوتی چلی گئی۔ جام صادق علی کے زمانے میں الطاف حسین پاکستان چھوڑ کر لندن چلے گئے اور وہاں سے پارٹی چلائی۔ جنرل مشرف کے دور حکومت میں ایم کیوایم پر خوب مہربانیاں رہیں۔ 1992ء میں ایم کیوایم پر ہندوستان سے رابطوں کے الزام پر ان کے خلاف آپریشن ہوا۔ اس کے ہیڈ کوارٹر کو سیل کردیا گیا، پارٹی تتربتر ہوگئی اور اس کے ممبران کے دو تین دھڑے بن گئے۔ ان میں سے ایک آج متحدہ قومی موومنٹ کے نام سے مرکزی حکومت میں شامل ہے۔ ایک دھڑا پاک سرزمین پارٹی بن گیا ہے باقی فاروق ستار، نہ ادھرکے رہے نہ ادھرکے… کراچی میں ایم کیوایم اپنا ووٹ بینک کھو چکی ہے، اس کی جگہ پاکستان تحریک انصاف بڑی تعداد میں سندھ اسمبلی میں اپوزیشن میں بیٹھی ہے۔
دوسری پارٹیوں میں فنکشنل مسلم لیگ بھی موجود ہے لیکن وہ دم خم ان میں بھی نہیں۔ ’’اسٹیبلشمنٹ کی پارٹی‘‘ ہونے کا ٹھپہ ان کے اوپر بھی لگا ہوا ہے۔ عوام سے ان کے سربراہ کا رابطہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ نواز لیگ سندھ سے غائب ہے۔ نواز شریف کی مرکز میں حکومت ہوتے ہوئے بھی انہوں نے سندھ پر اپنی توجہ مرکوز نہیں کی اور نہ ہی دلچسپی دکھائی۔ یہ غالباً اس ان دیکھے اور ان کہے سمجھوتے کا حصہ ہے جو زرداری اور نواز شریف کی سیاست کا حصہ سمجھا جارہا ہے کہ نواز شریف پنجاب سنبھالیں اور زرداری سندھ۔
پیپلزپارٹی بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد سکڑ کر سندھ تک محدود ہوچکی ہے۔ قوم پرست جماعتیں جی ایم سید کی وفات کے بعد سات آٹھ دھڑوں میں بٹ چکی ہیں جن میں سے زیادہ تر پارلیمانی سیاست نہیں کرتے لہٰذا انتخابات میں حصہ نہیں لیتے۔ رسول بخش پلیجو کی عوامی تحریک بھی ان کی وفات کے بعد دو دھڑوں میں بٹ گئی۔ اس کے ایک دھڑے کے سربراہ ان کےبیٹے ایاز لطیف پلیجو ہیں۔
اس صورتحال میں پیپلزپارٹی کو سندھ میں کسی بھی پارٹی کی طرف سے کسی بڑی مخالفت کا سامنا نہیں ہے لہٰذا گزشتہ تیرہ سالوں سے صوبہ سندھ پر پیپلزپارٹی کی حکومت ہے۔ ان بارہ سالوں میں صوبہ سندھ پورے پاکستان میں ترقی کی رفتار میں پیچھے ہی نظر آتا ہے۔ تعلیم کا خانہ خراب ہے۔ صحت، لوکل گورنمنٹ اور سیکورٹی (پولیس) جس شعبے میں ہاتھ ڈالیں، کرپشن کی داستانیں نکل رہی ہیں۔ پارٹی کے شریک چیئرمین، چیئرمین سے لے کر (کوئی ایک آدھ کو چھوڑ کر) باقی وزراء اور ممبران ’’نیب‘‘ کے ریڈار پر ہیں اور ضمانتوں کی گاڑی پر سوار ہیں۔
پاکستان کے قیام سے لے کر 74؍سال کی کہانی آپ کی خدمت میں پیش کردی ہے۔ ہماری فوجی حکومتوں، ایجنسیوں اور بیوروکریسی نے تو جو کیا ہے، وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے لیکن سیاستداں خواہ وہ سندھی بولنے والے ہوں یا اردو بولنے والے! جمہوریت کے نام پر اپنے ووٹرز کو جو دھوکا دیا ہے اور ذلت کے گڑھے میں دھکیلا ہے، اس کا حساب آنے والاوقت اور نسلیں ضرور لیں گی۔